نسلِ نَوتو بے بہرا لیکن ہر سال جب 16 دسمبر کا سورج
طلوع ہوتا ہے تو ہمارے زخم ہرے ہو جاتے ہیں۔ کل بھی 16 دسمبر ہے، وہ
مایوسیوں اور اُداسیوں بھرا سیاہ دن جب ایک شرابی نے میرا وطن بیچ ڈالا۔
جنرل یحیٰی خاں نے اپنی صدارت بچانے اور ذوالفقار علی بھٹو نے وزارتِ عظمیٰ
ہتھیانے کی خاطر قائدؒ کے پاکستان کو دولخت کر دیا۔ اِس سانحۂ عظیم پر روحِ
اقبالؒ نے تڑپ کر کہا ’’یہ چمن مجھ کو آدھا گوارا نہیں‘‘۔ جب ’’ٹائیگر
نیازی‘‘ نے ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں بھارتی جنرل اروڑا کے سامنے ہتھیار
ڈالے تو ہماری غیرتوں کا جنازہ اُٹھ گیا۔
دسمبر 1970ء میں جنرل یحیٰی خاں نے پاکستان میں پہلے عام انتخابات کا ڈول
ڈالا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ تاریخِ پاکستان کے شفاف ترین انتخابات تھے۔ اِن
شفاف انتخابات میں یحیٰی خاں کا ملک وملّت کے ساتھ خلوص نہیں، خبثِ باطن
شامل تھا۔ اُس کا خیال تھا کہ مشرقی ومغربی پاکستان کی کوئی بھی سیاسی
جماعت واضح اکثریت حاصل نہیں کر سکے گی اور اِس طرح وہ کمزور مخلوط حکومت
میں اپنی صدارت بچانے میں کامیاب ہو جائے گا۔ ہوا مگر یہ کہ کل 313 نشستوں
میں سے شیخ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ 167 نشستیں لے اُڑی اور پیپلزپارٹی
کے حصّے میں صرف 88 نشستیں آئیں۔ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ کو تمام نشستیں
مشرقی پاکستان اور بھٹو کو مغربی پاکستان سے ملیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ
واضح اکثریت حاصل کرنے والی عوامی لیگ کو حکومت کی تشکیل کا موقع دیا
جاتالیکن بھٹو نے یہ نعرہ لگا دیا کہ ڈھاکہ میں منعقد ہونے والے قومی
اسمبلی کے پہلے اجلاس میں پیپلزپارٹی کا جو منتخب رکن شرکت کرے گا، اُس کی
ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔ ’’اُدھرتم، اِدھر ہم‘‘ کا نعرہ بھی پیپلزپارٹی کے
پلیٹ فارم ہی سے اُٹھا۔ شیخ مجیب الرحمٰن کو حکومت بنانے کا موقع دینے کی
بجائے گرفتار کرکے مغربی پاکستان منتقل کر دیا گیا۔ ردِعمل میں ’’مکتی
باہنی‘‘ کی خونی تحریک اُٹھی، بھارت نے مکتی باہنی کی مدد کے لیے مشرقی
پاکستان میں اپنی فوج بھیجی اور ملک دولخت ہو گیا۔
تاریخِ عالم گواہ کہ قوموں پر زوال آتا رہتا ہے لیکن زندہ قومیں تاریخ سے
سبق حاصل کرتے ہوئے پھر اُبھر کر سامنے آجاتی ہیں۔ جرمنی اور جاپان کی
مثالیں ہمارے سامنے جنہیں دوسری عالمی جنگ میں تباہ کر دیا گیا لیکن آج وہ
پہلے سے بھی زیادہ طاقتور۔ پاکستان کا معاملہ مگر اُلٹ، ہم آدھا ملک گنوا
کر (خُدانخواستہ) باقی آدھا گنوانے کی تگ ودَو میں۔ 2013ء کے عام انتخابات
کے بعد تحریکِ انصاف دھاندلی دھاندلی کا شور مچاتی سڑکوں پر نکل آئی۔ اسلام
آباد کے ڈی چوک میں 126 روزہ دھرنا دیا گیا جس کے دوران کاروباری زندگی
مفلوج ہو کر رہ گیا۔ 2019ء میں مولانا فضل الرحمٰن کو دھرنے کا شوق اُٹھا۔
وہ بھی لاکھوں کارکنوں کے ساتھ اسلام آباد جا پہنچے۔ اُن کے ساتھ کچھ خفیہ
وعدے اور معاہدے ہوئے اور اُنہوں نے دھرنا ختم کر دیا۔ پیپلزپارٹی، نوازلیگ
اور تحریکِ انصاف ایک دوسرے سے ہاتھ تک ملانے کی روادار نہیں۔ ’’تبدیلی‘‘
کے بانی کا بس ایک ہی نعرہ ’’نہیں چھوڑوں گا‘‘۔ مقبوضہ کشمیر کوبھارت ہڑپ
کر چکا لیکن سیاسی جماعتیں ہوش کے ناخن لینے کی بجائے باہم دست وگریباں۔
تبدیلی سرکار ہرروز بیوروکریسی میں اکھاڑ پچھاڑ کرتی رہتی ہے۔ حال ہی میں
پنجاب کے چیف سیکرٹری کو تبدیل کر دیا گیا۔ 15 ماہ کے دوران یہ پانچویں آئی
جی تھے جنہیں تبدیل کیا گیا۔ سیکرٹریز، ڈپٹی سیکرٹریز، کمشنرز، ڈپٹی
کمشنرزاور ڈی پی اوز کے تبادلے روزمرہ کا معمول، لیکن عالم یہ کہ ’’نے ہاتھ
باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں‘‘۔ تبدیلی سرکار کو کون سمجھائے کہ اگر
تقرریوں اور تبادلوں سے حالات بہتر ہو سکتے تو لاہور کے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف
کارڈیالوجی میں سانحۂ عظیم کبھی نہ ہوتا۔ شنید ہے کہ وزیرِاعظم صاحب نے نئے
آئی جی کو ’’فری ہینڈ‘‘ دیا تھا پھر بھی کالے کوٹوں کے کالے کرتوتوں کی
بدولت یہ سانحہ ہو گیا، جسے ہم دہشت گردی نہ کہیں تو کیا کہیں؟۔
دہشت گرد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ سامنے مسجد ہو، مکتب یا ہسپتال، اُس کا
مقصد تو دہشت پھیلانا ہوتا ہے۔ سانحہ اے پی ایس پشاور میں 150 سے زائد
معصوم بچوں کو شہید کرنے والے دہشت گرد تھے اور جی ایچ کیو راولپنڈی کی
مسجد میں دورانِ نماز خونِ ناحق بہانے والے بھی دہشت گرد۔ 2010ء میں لاہور
کے جناح ہسپتال پر حملہ آور ہونے والے دہشت گرد تھے اور لا ریب بدھ کو پی
آئی سی لاہور پر حملہ کرنے والے بھی دہشت گرد۔ کالے کوٹوں کے اِن کالے
کرتوتوں کی بنا پر نہ صرف پی آئی سی تباہ وبرباد ہوا بلکہ 3 معصوم بھی جان
کی بازی ہار گئے (وفاقی مشیرِ اطلاعات فردوس عاشق اعوان کے مطابق جان کی
بازی ہارنے والوں کی تعداد 4 تھی اور باخبر ذرائع کے مطابق 7 سے 8)۔ وکلاء
کے خلاف ایف آئی آر کَٹ چکی لیکن شنید ہے کہ ایف آئی آر میں قتل کی دفعات
شامل نہیں۔ ناقابلِ یقین کہ یہ سانحہ اُن لوگوں کے ہاتھوں ہوا جو قانون کی
حفاظت کے دعویدار۔ قانون کے محافظوں کا یہ کارنامہ تاریخ میں ہمیشہ یاد
رکھا جائے گا۔
ہم نے ٹی وی چینلز پر سارا منظر براہِ راست دیکھا۔ جس طرح ’’کالی آندھی‘‘
نے توڑپھوڑ کی، گاڑیوں کو نقصان پہنچایا، پولیس وین کو آگ لگائی، پی آئی سی
میں گھُس کر طِبّی آلات توڑے، ڈاکٹرز اور مریضوں کے لواحقین پر تشدد کیا،
وہ سارا منظر ناقابلِ یقین۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے یہ کسی فلم کے
مناظر ہوں لیکن یہ سب کچھ حقیقی تھا جو لازمۂ انسانیت سے تہی کالے کوٹوں کے
کالے کرتوتوں کی بدولت ہوا۔ وکلاء کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے گرفتار وکلاء
کو رہا کروانے کی بھرپور کوشش کی مگر کوئی جج سماعت کرنے کو تیار ہی نہیں
تھا۔ پہلے جسٹس انوار الحق پنوں کی عدالت نے کیس سننے سے انکار کیاتو
جوائنٹ ایکشن کمیٹی چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے پاس گئی جنہوں نے جسٹس قاسم
خاں کی سربراہی میں دورکنی بنچ قائم کیا لیکن کیس کی سماعت نہ ہو سکی۔
وکلاء دوبارہ چیف جسٹس صاحب کے پاس گئے تو اُنہوں نے جسٹس باقر نجفی کی
سربراہی میں بنچ قائم کیا جس نے عدالتی وقت ختم ہونے کے باوجود کیس کی
سماعت کی۔ سانحہ کی انکوائری کرنے والے لاہور ہائیکورٹ کے دو رکنی بنچ کے
سربراہ جسٹس باقر نجفی نے دَورانِ سماعت کہا ’’آپ کو جرأت کیسے ہوئی ہسپتال
پر حملہ کرنے کی۔ آپ نے لاہور بار میں اِس حملے کی پلاننگ کی۔ ہمیں آپ نے
کہیں کا نہیں چھوڑا۔ اِس طرح جنگوں میں بھی نہیں ہوتا۔ ہم بڑی مشکل سے اِس
کیس کی سماعت کر رہے ہیں۔ آپ سرِعام تسلیم کریں۔ جنگل کے قانون میں معاشرے
نہیں بچتے اور جو وکیلوں نے کیا، وہ جنگل کا قانون ہے‘‘۔
پاکستانی سیاست میں طالبان کا مکروہ کردار سب کے سامنے جن سے نفرت عام۔ اِن
طالبان کو نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں بھی دہشت گرد قرار دیا جاتا
ہے۔ طالبان اور اعلیٰ تعلیم یافتہ کالے کوٹ والوں میں ایک قدرِ مشترک واضح۔
طالبان کو بار بار سمجھانے کے باوجود کوئی کوشش بارآور ثابت نہ ہوئی، وکلاء
بھی اپنی غلطی تسلیم کرنے کی بجائے سارا الزام ڈاکٹروں پر دھرتے ہوئے،
ہڑتال پر۔ طالبان جب پولیس یا فوج کے مقابلے میں واصلِ جہنم ہوتے تو بدلہ
معصوم شہریوں سے لیتے۔ فوج سے بدلہ لینے کے لیے اُنہوں نے آرمی پبلک سکول
پشاور کے معصوم بچوں کو نشانہ بنایا۔ آج وہی کچھ اعلیٰ تعلیم یافتہ قانون
کے محافظوں نے کیا۔ لڑائی ڈاکٹرز سے لیکن جان سے گئے معصوم شہری اور پی آئی
سی میں 7 کروڑ کا نقصان۔ پھر کیا فرق ہے طالبان اور اُن کالے کوٹ والوں میں
جنہوں نے ایک معصوم دل کی مریضہ کے مُنہ سے آکسیجن ماسک کھینچا اور اُس نے
تڑپ تڑپ کر جان دے دی؟۔ اِنہیں کیوں نہ نشانِ عبرت بنایا جائے لیکن ہمیں
یقین کہ ایسا ہوگا نہیں کیونکہ حکومتی رویہ معنی خیز اور محض مگرمچھ کے
آنسو۔ کالے کوٹ والے تو عدلیہ بحالی تحریک کے بعد سے ہی اپنی اندھی طاقت کا
استعمال کرتے چلے آرہے ہیں۔ کبھی عدالتوں کے دروازے توڑتے ہوئے، کبھی جج
صاحبان کو دھمکیاں دیتے ہوئے اور کبھی پولیس اور سائلین پر تشدد کرتے ہوئے
لیکن اُن کے خلاف کبھی کوئی کارروائی انجام تک نہیں پہنچی۔ تسلیم کہ تمام
وکلاء ایسے نہیں، یقیناََ بہت سے قابلِ احترام نام اِس برادری میں شامل
لیکن جس طرح ایک گندی مچھلی پورے تالاب کو گندا کر دیتی ہے، اُسی طرح کچھ
کالی بھیڑوں نے پوری وکلاء برادری کو بدنام کر رکھا ہے۔ اِن کالی بھیڑوں کا
علاج بھی پورے پاکستان میں پھیلی ہوئی بار ایسوسی ایشنز پر لیکن جہاں کہیں
وکلاء برادری کی بات آتی ہے، ساری بار ایسوسی ایشنز انصاف کے تقاضوں کو پسِ
پشت ڈال کر اکٹھی ہو جاتی ہیں۔
انتہائی مقدس پیشے سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹرز کا رویہ بھی ناقابلِ فہم۔ وہ
بھی کسی سے کم نہیں، اُن کی کہانیاں بھی سرِعام۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جب اپنے
مطالبات منوانے کے لیے ڈاکٹرز ہسپتالوں کو بند کر دیتے ہیں تو یہ بھی دہشت
گردی ہے۔ ۔۔۔۔سلگتا ہوا سوال مگر یہ کہ حکومتی رِٹ ہے کہاں؟۔ کیا ایک دن
پہلے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو یہ اطلاع نہیں دی جا چکی تھی کہ وکلاء
پُرتشدد کارروائیاں کرنے والے ہیں؟۔ پھر پہلے سے اِس کا حل تلاش کرنے کی
بجائے پی آئی سی کے سامنے صرف پندرہ، سولہ اہلکار کیوں؟۔ شنید ہے کہ جب
کالے کوٹ والے جتھے کی صورت میں باہر نکلے تو ٹریفک پولیس اُن کے لیے راستے
صاف کرتی رہی۔ کثیر تعداد میں وکلاء سڑکوں پر دندناتے ہوئے پی آئی سی کے
سامنے پہنچے لیکن راستے میں کوئی رکاوٹ نہ کوئی قانون نافذ کرنے والا
ادارہ۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ الزام دھریں تو کس پر، کالے کوٹ والوں پر،
ڈاکٹرز پر یا پھر حکومت پر، جس کی رِٹ کہیں نظر نہیں آتی۔
|