قومی انتخاب سے قبل ماہِ فروری 2019 میں مرکزی حکومت نے
شہریت کا ترمیمی بل ایوانِ زیریں میں پیش کیا اور اسے منظور کروانے میں
کامیاب ہوگئی۔ اس آئینی ترمیم کے ذریعہ ہندوستان میں پناہ لینے والے
پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے ہندوؤں، بودھ، جین، سکھوں، پارسیوں
اور مسیحیوں کوشہریت سے نوازے کی تجویز پیش کی گئی تھی لیکن مسلمانوں کو اس
سے باہر رکھا گیا تھا۔ اس بل کے مطابق ان غیر مسلم برادریوں کے لوگ
ہندوستان میں چھ برس گزار لینے کے بعد شہریت کے مجاز ہوجائیں گے۔ پہلے یہ
مدت گیارہ برس تھی اور اس کے علاوہ شہریت حاصل کرنے میں عملی پیچیدگیاں بھی
تھیں۔ یہ بل ایوان بالا میں منظور نہیں ہوسکا تھااس لیے ۶ ماہ گزر جانے کے
سبب مسترد ہوگیا اس لیے اب حکومت کو اسے ازسرِ نو لوک سبھا اورراجیہ سبھا
میں منظور کروانا پڑا ۔ طلاق ثلاثہ اور آئین کی دفع ۳۷۰ کو منسوخ کرانے کے
بعد امیت شاہ کو اعتماد تھا کہ وہ اس مقصد میں علاقائی جماعتوں کی مدد سے
کامیاب ہوجائیں گے اور ایسا ہی ہوا ۔
مسلمانوں کو اس میں شامل نہ کرنے سے ناراض لوگ سیکولرزم کی دہائی دے رہے
ہیں حالانکہ یہ نظریہ موم کی ایک ایسی ناک ہے کہ جس کو جہاں موڑو مڑ جاتی
ہے۔ اڈوانی جی نے جعلی سیکولرزم (pseudo secularism) نامی اصطلاح گھڑ کر
سنگھ کو سچا سیکولر ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی اور اب یہ حال ہے کہ سیاست
کے حمام میں بشمول سیکولرزم کے ہندوتوا کا نظریہ بھی بے معنیٰ ہوکر رہ
گیاہے ۔ چہار جانب ابن الوقتی اور موقع پرستی کا بول بالا ہے اور مہاراشٹر
کا سیاسی تماشا اس کی زندہ مثال ہے۔ مودی جی ساری دنیا کے سرمایہ داروں کو
بلا تفریق مذہب و ملت ہندوستان میں آکر سرمایہ کاری کی دعوت دیتے ہیں ۔
آرامکو کو بلایا جاتا ہے کہ وہ ریلاینس میں سرکایہ کاری کرے۔ متحدہ عرب
امارات کو سڑکوں اور پلوں میں شراکت داری کی دعوت دی جاتی ہے۔ اس وقت ان
سرمایہ داروں کا مسلمان ہونا کسی لکشمی کے پجاری کو نہیں کھٹکتا اس لیے کہ
دولت کا نہ تو زعفرانی ہوتی ہے اور نہ سبزوسرخ اور نیلی یا پیلی ہے ۔ وہ ہر
رنگ میں ڈھل جاتی اور ہر سیکولرزم و ہندوتوا دونوں پر اپنا رنگ جما جاتی ہے۔
شہریت کے قانون میں ترمیم سے مسلمانوں کو مستثنی ٰ کرکے یہ پیغام دیا جارہا
ہے گویا مسلمان یہاں آنے کے لیے بے چین حالانکہ زمینی صورتحال یہ ہے کہ
یہاں بسنے والے راہل بجاج جیسے لوگوں کو بھی اگر موقع ملے تو وہ یہاں سے
نکل جائیں۔ یہ حسنِ اتفاق ہے کہ جہاں ایک طرف دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کو
منت سماجت کرکے یہاں بلایا جارہا ہے وہیں ہمارے اپنے بڑے بڑے سرمایہ دار
ملک چھوڑ چھوڑ کر فرار ہورہے ہیں۔ مودی جی کے اقتدار سنبھالنے سے قبل بی سی
سی آئی کا سربراہ للت مودی کروڈوں روپئے کا گھپلا کر کےبھاگ کھڑا ہوا۔مودی
جی نے اس کے لیے کانگریس کو موردِ الزام ٹھہرادیا حالانکہ یہ نصف ہم نامان
کا اپنا آدمی تھا۔ وجئے ملیا کے بارے میں تو یہ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ وہ
بی جے پی کے ووٹ سے کامیاب ہوکر ایوان پارلیمان میں گیا تھا ۔ مرکزکی مودی
حکومت کے سانٹھ گانٹھ کرکے دن دہاڑے ۴۸ بکسوں سمیت دہلی سے بھاگ گیا لیکن
اس کا بال بیکا نہیں ہوا۔
مودی سرکار کی ناک کے نیچے سے نیرومودی اپنے ماما میہول چوکسی کے ساتھ فرار
ہوگیا ۔ مرکزی سرکار نے جب ان واپس لانے کی کوشش کی تو دونوں ماما بھانجے
نے اپنی جان کو خطرہ بتا کر ہندوستانی عدالت میں حاضر ہونے سے انکار کردیا
۔ انہوں نے کنہیا کمار کی مثال دے کر کہا کہ جہاں عدالت کے اندر ملزم کو
مارا پیٹا جاتا ہو وہاں وہ نہیں آسکتے۔ امیت شاہ صاحب اپنے ان گجراتیوں
بھائیوں کو تو پہلے ہندوستان میں لاکر دکھائیں پھر شہریت کی ترمیم کا بل
بنائیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ میہول چوکسی نے اب ہندوستانی شہریت کو چھوڑ کر
اینٹی گوا کی شہریت اختیار کرلی اور اس کارِ خیر میں دیش بھکت مودی سرکار
نے اس کا تعاون کیا۔ یہ عجب تماشہ ہے کہ ایک طرف تو اپنے شہریوں کو ان کے
مال و متاع کے ساتھ فرار ہونے میں تعاون کیا جارہا ہے اور دوسری طرف عوام
کو بیوقوف بنانے کے لیے شہری ترمیم بل جیسی شعبدہ بازی کی جارہی ہے۔
حقیقت یہ ہے معاشی میدان میں یہ حکومت بری طرح ناکام ہوچکی ۔ بازار میں
مندی ہے ۔ صنعت و حرفت ٹھپ ہورہی ہے۔ اس کے سبب بیروزگاری میں روز افزوں
اضافہ ہورہا ہے۔ اس نے کب کا 45 سالوں کا ریکارڈ توڑ دیا تھا اب تو نہ جانے
کون کون سے ریکارڈ ٹوٹ چکے ہیں۔ حکومت کے خزانے میں آمدنی گھٹتی جارہی ہے
اور اخراجات کم ہونے کا نام نہیں لیتے اس لیے کبھی تو ریزرو بنک سے اضافی
رقم نکال کر کام چلایا جاتا ہے کبھی پبلک سیکٹرکمپنیوں کی نیلامی شروع
ہوجاتی ہے۔ایک زمانے میں یہ جواز پیش کیا جاتا تھا کہ وہ خسارے میں ہیں۔ اس
کے بعد پیش بندی کے طور پر سازش کے تحت انہیں خسارے میں ڈالا جاتا تھا ۔ اب
وہ تکلف بھی ختم ہوگیا اور بی پی سی ایل جیسے نورتن کو بازار میں لاکر کھڑا
کردیا گیا ہے اور اس کی بولیاں لگ رہی ہیں ۔ اس لوٹ مار سے توجہ ہٹا کر
اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالے بغیر انتخاب جیتنا مشکل ہے اس لیے کبھی طلاق
ثلاثہ ، کبھی شہریت ترمیمی بل، کبھی این آر سی اور کبھی یکساں سول کوڈ کا
شور مچایا جاتا ہے ۔ اس سے کسی کو کچھ نہیں ملتا گا لیکن کٹرّ
ہندوتواوادیوں کو بیوقوف بناکر اپنا ہمنوا بنائے رکھنے میں کامیابی ضرور مل
جاتی ہے۔
اس صورتحال پر شیرنگ جیپ کے سفر کا ایک واقعہ یاد آتا ہے ۔ خلدآباد سے
اورنگ آباد آنے والی جیپ میں سواری پر سواری سوار تھی ۔ خراب سڑک، ٹوٹی
پھوٹی سیٹ اور زور زور سے ٹیپ ریکارڈر کا شور عذابِ جان بنا ہوا تھا۔ اورنگ
آباد قریب آتے آتے حالات سدھرنے لگے۔ پہلے تو سڑک ٹھیک ہوئی پھر درمیان
میں مسافروں کے اترنے سے جگہ بننے لگی اور بالآخرٹیپ ریکارڈر بھی بند
ہوگیا ۔ ڈرائیور سے پوچھا یہ کیوں کیا تو وہ بولا ’اب تو آپ آرام سے ہیں‘۔
وہ جواب فوراً سمجھ میں نہیں آیا لیکن غور کرنے پر پتہ چلا جب سواریاں
تکلیف میں تھیں تو ان کی توجہ ہٹانے کے لیے شوروغل کی ضرورت تھی اور اب
جبکہ سب ٹھیک ہوگیا ہے ہنگامہ آرائی کی ضرورت نہیں رہی۔ امیت شاہ اور جیپ
ڈرائیور کی ضرورت یکساں ہے۔ 2019 سے قبل حالات اتنے خراب نہیں تھے اس لیے
شوروغل کی ضرورت کم تھی اب بہت بڑھ گئی ہے۔
کسی زمانے میں بی جے پی حزب اختلاف میں اس لیے طرح طرح کے اوٹ پٹانگ
مطالبات کرکے حکومت کو گھیرتی تھی ۔مسلمان بی جے پی کے خلاف سڑکوں پر اتر
آتے تھے ۔ اس سےحکومت اور بی جے پی دونوں کا بھلا ہوجاتا تھا لیکن اب
صورتحال بدل گئی ہے ۔ مسلمان سمجھ گئے ہیں کہ ان کے خلاف توانائی ضائع کرنے
سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ وہ ہلکا پھلکا علامتی احتجاج یا بیان دے کر کے
خاموش ہوجاتے تھے ۔ اس کی خبر اردو اخبارات تک محدود رہتی ہے۔ عام ذرائع
ابلاغ تک اور دوسرے طبقات تک نہیں پہنچتی اور نہ اس کاخاطر خواہ ردعمل ہوتا
تھا۔ حکومت اس سے پریشان ہوکر مزید اشتعال انگیزی کرتی ہے لیکن مسلمان
چونکہ یہ کھیل سمجھ چکے ہیں اس لیے حکمت سے نظر انداز کردیتے ہیں ۔
اس حکمت عملی کا ایک منفی اثر یہ ہوا کہ کچھ لوگوں نے یہ سوچنا شروع کردیا
کہ وہ امت مسلمہ کو خوفزدہ کرنے میں کامیاب ہوگئےہیں ۔ سی اے بی کے خلاف
ملک بھر میں ہونے والے احتجاج میں مسلمانوں کی پرزور شرکت اور ان کے اپنی
مخالفت نے یہ غلط فہمی دور کردی ہے کہ ملت ڈر گئی ہے اور یہ بھی ثابت ہوگیا
کہ وہ نہیں جھکے گی بلکہ وہ اپنے اور عالم انسانیت کے حقوق کی حفاظت کے لیے
سڑکوں پر اتر کر اپنا غم و غصہ درج کرائے گی ۔ علی گڑھ یونیورسٹی کے غیر
معمولی احتجاج کے بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ میں بھی مظاہرہ ہوا۔ پولس نے
طلباء پر جو ظلم کیا وہ یقیناً قابلِ مذمت ہے لیکن کشمکش کی راہ میں یہ
مراحل آتے ہیں ۔ اس لیے جو جیالے نوجوان اس مظاہرے میں شریک ہوئے اور
لاٹھی ڈنڈے کا مقابلہ کیا وہ قوم میں زندگی کی علامت ہونے کے سبب قابلِ
تحسین ہیں۔
ملک بھر میں سی اے بی خلاف ہونے والے احتجاج سے حکومت کو یہ بات سمجھ میں
آگئی ہوگی کہ کہ عوام کے جذبات سے کھلواڑ کی بھی ایک حد ہوتی ہے اور پھر
یہ آتش فشاں پھٹ پڑتا ہے۔ ملک کا اکثریتی طبقہ بھیبہت جلد اس ظلم و جبر کو
محسوس کرے گا جس کی ابتداء جے این یو سے ہوئی اور وہ جامعہ میں اپنی انتہا
کو پہنچ گیا۔ شمال مشرقی ہندوستان کے اندر ہونے والا شدید احتجاج اس بات کا
ثبوت ہے کہ اکثریتی طبقے کا پیمانۂ صبر بھی لبریز ہونے لگا ہے۔ حکومت اب
زیادہ دنوں تک سی اے بی جیسی نو ٹنکی سے لوگوں کوبہلا پھسلانے نہیں سکے گی۔
وہ دن دور نہیں جب تعلیم، بیروزگاری ، مندی، مہنگائی اور خواتین پر مظالم
جیسے بنیادی مسائل کی جانب عوام متوجہ ہوں گے ۔ اس وقت شہریت بل جیسا تماشا
کسی کام نہیں آئے گااور وہیں اس حکومت کا زوال شروع ہوجائے گا۔ ایسا اس
لیے ہوگا ہے کہ مفت خور سیاستداں یہ نہیں جانتے کہ حلال کی روزی کمانے کے
لیے کن مواقع کی ضرورت ہوتی ہے؟ کتنی محنت و مشقت کے بعد اسے حاصل کیا جاتا
ہے؟ نیز محض شہریت کے پکڑا دینے سے کسی کا پیٹ نہیں بھرتا اور نہ تحفظ و
وقار حاصل ہوتا ہے ۔
|