فیصلہ آگیا ہے۔ اسی فیصلے کا تو انتظار تھا۔ جب فیصلہ
ہونا ہوتا ہے تو اس سے پہلے ہلکی ہکی خنک ہوا فیصلے کی شدت کا اعلان کررہی
ہوتی ہے۔ اور جب فیصلہ آتا ہے تو اس فیصلے میں کہیں تو قومی مفاد نظر آتا
ہے، کہیں پہ کرب و تکلیف نظر آتی ہے اور کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ذاتی
عناد بھی جھلکتا نظر آتا ہے۔ پاکستان میں سب سے بڑا المیہ ہے کہ آپ جو
سوچتے ہیں، وہ لکھ نہیں سکتے۔ اور جو آپ لکھ رہے ہوتے ہیں آپ کی سوچیں اس
سے کہیں آگے کے سفر پر جاچکی ہوتی ہیں۔ یہ بند گلی کی سوچیں ہی جب کوئی
راستہ نہیں پاتیں تو کبھی ڈی چوک بنتا ہے، کبھی تحریر اسکوائر۔
فرض کیجیے یہاں جس کا جو من چاہے وہ لکھنا شروع کردے تو ایک دن میں آپ کو
تحریروں کے ایسے انبار لگتے نظر آئیں جن میں لفظوں کو نشتر میں لپیٹ کر
ایسی زہریلی سچائیوں میں بھگو بھگو کے لکھاری ماریں کہ آپ کو ٹیسیں تو
محسوس ہوں لیکن ان کے زخم نظر نہ آسکیں۔ اور ایسا صرف سوچا جاسکتا ہے کہ
پاکستان میں ابھی ویسا ہونا ممکن نہیں ہے۔ اور سب اچھا ہے جی، سب اچھا جناب۔
سب اچھا اچھا سمجھتے جائیے اور سر دھنتے جائیے۔پرویز مشرف نے 1999 میں
جمہوری حکومت کا تختہ الٹا (یہ بحث اپنی جگہ موجود ہے کہ امیرالمومنین بننے
کا جو خناس بھرا جاچکا تھا، اسی نے یہ حالات دکھائے)۔ نواز شریف جیسے بھی
تھے بہرحال عوام کے ووٹوں کی طاقت سے ایوان تک پہنچے تھے۔ اب پاکستان میں
یہ ووٹ کیسے حاصل کیے جاتے ہیں، یہ ایک طوالت لیے ہوئے الگ موضوع ہے۔ لیکن
بہرحال مختصراً کہ پرویز مشرف نے اقتدار سنبھال لیا اور وردی میں بھی رہے۔
جمہوری نظام کو ہمیشہ کہا جاتا ہے کہ لولا لنگڑا ہی سہی لیکن نظام تو ہے۔
نہ جانے اس نظام کا علاج ستر سال سے زائد ہونے کو آئے، کیوں نہیں ہو پا رہا۔
اور ہم کب تک بودی دلیلیں دیتے رہیں گے۔ جب کہ ہمارے جمہوری سرخیل ہی اس
نظام کو چلنے دینا نہیں چاہتے اور انڈر دی ٹیبل معاملات کو ایسا سنبھالنے
کی کوشش کرتے ہیں کہ جمہوریت پنپ نہیں پاتی۔پرویز مشرف نے اقتدار پر اجارہ
حاصل کیا۔ حیرت کا مقام کہ پرویز مشرف سے ماضی کے سفر پر صدر ایوب تک، کبھی
کنونشنل لیگ اور کبھی ق لیگ، لیکن جناب ہم تین دن ڈی چوک پر لٹکائیں گے صرف
اور صرف پرویز مشرف کی لاش کو۔ ڈاکٹر اور وکلا آپس میں گھتم گتھا ہوئے تو
وکلا نے اسپتال تہس نہس کردیا کہ جسے جنگ میں بھی نشانہ نہیں بنایا جاتا۔
وفاق کی یونیورسٹی میں گولیاں چل گئیں۔ اور اب چوک میں لٹکا دیجیے۔
ارے جناب! پاکستان میں تعلیم ہمارا کیوں کچھ نہیں بگاڑ پارہی۔ تاریخ میں
الفاظ دائم رہتے ہیں۔ اور ہم تاریخ کا حصہ ایسے الفاظ کو بنا رہے ہیں کہ ہم
نے ایک سابقہ آرمی چیف، سابقہ چیف آف جنرل اسٹاف، سابقہ صدر پاکستان، اور
موجودہ سربراہ آل پاکستان مسلم لیگ کی حب الوطنی پر سوالیہ نشان لگادیا ہے؟
چوک پر ضرور لٹکا دیجیے۔ لیکن لٹکانے کا یہ سفر ذرا ماضی بعید سے شروع
کیجیے اور جس جس نے ایوب کا ساتھ تھا، جو جو یحییٰ کی توصیف کرتا رہا، جس
جس نے ضیا کی حکومت کو مضبوط کرنے میں کردار ادا کیا، ان میں سے جو بھی
زندہ ہے، اسے شہروں کے مرکزی چوک پر لٹکانے کا بھی بندوبست کیجیے۔ حلف کی
پاسداری کیا صرف ایک پرویز مشرف نے نہیں کی؟ یہاں کون ہے جو حلف کی پاسداری
کررہا ہے؟ ایک چھڑی سے ہانکیے سب کو کہ الٹا لٹکانے کےلیے سازو سامان کم
پڑجائے گا۔
درست ہے کہ پرویز مشرف نے آئین توڑا۔ چاہے وہ ہوا میں بمعہ جہاز زمیں بوس
بھی ہوجاتا تو کوئی شک نہیں کہ آئین نہیں توڑنا چاہیے تھا۔ آئین تو دستاویز
ہے، درست کرنا ہے تو نیتوں کو درست کیجیے۔ یہاں تو دونوں ہاتھوں سے بہتی
گنگا میں جو ہاتھ دھو رہے ہیں، وہ صاف بچ نکلتے ہیں۔ سونے پہ سہاگا تو یہ
کہ اولاد بھی دوسرے ممالک کی شہریت رکھتی ہے۔ اور لٹکانا مگر ہم نے صرف
پرویز مشرف کو ہے۔
پرویز مشرف کو لٹکانا ہے تو چلیے ایک کام کیجیے کہ 2007 ہی اگر معیار ہے تو
اس سال کے بعد جس جس نے بھی پرویز مشرف سے کوئی فائدہ لیا، جس نے بھی پرویز
مشرف کی ہاں میں ہاں ملائی، جس نے بھی اپنا الو سیدھا کیا، جس نے جو جو بھی
سمیٹا پرویز مشرف کی چھاؤں میں، ان سب کو لٹکائیں۔ اگر لٹکانا کچھ سخت ہے
تو بھی کم از کم گھسیٹیں ضرور۔
الفاظ جو تاریخ میں لکھے جاتے ہیں، وہ ہمارا مثبت چہرہ بھی بنتے ہیں اور
منفی بھی۔ آئیے ہم تاریخ کو بھی درست کردیتے ہیں۔ پرویز مشرف کو لٹکانے کے
ساتھ ہم ہر اس شخص کو لٹکا دیتے ہیں جس نے پرویز مشرف کے کانوں میں رس
گھولا کہ جناب آپ سے طاقتور کوئی ہے نہیں۔ ہم ہر اس آواز کو بھی لٹکا دیتے
ہیں جس نے پرعیز مشرف کی شان میں قصیدے پڑھے اور آج بھی وہ بہاروں کے مزے
لوٹ رہے ہیں۔ ہم دنیا کو اپنے اوپر ہنسنے کا ایک اور موقع دیتے ہیں اور
پرویز مشرف کے ساتھ ان کے اس دور کے تمام ساتھیوں کو بھی لٹکا دیتے ہیں کہ
ہم نے حب الوطنی ناپنے کا پیمانہ جو اپنے پاس رکھ چھوڑا ہے۔ وہ فیصلہ جو
جمہوریت کی مضبوطی قرار دیا جارہا تھا اس کے حامی بھی اب چند سطروں سے
توصیف نہیں کرپارہے۔
عدالتی فیصلہ جو بھی آیا ہے، اس پر ایک لفظ نہ حق میں رائے نہ مخالفت میں۔
لیکن ایک ادارے کی عزت ہم اپنے ہاتھوں سے داؤ پر لگارہے ہیں۔ ادارہ بھی وہ
جو ہر تنقید کے باوجود ہر مشکل حالات میں صف اول میں کھڑا ہوتا ہے۔ ہم جتنی
چاہے فوج پر تنقید کرلیں لیکن اس حقیقت سے اگر انکار ممکن ہے تو انکار کرکے
دکھائیے کہ یہ واحد منظم ادارہ باقی ہے پاکستان میں۔ ہم اپنی فوج کو طنزو
طعنوں کا تختہ مشق بنائے رکھیں لیکن اس سچائی سے ہم نجانے کیسے انکار
کرسکتے ہیں کہ پوری دنیا کو اس فوج کا نظم و ضبط ہی تو کھٹکتا ہے۔
جزا و سزا، غداری و حب الوطنی کے تقاضے کیا ہیں؟ انسان کا ضمیر جانتا ہے یا
پھر خدا جانتا ہے۔ لیکن ہم ایک ایسی نہج پر پہنچ چکے ہیں جہاں ایک نئے سوشل
کانٹریکٹ کی اشد ضرورت ہے۔ نظریہ ضرورت مفادات کی خاطر اگر اپناتے رہے ہیں
تو پاکستان کی بہتری کےلیے بہرحال مل بیٹھنے میں کوئی قباحت نہیں ہے- |