افغانستان کے خلاف اس لیے استعمال ہوئے کہ کہیں امریکہ
ناراض نا ہوجائے۔
شام میں مظالم کے خلاف اس لیے کچھ بول نہ سکے کہ کہیں ایران ناراض نا
ہوجائے۔
کشمیریوں کی مدد کرنے سے اس لیے قاصر ہے کہ کہیں اقوام متحدہ ناراض نا
ہوجائے۔
آزاد منش مسلم حکمرانوں کے شانہ بشانہ اس لیے کھڑے نا ہوسکے کہ کہیں سعودیہ
خفا نا ہوجائے۔
لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ یقینا آپ کا جواب یہی
ہوگا کہ ہمارا پالا بے ضمیر حکمرانوں سے پڑا ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر سوچیے
کہ ہر بار ہمارے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا ہے؟
جب آپ اس "کیوں،، کی وجوہات تلاش کریں گے تو یقینا آپ خود کو خود ہی کٹہرے
میں لا کھڑا کریں گے۔ کیونکہ ہر بار ہر حکمران کو مسندِ اقتدار تک لانے یا
ان کے اقتدار کو دوام بخشنے میں ہمارا کردار کہیں نا کہیں ضرور ہوتا ہے۔
ہمیں یہ بات اچھی طرح معلوم ہیں کہ ہمارے منتخب کردہ افراد ہی آگے جاکر
ہمارے مستقبل کے بارے میں فیصلے کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود فیصلہ کن گھڑی
میں ہم وہ کردار ادا نہیں کرتے جو وقت کی ضرورت اور ہماری بنیادی ذمہ
داریوں میں شامل ہوتا ہے۔ اکثر ایسے اہم مواقع پر ہم اپنے مستقبل کے باگ
ڈور خود ہی غیر موزوں افراد کے ہاتھوں میں دے دیتے ہیں اور سالوں تک پھر
خود ہی اپنے ہی منتخب کردہ افراد کو کوستے رہتے ہیں۔ فیصلے کی اس گھڑی میں
ہم بک جاتے ہیں، کہیں لسانیت کے نام پر، کہیں عصبیت کے نام پرتو کہیں مسلک
کے نام پر۔ حالانکہ ہمارے درمیان اچھے لوگوں کی کمی نہیں لیکن وہ اچھے لوگ
کھوکھلے نعروں اور جھوٹے وعدوں کے قائل نہیں ہوتے اس لیے ہمارا نظر انتخاب
ایسے لوگوں پر نہیں پڑتا۔ ہم اکثر سہانے خوابوں میں کھوجاتے ہیں اور جب ہوش
آتا ہے تو پھر کافی دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ نتیجتا ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے
ووٹوں سے بنی حکومت ہی ہمارے امیدوں کو خاک میں ملا دیتی ہے اور ہم بے بسی
کی تصویر بنے سب کچھ دیکھتے رہتے ہیں لیکن کر کچھ نہیں سکتے۔ اب یہ عوام پر
منحصر ہے کہ وہ کیا چاہتی کیا ہے؟ اگر عوام عزت و وقار کی زندگی جینا اور
وطن عزیز کو بلند مقام ہر دیکھنا چاہتی ہیں تو پھر دھوکہ باز اور ضمیر فروش
سیاست دانوں اور ان کی پارٹیوں کو خیر باد کہنا ہوگا اور محب وطن و محب
اسلام، با ضمیر و بے داغ ماضی رکھنے والوں کو سپورٹ کرنا ہوگا۔ بصورت دیگر
ضمیر فروشی کا سلسلہ یونہی چلتا رہے گا۔ |