پاکستان جو اسلامی جمہوری ملک کی حیثیت سے عالمی سطح پر
جاناپہچانا جاتا ہے۔ گذشتہ چند ماہ کے دوران پاکستانی وزیر اعظم عمران خان
کے عزائم اور فیصلوں نے ملک و بیرون ملک ایک علحدہ شناخت بنائی ہوئی ہے۔
عمران خان ملک میں معیشت کی بہتری اور استحکام کے لئے جو عزائم لے کر اٹھے
ہیں اور عوام کو ایک نئے پاکستان کا جوخواب دکھایا ہے اس میں انہیں کسی حد
تک کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے۔ منی لانڈرنگ، کرپشن کے تحت کئی اہم سیاسی
قائدین اور عہدیداران دنوں عدلیہ کے چکر کا ٹ رہے ہیں یا جیلوں میں قید
ہیں۔ملک میں دہشت گردی اور لوٹ مارکے واقعات کمی دکھائی دے رہی ہے۔
ہندوستانی کشمیر یوں سے متعلق اقوام متحدہ میں عمران خان کی تقریر نے انہیں
عالمی سطح پر مسلمانوں کے رہنماء کی حیثیت سے نمایاں کیا ۔ ایک ایسے وقت جب
پاکستان میں اپوزیشن جماعتوں نے مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں عمران خان
کی حکومت کو کسی بھی صورت گرانے کی کوشش کی اور اس میں انہیں ناکامی کا منہ
دیکھنا پڑا۔فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی فوجی سربراہ کی حیثیت سے
تین سال کی توسیع پر اپوزیشن نے اعتراض کیا اور حکومت کے خلاف آواز اٹھائی۔
ایک وکیل کی جانب سے فوجی سربراہ کے توسیع معاملہ کو سپریم کورٹ میں لیجایا
گیا ، سپریم کور ٹ کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے اس
معاملہ کی شنوائی کی اور پھر آخر کار انہیں چھ ماہ کی توسیع دینے کا فیصلہ
دیا۔ گذشتہ ہفتہ ایک پاکستانی امیر ترین شہری ملک ریاض کی لندن میں ایک
تصفیے کے نتیجے میں ملنے والی کروڑوں پاؤنڈ کی رقم پاکستان منتقلی نے عمران
خان کیلئے ایک اور کامیابی کی طرف اشارہ کیا۔برطانیہ اور امریکہ کی جانب سے
پاکستانی معیشت کے استحکام کی تعریف کی گئی ۔ ان کامیابیوں نے عمران خان کی
بڑھتی ہوئی شہرت میں مزید اضافہ کیا۔ لیکن 11؍ ڈسمبر بروز چہارشنبہ پاکستان
کی تاریخ میں سیاہ دن لکھا جائے گا کیونکہ سیاہ کوٹ پہننے والوں نے ایک
ایسا گھناؤنا پرتشددکام انجام دیا جسے تاریخ کبھی معاف نہیں کرپائے گی۔
جہاں پر مریضوں کی صحتیابی کیلئے انتہائی خاموشی اختیار کی جاتی ہے وہیں پر
قانون کی لڑائی لڑنے والے کالے کوٹ والوں نے ہنگامہ آرائی کرتے ہوئے عالمی
سطح پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی شناخت کو ملیامٹ کرنے کی کوشش کی اور
اسلامی تشخص کو پامال کیا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق پاکستان کے صوبہ پنجاب کے
دارالحکومت لاہور میں قلب کا سب سے بڑا ہاسپتل ’’پنجاب انسٹی یوٹ آف
کارڈیالوجی ‘‘(پی آئی سی )میں چہارشنبہ کے روز وکلا نے پرتشدد احتجاج کیا
۔اردو نیوز لاہور کے صحافی رائے شاہنواز کے مطابق جب وہ پی آئی سی پہنچے تو
انہیں ایسا لگا جیسے وہاں کوئی جنگ ہوچکی ہے۔ فضا میں آنسو گیس کے اثرات ،
ایمرجنسی کا دروازہ چکناچور۔ وہ لکھتے ہیں کہ جب وہ رسپشن سے ایمرجنسی وارڈ
کی طرف مڑے تو یہاں کا منظر پناہ گزین کیمپ کی طرح دکھائی دے رہا تھااور وہ
اپنے آپ کو پناہ گزین کیمپ میں محسوس کررہے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ ایمرجنسی
ورارڈ میں الٹے پلٹے آڑھے ترچھے بیڈز پر بیٹھے ہوئے دل کے مریض دل تھامے
بیٹھے تھے اور خالی نظروں سے ان گلوکوز کے باٹلس کو دیکھ رہے تھے جو کب کی
ختم ہوچکی تھیں لیکن انہیں برنولے سے نکالنے والا کوئی نہیں تھا۔ بعض مریض
آنسو گیس کی وجہ سے آنکھوں سے بہنے والا پانی صاف کررہے تھے تو بعض حیرت و
تعجب اور پریشان کن صورتحال سے ابھی نکل نہ پائے تھے۔ آگے لکھتے ہیں جب
ادھر مارپیٹ اور توڑپھوڑ کرکے جب وکلا نکلے تو انہیں لگا جیسے مشکل ٹل گئی
ہے لیکن ایسا نہیں تھا۔ تین مرتبہ وہ گروپوں کی شکل میں آئے اور ہر بار وہ
جس کو دیکھتے مارنا شروع کردیتے۔ صحافی لکھتے ہیں کہ یہاں ہماری سانس بند
ہونا شروع ہوگئی تھی، مریض ایک دوسرے کو سہارا دیتے ہوئے یہاں سے نکلنے لگے
، ایک دوسرے کو پانی دیا، کسی کو مار لگی تھی ، کسی سے اٹھا نہیں جارہا تھا
اور کوئی صدمے سے بے ہوش ہوچکے تھے۔ آگے لکھتے ہیں ’پتا نہیں ہم کیسے بچ
نکلے مجھے تو ابھی تک یقین نہیں آرہا ہے۔‘ہاسپتل کے ایک ورکر کے مطابق
بتایا جاتا ہیکہ ایک ضعیف مریضہ خاتون گلشن بی بی کو اسٹریچر پر لایا گیا
وہ دل کے دورہ کی کیفیت میں تھیں جسے دو ڈاکٹرز طبی امداد دے رہے تھے کہ
وکیلوں نے ہلہ بول دیا اور ڈاکٹروں کو مارنا شروع کردیا ، وہ اس ضعیف مریضہ
کو چھوڑ کر بھاگ نکلے اسکے تھوڑی دیر بعد اس ضعیفہ کا انتقال ہوگیا۔ وکلاء
اس ضعیفہ کے جواں سالہ بیٹے کو بھی ماررہے تھے اس موقع پر صحافی
شاہنوازبتاتے ہیں کہ وہ واش روم کے دروازے کے پاس تھے انہوں نے جلدی اندر
جاکر کنڈی لگالی۔ غرض کہ ہاسپتل کو تقریباً ہر طریقہ سے تباہ و برباد کردیا
گیا ، مشنریز تباہ کردی گئیں ۔ مریض اورانکے ساتھ موجود لوگوں کے آنکھیں
اشکبار تھیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک ماہر امراض قلب لیڈی ڈاکٹر شگفتہ نے یہ
مناظر ٹی وی پر دیکھیں اور فوراً وہ ہاستپل نکل آئی ، جب وہ ہاسپتل پہنچی
تو یہ سب کچھ دیکھ کر حیران رہ گئیں۔ انکا کہنا ہیکہ کوئی انسان یہ کیسے
کرسکتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ آئی سی یو یعنی انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں
تباہی دوسرے مقامات سے مختلف نہ تھی ۔ آئی سی یو میں ان مریضوں کو رکھا
جاتا ہے جن کے آپریشن ابھی ابھی ہوچکے ہوتے ہیں یا ہونے والے ہوتے ہیں اور
وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں ہوتے ہیں ۔ دو آئی سی یو خالی اور انکے بیڈ
تتربتر بتائے جاتے ہیں۔ اس طرح پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کو جس طرح
وکلا نے شدید توڑپھوڑ کے ذریعہ تباہ کردیا، جس کی وجہ سے ڈاکٹرس ہاسپتل
چھوڑکر بھاگنے پر مجبور ہوئے ، مریضوں کو طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے سات
مریض جان کی بازی ہارگئے جبکہ سیکریٹری جنرل ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن ڈاکٹر
سلمان کے مطابق ہاسپتل میں داخل دس مریض ہلاک ہوگئے ۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق
ابتداء میں پولیس نے خاموش تماشائی کارول ادا کیا ، پولیس بروقت کارروائی
کرتی تو اتنا بڑا جانی اور مالی نقصان نہ ہوتا۔لیکن وکلا کی پُرتشدد
کارروائی کو دیکھتے ہوئے پولیس کی جانب سے بعد میں کارروائی کی گئی اور
آنسو گیس چھوڑی گئی جس کی وجہ سے مریضوں کو مزید تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔
اس موقع پرمقام واقعہ پر پہنچنے والے پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن
چوہان کو بھی وکلا نے زدوکوب کیا جو صورتحال کو معمول پر لانے کے لئے
ہاسپتل پہنچے تھے ۔ یہ تمام پرتشدد کارروائی کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ
نومبر میں اسی ہاسپتل میں وکیلوں اور ڈاکٹرس کے درمیان ہاتھاپائی ہوئی تھی
اسکے بعد گذشتہ دنوں نوجوان ڈاکٹر عرفان کی جانب سے اشتعال انگیز ویڈیو
سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس کے بعد وکلاء کے ایک گروپ نے شدید احتجاج کرتے
ہوئے یہ پرتشدد گھناؤنی کارروائی انجام دی جو پاکستانی تاریخ میں ایک بدنما
داغ کی حیثیت سے یاد رکھی جائے گی۔رکن پاکستان بار کونسل اعظم نظیر تارڑ نے
اردو نیوز کے صحافی شاہنواز کو بتایاکہ نومبر میں ہونے والا واقعہ جس میں
تین وکیلوں کو مارا گیا اسی وقت حل کرلیا جاتا تو یہ نوبت نہ آتی۔ پولیس کو
جب پتا تھاکہ تین سو کے لگ بھگ وکیل احتجاج کرنے پی آئی سی آرہے ہیں تو
کیوں نہ سیکیوریٹی کے انتظامات کئے گئے۔ بتایا جاتا ہیکہ لاہور بار میں
20ہزار وکیل رجسٹرڈ ہے صرف تین سو نے یہ حرکت کی ۔ اعظم نظیر کہتے ہیں کہ
کیاانتظامیہ اتنی نااہل ہے کہ تین سو افراد سے ہاسپتل کو تباہ کروالیا؟
انہوں نے مزید بتایاکہ وکلا کے آئندہ ماہ میں انتخابات ہونے والے ہیں اسلئے
تمام دھڑے زیادہ سے زیادہ حمایت کے حصول کے لئے وہ کام کرتے ہیں جو اخلاقاً
نہیں کرنے چاہیے ۔انہوں نے وکلا کی پرتشدد کی کارروائی سے متعلق کہا کہ یہ
بہت بڑا ظلم ہوا ہے جس کی کوئی توجیح نہیں دی جاسکتی ۔ چند وکلا کو گرفتار
کیا گیا ہے جس کے خلاف دوسرے دن انکی تائید میں لاہور کے وکلا کی جانب سے
احتجاج کا اعلان کیا گیا ہے جس کے خلاف سخت سیکیوریٹی کے انتظامات کئے گئے
تھے ، اسی طرح 13؍ ڈسمبر کو بھی ملک بھر میں وکلا نے عدالتی کارروائی کا
بائیکا کیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان ظالم وکلاکے خلاف ملک بھر کے
وکلابائیکا ٹ کرتے کیونکہ انہوں نے جو گھناؤنا کام کیا ہے اسے تاریخ کبھی
معاف نہیں کرے گی۔وزیر اعظم عمران خان نے چیف سیکریٹری اور آئی جی پنجاب سے
رپورٹ طلب کرلی ہے جبکہ ریاستی وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے خاطیوں کے خلاف
سخت کارروائی کرنے حکم دیا ہے۔ اب دیکھنا ہیکہ سیاہ کوٹ والے خاطیوں کے
خلاف کس قسم کی کارروائی ہوتی ہے تاکہ اسلامی جمہوری ملک میں دوبارہ ایسی
کارروائی نہ ہونے پائے۰۰۰
امریکی بحری اڈے کی فائرنگ کا ذمہ دار کون۰۰۰؟
امریکی ریاست فلوریڈا کے بحری اڈے میں ایک سعودی ایئر فورس سے تعلق رکھنے
والے طالب علم محمد الشامرانی کی جانب سے گذشتہ ہفتہ فائرنگ کی گئی جس کے
نتیجہ میں تین زیر تربیت طلبا ہلاک ہوگئے تھے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق اس
طالب علم نے فائرنگ کرنے سے قبل سرکاری طور پرشکایت درج کروائی تھی کہ اس
کے ایک استاد (انسٹرکٹر ) نے اسے دیگر دس زیرتربیت طلبہ کے سامنے ایک حقیر
عرفیت سے پکاراجس کی وجہ سے محمد الشامرانی اس استاد کے خلاف سخت ناراض
تھا۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق انسٹرکٹر نے محمد الشامرانی کی
مونچھوں کو فحش فلموں میں کام کرنے والے اداکاروں کی مونچھوں سے مشابہ قرار
دیا تھا۔ اس فائرنگ کے نتیجہ میں دیگر سعودی طلبا پر شک کی نظروں سے پوچھ
گچھ کی گئی ۔اور اب واشنگٹن نے 175سعودی کیڈٹوں کوجنگی طیارے اڑانے سے روک
دیا ہے۔اس حملہ میں ہلاک ہونے والوں میں 23سالہ جوشوا کیلب واٹسن، 19سالہ
محمد سامح ہیثم اور 21سالہ کیمرون سکاٹ والرز بتائے جاتے ہیں۔ یہاں یہ بات
قابلِ ذکر ہیکہ امریکی حکومت اس استاد کے خلاف کارروائی کریں جس نے اس طالب
علم کو فحش الفاظ سے پکارا تھا جس کی وجہ اس طالب علم کے علاوہ مزید تین
طلبا کی جان چلی گئی۔ بتایا جاتا ہیکہ پرواز پر پابندی کا ضابطہ لاگو ہونے
سے 303سعودی طلبا متاثر ہونگے۔ یہ طلبا فلوریڈا ، وائٹنگ فیلڈ اور مے پورٹ
ایئر اسٹیشنز پرموجود ہیں۔ پنٹا گون کے ترجمان چک پریچرڈ نے ذرائع ابلاغ کو
بتایا کہ اڑان نہ بھرنے کا ضابطہ امریکہ بھر میں موجود تمام سعودی ہوا باز
طلبا پر ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ ملٹری پروگرامز میں داخل 852سعودی
طلبا پر اس کا اطلاق ہوگا تاہم ان کا کہنا تھا کہ کلاسز میں پڑھائی کا
سلسلہ جاری رہے گا۔ اسکے علاوہ امریکی محکمہ دفاع ملک میں موجود دوسرے
ممالک کے تمام پانچ ہزار زیر تربیت ملٹری اسٹوڈنٹس کا سکیوریٹی جائزہ بھی
لیا جارہا ہے۔ اس طرح ایک طالب علم کی فائرنگ کے نتیجہ سینکڑوں طلبا کا
نقصان ہوسکتا ہے ۔ امریکی حکومت کو چاہیے کہ وہ اس انسٹرکٹر کے خلاف
کارروائی کرے جس نے اس طالب علم محمد الشامرانی کو فائرنگ کرنے پر مجبور
کیا ۔ تاکہ آئندہ کسی دوسرے طالب علم کو کسی بھی کمتردرجہ کی حیثیت سے نہ
دیکھا جائے اور نہ ایسے ناموں سے پکارا جائے۔اب دیکھنا ہیکہ امریکہ اس طالب
کی فائرنگ کا اصل ذمہ دار کس کوقرار دیتا ہے ۰۰۰
۰۰۰
|