ضلع باغ کے مضافات میں موت کی شاہراہ

آزاد کشمیر کے ضلع باغ سے متصل متعدد گائوں کی عجب کہانی آج قارئین …!کی نظر کرنا چاہتا ہوں ۔فطرت نے ان گائوں کو جو حسن عطا کیا ہے اسکا احاطہ الفاظ کے کوزے میں بند کر کے نہیں کیا جا سکتا یہ گائوں ایک جانب پھلوں اور خشک میوہ جات کی بہترین پروڈکشن کا ذریعہ ہیں تو دوسری جانب ان میں متعدد خوشبوئیں لیے مختلف پھول بھی اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں جبکہ یہاں کی فضا میں جس طرح صاف شفاف آکسیجن موجود ہیں اسکاموازنہ کسی بہترین لیب میں تیار کی جانیوالی آکسیجن گیس سے نہیںکیا جا سکتا۔ ایک جانب تو بھاری بھر معاوضے سے آکسیجن گیس زندگی بچانے کیلئے حاصل کی جاتی ہے تودوسری جانب قدرت نے مفت میں یہی صاف شفاف گیس عطا کر کے انسان کیلئے ایک سوال چھوڑا ہے اور اسکی نا شکری کو بھی عیاں کیا ہے اسی لئے قرآن ہمیں یاد کرواتا ہے کہ اپنے رب کی ہر نعمت کے شکر گزار ہو جائو۔

قارئین…!! کھرل عباسیاں ،کھرل ملدیالاں ،چوکی و دیگر کا شمار دوردراز علاقوں میں ہوتا ہے کہ جہاں زندگی کی سہولتیں کم سمجھی جاتی ہیں اور اکثر ایسے علاقوں کے باسی مختلف مسائل کا شکار رہتے ہیں کبھی انہیں تعلیمی سہولیات کا مسئلہ درپیش رہتا ہے تو کبھی انہیں صحت کی سہولتوں پر شکوہ کناں رہنا پڑتا ہے تو کبھی انہیں مواصلات کی شکایات درپیش ہوتی ہیں تاہم قانون قدرت ہے کبھی نہ کبھی یہ مسائل اپنے انجام کو پہنچ جاتے ہیں یا پھر ان مسائل میں کوئی نہ کوئی بہتری آہی جاتی ہے کیونکہ اس کرہ ارض پر انسانیت سے پیار کرنیوالی شخصیات آج بھی اپنا وجود رکھتی ہیں اور یہی وہ شخصیات ہے جن کی وجہ سے اس کائنات میں ہم آج بھی آلودہ ماحول کے غالب ہونے کے باوجود ایک صحت افزاماحول کے نشانات بھی دیکھ سکتے ہیں ۔

قارئین…!!ان تمام گائوں تک پہنچنے کیلئے ایک شاہراہ موجود ہے جو یہاں رہائش پزیر سینکڑوں گھروں تک رسائی کا سامان پیدا کرتی ہیں یہ شاہراہ میری معلومات کیمطابق 2005ء کے زلزلے سے قبل تعمیر ہوئی تھی اُس وقت جن شخصیات نے اس سڑک کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کیا انکی مفصل معلومات نہیں اس لئے میں کسی ایک نام کا اندراج کر کے اسے متنازعہ بنانے کی جسارت نہیں کر سکتا تاہم جن شخصیات نے اس 30سے35کلو میٹر پر محیط سڑک میں اپنا کردار ادا کیا یقینا وہ سینکڑوں خاندانوں کے ہیرو ہیں اور یہاں کے مکین انکی کاوشوں سے بخوبی واقف ہیں اور انکے لئے دعا گو بھی ہیں ۔مگر آج کل یہ سڑک 60سے55فیصد تک خستہ حال ہو چکی ہے۔

قارئین…!! ضلع باغ سے شروع ہونیوالی ایک لنک روڈ جسے چوکی روڈکا نام دیا گیا ہے یہ سڑک باغ سے شروع ہو کر چوکی،چھیتروڑا،چمری،گلی،سکر کوٹ ،مج پڑاٹھی،پوٹھی،پانیالی ،چھتر سے ہوتی ہوئی واپس پھر مرکزی شاہراہ باغ کے ساتھ مل جاتی ہے اگر اس شاہراہ کی فضا سے تصویر کشی کی جائے تو یہ 30سے35کلومیٹر پر مشتمل ایک یوٹرن ہے جو ان تمام علاقوں کو ضلع باغ کے ساتھ ملاتا ہے ۔

اس سڑک پر چلنے والی گاڑیاں ایک جانب حکومت کو کثیر زر مبادلہ فراہم کرتی ہیں جو ٹوکن ٹیکس،روٹ پرمٹ کی صورت میں ہے تو دوسری جانب سینکڑوں گھروں کے مکین حکومت کو مختلف اشیاء کی خریداری کر کے ایک خطیر رقم ٹیکس کی صورت میں اداکرتے ہیں صرف یہی نہیں اس سڑک سے متصل یہاں کے شہری جو اوورسیز کشمیری کہلاتے ہیں کثیر زرمبادلہ آزادکشمیر کے بینکوں میں بھجواتے ہیں اور یوں وہ آزاد کشمیر کی معیشت میں ایک ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتے ہیں اگر اسکی مکمل تفصیل ارباب اقتدار ملاحظہ کر لیں تو یہاں سے کروڑوں روپے کی صورت میں ٹیکس حکومت کی جیب میں جاتا ہے جو مواصلات کی صورت میں ،برقیات کی صورت میں ،اشیائے ضروریہ کی صورت میں ،الیکٹرونکس و دیگر کی مد میں ڈائریکٹ حکومتی اکائونٹ میں جاتا ہے ۔صرف یہی نہیں بلکہ ضلع باغ کے متعدد کاروباری مراکز بھی انہی علاقوں کے باسیوں نے آباد کر رکھے ہیں جہاں روزانہ لاکھوں ،کروڑوں کا کاروبار ہوتا ہے اور اس کاروبار کا ایک خاص حصہ حکومت کے پاس ٹیکسوں کی صورت میں جمع ہوتا ہے جبکہ یہی کاروباری برادری حکومتی معیشت کو مضبوط کرنے کا بہترین ذریعہ بھی ہے ۔بات ادھر ہی ختم نہیں ہوتی ضلع باغ کے کالجز،سکولز ،ہاسٹلز،حکومت و پرائیویٹ ہسپتال ،آٹو مارکیٹس،موبائل مارکیٹس سمیت تمام بازاروں میں ہونیوالے کاروبار میں بھی اس علاقے کے باسی اپنا کرداراداکرتے دکھائی دیتے ہیں اور یہاں سے بھی حکومت کو محصولات کی صورت میں کافی رقم انتظامی معاملات چلانے میں میسر آتی ہے ۔بات اس سے مزید آگے بھی ہے کہ حکومتی ایوانوں میں کئی اعلی اور ادنیٰ عہدوں پر موجود بہت سارے ملازمین بھی اس علاقے سے متصل ہیں جو حکومت کو اپنی خدمات پیش کررہے ہیں ۔

قارئین……!! اگرچہ کھرل عباسیاں ِ،کھرل ملدیالاں،چھتر،چوکی ،چھیتروڑہ و دیگر کے شہریوں کا فرض ہے کہ ٹیکس ادا کریں اور کائنات کے اس نظام میں (Give and Take)کا کلیہ استعمال ہوتاہے آپ جس زاویہ سے دیکھنا چاہیں اسے دیکھ سکتے ہیں ۔اگر شہریوں کا فرض ہے کہ ٹیکس ادا کریں تو حکومت کا بھی فرض ہے کہ عوام کو سہولیات بہم پہنچائے ایک جانب تو حکومت کروڑوں کا ٹیکس اکٹھاکر رہی ہے تو دوسری جانب ان علاقوں کے رہنے والے اس چوکی روڈ سے نہیں بلکہ یوں کہہ لیں روزانہ ایک ایسی شاہراہ سے گزر کر جاتے اور واپس آتے ہیں جسے (Road of Death)یعنی موت کی شاہراہ کہا جائے تو کم نہ ہوگا یہ شاہراہ2003ء سے قبل تعمیر کی گئی اور اُس کے بعد سے لے کر آج تک اس سڑک کی جانب حکومت کی جانب سے کبھی واپس مڑ کر بھی نہیں دیکھا گیا یہاں کے مکینوں نے ماضی قریب اور ماضی بعید میں کئی بار اس اہم پریشانی پر تحریری درخواستوں اور مختلف احتجاجوں کی صورت میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا مگر حکومت کا ضمیر24سال گزرنے کے باوجود نہ جاگاکئی قیمتی جانوں سے ہم اب تک ہاتھ بھی دھو بیٹھے ہیں کئی نوجوان بیٹے اس (Road of Death)نے لقمہ اجل بنادیئے کئی مائیں آج بھی اپنے پیاروں کی واپسی کی راہیں تک رہی ہیں اور کئی سہاگنیں بابل کی واپسی کی منتظر ہیں اس طرح کی درجنوں داستانیںاپنے نقش کیساتھ آج بھی موجود ہیں مگر بے ضمیری اور بے توقیری کی انتہا ہے ایک جانب انسانیت شرما رہی ہے تو دوسری جانب تاریخ کرب کاشکار ہے کیونکہ تاریخ کے اوراق اس درد بھری داستان کو جگہ دیتے ہوئے خون آلود ہورہے ہیں مگر حکومتی ایوانوں میں ابھی تک کوئی جنبش نظر نہیں آئی جس پر آج راقم کو یہ تحریر لکھنا پڑی ۔

قارئین…!! آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی میں حلقوں کی بندر بانٹ کے مطابق یہ حلقہ ’’شرقی باغ‘‘ کا حلقہ ہے اس حلقہ سے گزشتہ تین انتخابات میں ایک ہی شخصیت جیت سے ہمکنار ہوتی آرہی ہے اس شخصیت کا نام سردار میر اکبر خان ہے جو یہاں سے ممبر قانو ن ساز اسمبلی منتخب ہوئے ہیں ۔سردار میر اکبر صاحب کے اگر پولنگ اسٹیشن اور پولنگ بوتھ کی تمام تاریخ نکالی جائے تو ہر بار انہیں ان علاقوں سے ووٹ ملتے رہے ہیں اور یہاں کے عوام کے ووٹ سے ہی وہ اقتدار کے ایوانوں تک پہنچتے رہے ہیں اگر چہ آزاد کشمیر کے اقتدار کے ایوانوں میں پہنچنے کیلئے’’ پاکستان کے ایوان اقتدار ‘‘کی منشا کا ہونا ضرور ی ہے تاہم ’’رسم ِالیکشن ‘‘ہر پانچ سال بعد ضرور ادا کی جاتی ہے اور پھر اُسی منشا کیمطابق وہی سیاسی شخصیات اقتدار کے ایوان تک پہنچ پاتی ہیں جنہیں ’’پاکستان کے ایوان اقتدار ‘‘سے گرین سگنل ملاہوتا ہے ۔سردار میر اکبر صاحب اس حقیقت کو بخوبی سمجھتے ہیں اسلئے آج تک کرسی اقتدار پر براجمان ہیں ۔

قارئین…!!سردار میر اکبر صاحب سے ایک نہ ایک دن انکی رعایا کے بارے سوال تو ہوگا فانی دنیا میں اگر کوئی نہ کر پایا تو ابدی دنیا میں تو ہوگا کیونکہ کراماًقاطبین نے تو ان کے دور اقتدار میں ہونے والے حادثات کا اندراج کیا ہوگا۔

’’اگر حضرت عمر ؓ کے اندر خوف کی کیفیت یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ اگر دریائے فرات کے کنارے کتا بھی بھوکا مرا تو عمرؓ جوابدہ ہونگے‘‘

قارئین…!! یقینا پھر اندراج تو دائیں بائیں موجود فرشتے کرتے ہی ہونگے اگر سردار میر اکبر صاحب یہ بوجھ کل کو اٹھا لیں گے تو اس شاہراہ پر اپنے دور اقتدار میں مزید خطرناک حادثات کو جگہ دے سکتے ہیں اور اگر وہ سمجھتے ہیں کہ بوجھ انکے کندھوں سے زیادہ ہے تو پھر انہیں سوچنا ہوگا کہ چوکی روڈکی تعمیر فوری کروادی جائے کیونکہ یہ تو سادہ سا سوال ہے اور سادہ سا جواب ۔اس سے ایک جانب وہ ایک بھاری بھر بوجھ تلے دبنے سے بچ جائیں گے تو دوسری جانب آنیوالے انتخابات میں اس حلقے سے انکی کامیابی کے امکانات روشن ہو جائیں گے کیونکہ یہ ایک سیاسی سٹنٹ بھی ثابت ہو گا اور اگر وہ میری اس مئودبانہ گزارش پر کوئی توجہ نہیں دیتے تو پھر دونوں طرف سے خسارا ہی خسارا ہے اب فیصلہ سردار میر اکبر صاحب پر ہے۔

قارئین…!!ایک جانب سردار میر اکبر صاحب تو دوسری جانب وزیر تعمیرات چوہدری عزیز صاحب پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور بوجھ ان کو بھی معصوم انسانی زندگیوں کے ضیاع کا اٹھانا ہوگا اور میں اُن سے بھی مخاطب ہوں کہ عزت مآب وزیر تعمیرات صاحب اگر آپ یہ سکت رکھتے ہیں کہ اس بوجھ کو اٹھا سکیں تومجھے دیوانہ سمجھ کر اسے نظر انداز کر دیں اور اگر آپ سمجھتے ہیں کہ میر ی مئودبانہ گزارش سننے میں آپ کی عافیت ہے تو اس اہم مسئلے پر شفقت فرمائیں۔

قارئین…!! آخر میں مختصر خلاصہ یہ ہے کہ میں نے اس پوری تحریر میں حکومت اور کمیونٹی کے حقوق و فرائض کو بھر پور انداز میں واضح کرنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے کیونکہ ایک راقم اپنے اندر کے احساسات کو قلم کی مدد سے ہی دوسروں تک ٹرانسفر کر سکتاہے کیونکہ اسکے پاس یہی ایک ہتھیار ہے اور راقم نے اپنا فرض ادا کر دیا اب راقم کی طرف سے فرض کی ادائیگی کیلئے جن شخصیات کی نشاندہی کی گئی ہے انکے مثبت اقدام کیلئے چوکی روڈ کے مکین اپنی حسرت بھری پر اُمیدنگاہیں لگائے منتظر رہیں گے اور یقینا اللہ تعالیٰ اپنے حقوق پر تو معافی کا اختیار خود کو دیتا ہے مگر بندوں کے حقوق پر معافی کا اختیار اُس نے صرف بندوں کو ہی عطا کیا ہے اور مخلوق خدا کے مجرم یاد رکھیں کہ مہربان رب سے تو خطائیںمعاف کروانے کی امیدبھر لائی جا سکتی ہے مگر مخلوق خدا سے معافی حاصل کرنا انتہائی دشوار گزار عمل ہے ۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو حقوق و فرائض سے آگہی اور ان کو پورا کرنے کی ہمت و استطاعت عطا فرمائے ۔ آمین
 

Sardar Asghar Ali Abbasi
About the Author: Sardar Asghar Ali Abbasi Read More Articles by Sardar Asghar Ali Abbasi: 31 Articles with 24001 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.