۱۲ دسمبر کوبھارتیہ جنتا پارٹی کے آنجہانی عوامی رہنما
گوپی ناتھ منڈے کی سالگرہ منائی جاتی ہے ۔ عرصۂ دراز سے ان کے شہر پرلی
میں بڑے تزک و احتشام سے اس کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس بار بھی ہمیشہ کی
طرح گوپی ناتھ منڈے کے لاکھوں مداح خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے وہاں جمع
ہوئے لیکن ایک فرق واقع ہوگیا تھا۔ منڈے کے گڑھ میں اس مرتبہ زعفرانی پرچم
کے بجائے این سی پی کی گھڑی خطرے کا الارم سنارہی تھی۔ کمل کے جس جھنڈے کو
لہرا کر منڈے اس دنیا سے رخصت ہوئے تھے اور ان کی بیٹی پنکجا منڈےجسے لے کر
آگے بڑھ رہی ہیں وہ سرنگوں تھا۔یاد رہے حالیہ صوبائی انتخاب میں پنکجا
منڈے کے چچا زاد بھائی دھننجئے منڈے نے انہیں تیس ہزار ووٹ کے فرق سے شکست
دے دی ہے۔
ایسا کیوں کر ہوگیا ؟ اس سوال کا جواب اپنی پارٹی کے صوبائی صدر چندرکانت
پاٹل کے سامنے گوپی ناتھ منڈے کے پرانے ساتھی ایکناتھ کھڑسے نے نہایت واضح
الفاظ میں ۱۲ دسمبر کو دے دیا۔ سچ تو یہ ہے کہ اس خطاب عام میں ایکناتھ
کھڑسے نے اپنا دل کھول کر رکھ دیا اور سامعین کا دل جیت لیا۔ ان کے ہر جملے
پر لوگ تالیاں بجا کر داد رہے تھے کیونکہ اس کے اندر بغاوت کا آتش فشاں
ابل رہا تھا ۔ سارا مجمع اس کی حرارت کو محسوس کررہا تھا اور اس سے محظوظ
ہورہا تھا۔ اپنی پرانی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے ایکناتھ کھڑسے نے یاد دلایا
کہ ایک زمانے تک جن سنگھ اور بھارتیہ جنتا پارٹی شہروں تک محدود تھی ۔ اس
کے ارکان اسمبلی کی تعداد 14 سے آگے نہیں بڑھ پاتی تھی ۔ اس لیے کہ اسے
’سیٹھ جی اور بھٹ جی ‘ کی پارٹی سمجھا جاتا تھا۔ اس’براہمن بنیا ‘ پارٹی کو
عوام سے جوڑ کر گاوں دیہات میں لے جانے کا کام گوپی ناتھ منڈے نے کیا ۔
انہوں نے سماج کے پسماندہ طبقات کے ساتھ بی جے پی کا رشتہ جوڑ کر اسے مقبول
عام بنایا یہاں تک کہ وہ اقتدار پر فائز ہونے کے بعد اب اس سے بے دخل بھی
ہوگئی۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقتدار سے محرومی کی بنیادی وجہ اس بیان کے بین
السطور موجود ہے۔ یہ پارٹی پھر سے ایک امیت شاہ نامی سیٹھ جی اور دوسرے بھٹ
جی جن کا اسم گرامی دیویندر فردنویس ہے کے چنگل میں پھنس چکی ہے۔ ان میں سے
ایک کودھن دولت کا گھمنڈ ہے اور دوسرا اپنی عقل اور فتنہ پروری پر اتراتا
پھرتا ہے۔ اسی رعونت نے انتخابی کامیابی کے باوجود بی جے پی سے مہاراشٹر
میں اقتدار چھین لیا ہے۔مہاراشٹر کے سیاسی منظر نامہ پر اس تبدیلی کے لیے
کل تک کا نایک دیویندر فردنویس ذمہ دار ہے۔ اس اتھل پتھل نے سابق وزیر
اعلیٰ کوکھلنایک بنا دیا ہے۔ ہیرو سے زیرو بن جانے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ
انہوں نے کچھ نیا کردیا ۔ فردنویس نے جب سے اقتدار سنبھالا ان کا طریقۂ
کار نہیں بدلا مگراس بار نتیجہ بدل گیا ہے۔ اس سے قبل ان کے حصے میں آنے
والی کامیابیاں سارے عیوب پر پردہ ڈال دیتی تھیں۔ وہ ایوان پارلیمان سے لے
کر گرام پنچایت تک میں اپنی اسی حکمت عملی سے کامیابی درج کراتے تھے۔ اس
لیے لوگ ان کی تعریف و توصیف کے پل باندھنےلگتے تھے ۔
فرد نویس کی طاقت میں بتدریج اضافہ نے پارٹی کے اندر اور باہر ان کے
مخالفین کو مرعوب کردیا تھا ۔ اس مرتبہ ہاتھ آنے والی ناکامی نے چونکہ
انہیں کمزورکردیا ہے اس لیے تعریف و توصیف کی جگہ تنقید و اہانت براجمان
ہوگئی ہے اور ہر کسی کا نزلہ انہیں پر اتر نکال رہا ہے۔ بی جے پی کی بھلائی
اس میں تھی کہ دہلی بلا کر مرکزی حکومت میں کوئی اہم وزارت ان کو سونپ دی
جاتی۔ یہ بھی ہوسکتا تھا کہ پارٹی کے اندر کوئی اہم عہدہ ان کے حوالے کردیا
جاتا تاکہ سانپ بھی مرجاتا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹتی ۔ اس طرح فردنویس کی
عزت محفوظ رہتی اور پارٹی ان کے ذریعہ ہونے والے مزید خسارے سے بچ جاتی۔
صوبے کی قیادت پسماندہ طبقہ سے تعلق رکھنے والے ایکناتھ کھڑسے جیسے کسی
تجربہ کار رہنما کے حوالے کی جاتی تو کئی فائدے ہوسکتے تھے۔ پہلا تو یہ کہ
’سیٹھ اور بھٹ جی‘ والی شبیہ بدلتی اور پسماندہ طبقات کا پھر سے اعتماد
حاصل ہوتا ۔ دوسرے یہ کہ پارٹی کے اندر فردنویس سے ناراض لوگوں کے زخموں پر
(جن میں زیادہدیگر تر پسماندہ ذاتوں کے لوگ ہیں )مرہم رکھا جاتا اور وہ پھر
سے نئے رہنما کے ساتھ کام کرنے پر آمادہ ہوجاتے۔
انتخاب کے بعد مہاراشٹر میں بی جے پی کی نئی ٹیم اپنے منتشر قافلہ کو مجتمع
کرنے کی سعی کرسکتی ہے لیکن سنسکرت کا معروف محاورہ ہے’وناش کالے ویپریت
بدھی‘ یعنی تباہی کے دور میں مت ماری جاتی ہے۔بی جے پی کے ساتھمہاراشٹر کی
حد تک یہی ہورہا ہے۔ کانگریس نے مہاراشٹر کا اقتدار گنوانے کے بعد اپنے
سابق وزیراعلیٰ پرتھوی راج چوہان کو حزب اختلاف کا رہنما نہیں بنایا تھا اس
لیے کہ اقتدار سے ہٹنے کے فوراً بعد وہ نچلا عہدہ ان کے وقار کی توہین تھا
لیکن بی جے پی کو یہ بات سمجھ میں نہیں آئی۔ کرناٹک کے اندر تو ضمنی
انتخاب میں ناکامی کے بعد کانگریس رہنما سداّ رمیا نے اپنا استعفیٰ پیش
کردیا۔ قومی انتخاب کے بعد راہل گاندھی نے پارٹی کی صدارت چھوڑ دی لیکن بی
جے پی والوں کو نہ جانے کیا ہوگیا کہ وہ اپنا عہدہ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں
ہیں ۔ نہ تو صوبائی صدر چندرکانت پاٹل اس کے لیے آگے آرہے ہیں اور نہ
فردنویس اس کے لیے پہل کررہے ہیں ۔
بی جے پی میں بغاوت کا پہلا علم ایکناتھ کھڑسے نے بلند کیا۔ وہ ۲۰۱۴ سے
قبل ایوانِ اسمبلی کے اندر بی جے پی کے لیڈر تھے۔ ان کو پہلے تو وزیراعلیٰ
کے عہدے سے محروم کیا گیا اور بعد میں بدنام کرکےوزارت چھین لی گئی۔ آگے
چل کرانتخابی ٹکٹ سے محروم کرکے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی گئی۔ ان کی
ناراضگی کو کم کرنے کے لیے آخری وقت میں بیٹی کو ٹکٹ تو دے کرداخلی سازش
سے ہرا دیا گیا۔ انتخابی نتائج کے بعد ایکناتھ کھڑسے نے کہا تھا کہ اگر سب
کو ساتھ لے کر انتخاب لڑا جاتا تو یہ دن نہیں دیکھنا پڑتا۔ اپنی ناراضگی
کودوہراتے ہوئے پرلی میں ایکناتھ کھڑسے نے کہا کہ پنکجا منڈے بھی ہاری نہیں
ہے بلکہ ان کو اپنی پارٹی کے لوگوں نے سازش کرکے ہرایا ہے۔
پنکجا منڈے کے لیے یہ انکشاف نیا نہیں ہے۔ اس سالگرہ کی تقریب سے دو ہفتہ
قبل اپنے فیس بک پیج پر وہ بھی خوب جم کر اپنے دل بھڑاس نکال چکی ہیں۔ ویسے
پارٹی پنکجا کے ساتھ ایکناتھ سے بہتر سلوک کیا ۔ ان کو بھی بدنامی کی اگنی
پریکشا سے تو گزارہ گیا مگردیویندر فردنویس وزارت سے محروم کرنے کی جرأت
نہیں جٹا سکے ۔ وہ آخر تک وزیر رہیں اور پہلی ہی فہرست میں انہیں ٹکٹ
دےدیا گیا۔ امیت شاہ نے خود ان کو کامیاب کرنے کے لیے پرلی ویجناتھ میں
تشہیر کی لیکن جب صوبائی رہنما کسی کی دشمنی پر اتر آئے تو دہلی کی کمک کس
کام آسکتی ہے ۔ کھڑسے اور منڈے کے ساتھ اختیار کیے جانے والے رویہ میں فرق
اس لیے کہ پنکجا سے دیویندر کو کوئی خطرہ نہیں تھا ۔ وہ ان سے جونیر ہیں
لیکن ایکناتھ کھڑسے سینئر ہونے کے سبب ہمیشہ ہی وزیراعلیٰ کی آنکھوں کا
کانٹا بنے رہے۔ اس کانٹے کو اپنے راستے سے ہٹانے کےلیے فردنویس نے ہر ممکن
سازش کی یہاں تک کہ ان کا اپنا کانٹا نکل گیا ۔
|