اس ترقی یافتہ،روشن ذہن و روشن خیال دورمیں انسانوں
کے ساتھ پرندوں،جانوروں،حشرات ونباتات،مختصرکہ خشکی وتری کی تمام ترمخلوقات
کے حقوق تسلیم کئے جاچکے ہیں،ترقی یافتہ دورمیں نہیں ہیں تودنیابھرمیں
مسلمانوں اوردیگرکمزورطبقات کے حقوق نہیں ہیں باقی سب کے حقوق
ہیں،جانوروں،پرندوں،کیٹروں،مکوڑوں،سمندروں،دریاؤں،پہاڑوں،زمین،خلا،ہوا،فضاکے
حقوق کی بات کی جاتی ہے،بہت سارے عالمی دن منائے جاتے،یہاں تک کے ہوامیں
اڑتے ایسے ذرات کے بھی حقوق ہیں جنہیں انسانی آنکھ دیکھ یامحسوس کرنے کی
صلاحیت نہیں رکھتی،دنیاکے تمام مذاہب،عقائدونظریات ایک طرف نظرآتے اوراسلام
کے پیروکاریعنی مسلمان دوسری جانب، دین اسلام کے علاوہ تمام مذاہب کے ماننے
والے دنیاکے وسائل پرقابض ہونے کے باوجودمسلمانوں سے خائف معلوم ہوتے
ہیں،قابل ذکروقابل فکربات یہ ہے کہ مسلم دشمن نظریات کے حامل درجنوں طبقات
ایک پیج پرہیں جبکہ ایک اﷲ کے ماننے والے ایک امت ہونے کے باوجود فرقوں
اورگروپوں میں تقسیم ہوکر دشمن کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں،ہم
کشمیر،فلسطین،برما،شام،عراق،افغانستان ودیگرمسلم ریاستوں کی بات کرتے ہیں
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پوری دنیاکے مسلمانوں کے حقوق تسلیم نہیں کئے
جاتے،سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیامسلمان انسان نہیں؟جواب یہ ہے کہ ہیں بالکل
مسلمان بھی انسان ہی ہیں فرق یہ ہے کہ مسلمان ایسے مذہب کے پیروکارہیں
جومظلوم کی حمایت کرتاہے،جوبلاامتیازعدل وانصاف کے عملی نمونے پیش کرکے
قائم کرنے کامطالبہ کرتاہے،جووسائل کی تقسیم کے وقت حاکم ومحکوم کے درمیان
تفریق نہیں کرتا،جوحقوق طلب کرنے سے پہلے ادائیگی فرائض کاحکم
دیتاہے،جوظالم کے ظلم کو زبان اورہاتھوں سے روکنے کی تحریک
پیداکرتاہے،جومعاشرے کے تمام طبقات کواپنی حدودکاپابندکرتاہے،جوسود،دھوکہ
دہی،ملاوٹ،کرپشن،رشوت وسفارش سمیت تمام جرائم پرسزادینے میں دیرنہیں
کرتا،جس کانظام عدل رنگ ونسل،مذہب وملت،اپنے اورپرائے کی تمیزنہیں کرتا،یہ
حقیقت ہے کہ اسلام مخالف قوتیں مسلمانوں کیخلاف سازشوں میں ملوث ہیں پریہ
بھی حقیقت ہے کہ مسلمانوں نے دین اسلام کے احکامات کے مطابق انصاف کرنا
چھوڑ دیا ہے،سود،تکبر،رشوت،ملاوٹ،جھوٹ،غیبت،چغلی،منافقت سے بازنہیں
آتے،اسلام دشمن طبقات کے نظریات،روایات ومفادات الگ الگ ہیں پھربھی ان کے
نزدیک انسانی حقوق اہم ہیں،مسلم معاشرے میں
علماء،سیاستدانوں،صحافیوں،فوجیوں،ججزوکلاء،ڈاکٹرز،حکمرانوں،سرکاری
عہدہداروں یعنی دولت مندطبقات کے حقوق ہیں پرانسانوں کے یکساں حقوق تسلیم
نہیں کیے جاتے،مسلمان سادگی کی جگہ پروٹوکول کے دل رادہ ہوچکے ہیں،وکلاء
کااتحادمثالی ہے اس لیے ان کے نزدیک دیگرانسان وکلاء سے مختلف ہیں،ڈاکٹرزنے
سیاستدانوں کے اشاروں پریونین بنارکھی ہے لہٰذاڈاکٹرزغیرمعمولی
اوردیگرانسان کیٹروں مکڑوں کی طرح غیرمعمولی ہوتے جارہے ہیں،ڈاکٹرزنے
اسپتال عملے کے ساتھ مل کراسپتال کے اندروکلاء پرتشددکرکے اپنے تعلیم یافتہ
اورباشعورہونے کاثبوت پیش کیا،سکیورٹی اداروں اورحکومت نے وکلاء کے غصے
کوغیرمعمولی سمجھااورمذاق بنانے کی کوشش کی اورپھروکلاء نے اسپتال
پرداوابول کرآئین و قانون کے محافظ اور مہذب ہونے کی دلیل پیش
کردی،وزیراطلاعات پنجاب نے پولیس کوپیچھے ہٹنے کے احکامات جاری کروانے کی
بجائے مردمیدان بننے کی کوشش میں دھکے کھائے اوربدکلامی کانشانہ بنے،وکلاء
کامعاملہ ڈاکٹرزکے ساتھ ہے اسپتال میں زیرعلاج مریضوں کے ساتھ بالکل نہیں
پراسپتال انتظامیہ نے کچھ مریضوں کے جانبحق ہونے کی ذمہ داری وکلاء پرڈال
کرسیاست کرنے کی کوشش کی،اﷲ نہ کرے کوئی ڈاکٹریااسپتال کاکوئی ملازم جان سے
جاتاتووکلاء پرڈالاجاسکتاتھا،مریضوں کے جانبحق ہونے کی ذمہ داری وکلاء
پرڈالناسمجھ سے بالاترہے،،وکلاء کے مطابق دہشتگردی کی ایف آئی آر درج ہونے
کے باوجودپولیس نے نامزدملزمان کوگرفتارنہیں کیا،وکلاء برادری کاموقف درست
ہے توپھرانہیں اسپتال نہیں بلکہ آئی جی آفس جاناچاہیے تھاوہ بھی پرامن رہتے
ہوے تاکہ پولیس کوکارروائی پرمجبورکیاجاتا،یہ مانناپڑتاہے کہ میڈیامکمل
آزادنہیں پھربھی تصویرکے دونوں رخ پیش کرناصحافتی ذمہ داری ہے،وکلاء برادری
نے میڈیاکیلئے جوالفاط اورلہجہ استعمال کیاوہ انتہائی غیرذمہ دارانہ
رہا،ہنگامہ میڈیانے نہیں کیا،توڑپھوڑمیں میڈیاکاکوئی کردارنہیں،صحافی اپنی
جان پرکھیل کرحقائق اکٹھے کرتے ہیں،جوسامنے آتاہے اسی کوبیان کرتے
ہیں،میڈیاکی وکلاء یاڈاکٹرزکے ساتھی کوئی ذاتی رنجش نہیں،میڈیانے وہی
دیکھایا،بولااورلکھاجونظرآیااورجوسنائی دیا،میڈیاپرتنقیدکرنے کی بجائے
وکلاء برادری اپنے موقف کوبہتراندازمیں پیش کرے تو میڈیاکیلئے وکلاء کانکتہ
نظرپیش کرنے میں آسانی پیداہوسکتی ہے،وجوہات کچھ بھی ہوں،حقائق کیسے بھی
ہوں یہ سچ ہے کہ وکلاء بھی زخمی ہوئے پرسارے ہنگامے کی مین ذمہ داری بھی
وکلاء پرہی عائدکی جارہی ہے،وکلاء اسپتال پرحملہ آورہونے کی بجائے
صبرکادامن تھامے رکھتے،متعلقہ اداروں کوڈاکٹرزکیخلاف کارروائی
پرمجبورکرتے،ماورہ عدالت کوئی اقدام نہ کرتے تووکلاء کی عزت میں اضافہ
ہوتا،اسپتال توڑکروکلاء اتحاداورکالے کوٹ کی عزت رہ گئی ڈاکٹرزبھی جیت گئے
البتہ انسانیت مکمل طورپرہارگئی،ڈاکٹرزاوروکلاء ہڑتال پرہیں اورانسانیت سسک
رہی ہے،انسانیت کاوکلاء سے سوال ہے کہ اُن سائلین کی کیاغلطی جن کے مقدمات
میں وکلاء ہڑتال کے سبب پیش نہیں ہوتے؟ڈاکٹرزسے سوال ہے کہ اُن مریضوں نے
کیاگناہ کیا ہے جنہیں ڈاکٹرزکی ہڑتال کے باعث تکلیف اٹھاناپڑتی ہے؟وکلاء
بھی اچھے ہیں ڈاکٹرزبھی برے نہیں براہے تویہ نظام ہے وہ نصاب ہے جس نے
انسانوں کوڈاکٹرزبنادیا،وکیل بنادیا،جج بنادیا،فوجی بنادیا،پولیس مین
بنادیا،صحافی بنادیا،سیاستدان بنادیاسب کچھ بنادیاپرانسان نہیں رہنے دیا،جس
سسٹم نے وکلاء اوریونیورسٹی کے طلباء کے ہاتھ میں اسلحہ تھمادیا،پڑھے لکھے
طبقے کوتوڑپھوڑ،جلاؤ گراؤاورتشددپرمائل کردیا،جوسسٹم طاقتورمجرموں
کوسزادینے کی بجائے سیٹلمنٹ کانام دے کرلین دین کرلیتاہے،دین اسلام
اورپاکستان کے دشمن اپنے مقاصدمیں کامیاب ہوتے جارہے ہیں جبکہ مسلم خاص
طورپرپاکستانی ایک دوسرے سے الجھ رہے ہیں
|