ملائشیا کانفرنس، مسلم امہ میں نیا بلاک بنانے کی کوشش

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

کلیم اﷲ

ملائشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں شروع ہونے والی کانفرنس میں پاکستان، سعودی عرب، مصر اور متحدہ عرب امارات شرکت نہیں کر رہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو تو اس میں شرکت کی دعوت ہی نہیں دی گئی البتہ پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے یہ کہتے ہوئے کوالالمپور کانفرنس میں شرکت سے انکار کیا ہے کہ وہ امت مسلمہ کی تقسیم کے کسی عمل میں حصہ دار نہیں بننا چاہتے۔ اس کانفرنس کا ابھی تک کوئی واضح ایجنڈا جاری نہیں کیا گیا۔ چار دن تک جاری رہنے والی اس کانفرنس کا اختتام ہفتہ کو ہو گاجس میں کشمیر، فلسطین، شام، میانمار ،یمن اور سنکیانگ جیسے مسائل پر گفتگو کی جائے گی۔ کانفرنس میں ترک صدر رجب طیب اردوان، ایرانی صدر حسن روحانی، قطر کے شیخ تمیم بن حمد آل ثانی اور دیگر رہنما شرکت کر رہے ہیں۔ سعودی عرب نے کوالالمپور کانفرنس سے متعلق کہا ہے کہ یہ دنیا کے ایک ارب 75 کروڑ مسلمانوں کو درپیش مسائل پر تبادلہ خیال کے لیے ایک غلط فورم ہے۔ ایسے مسائل پر اسلامی تعاون تنظیم ( او آئی سی )کے فورم ہی پر بات چیت کی جانی چاہیے۔خادم الحرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے ملائشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد سے ٹیلیفونک گفتگو کے دوران بھی اپنے اسی موقف کا اظہار کیا تھا۔ ملائیشین وزیراعظم کے دفتر کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اس کانفرنس میں شرکت کے لیے او آئی سی کے تمام ستاون ممالک کو دعوت نامے جاری کیے گئے تھے لیکن ان میں سے بیس کے لگ بھگ شرکت کررہے ہیں اور ان میں سے بھی چند ایک سربراہان ریاست وحکومت کی شرکت متوقع ہے۔

پاکستان، سعودی عرب ، مصر اور متحدہ عرب امارات جیسے ملکوں کی عدم شرکت اور بین الاقوامی رہنماؤں کی طرف سے امر کا خدشہ ظاہر کئے جانے کے بعد کہ کوالالمپور کانفرنس او آئی سی کا متبادل پلیٹ فارم قائم کرنے کیلئے ہے‘ ملائشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد نے اپنا موقف تبدیل کیا اور کہا ہے کہ اس کانفرنس میں ایسا کچھ نہیں ہو گا لیکن یہ بات قابل ذکر ہے کہ چند دن قبل ملائیشین وزیراعظم او آئی سی کے خلاف کھل کر اظہار خیال کر چکے ہیں اور انہوں نے کہا تھا کہ او آئی سی کا ادارہ مسلم ملکوں کے درمیان پائے جانے والے تنازعات حل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ اس لئے ملائشیا میں ہونے والی کانفرنس پر مسلم دنیا کے مختلف اہم ممالک کی جانب سے سخت تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ کانفرنس میں جتنی بھی اچھی تقاریر کر لی جائیں مگر یہ بات طے ہے کہ کوالالمپور کانفرنس کے نتیجہ میں مسلم دنیا دو حصوں میں تقسیم ہو گی۔ ایران اور قطر کو کانفرنس میں بلانا اور سعودی عرب جیسے ملکوں کو دعوت نہ دینا برادر اسلامی ملک سعودی عرب کو تنہا کرنے کی کوششوں کے طور پر بھی دیکھا جارہا ہے۔ او آئی سی اور سعودی عرب کے پچاس سالہ کردار کو اچانک فراموش کر کے ایک نیا بلاک تشکیل دینا کسی طور درست نہیں ہے۔ مملکت سعودی عرب نے ہمیشہ اسلامی تعاون تنظیم(او آئی سی) کو سپورٹ کرنے کا اہتمام کیا ہے تاکہ یہ تنظیم مسلم دنیا کے مسائل کے حل کے لیے بہتر انداز سے اپنا کردار ادا کر سکے۔ دنیا میں ایک اہم ملک ہونے کے اعتبار اور حیثیت سے،برادر ملک کا اسلامی یکجہتی کے فروغ کے لیے ایک اہم اور با اثر تزویراتی کردار رہاہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے کے بعد، اسلامی تعاون تنظیم دنیا کا دوسرا بڑا عالمی ادارہ تصور کیا جاتا ہے۔ بڑے اقدامات اور اہم کردار کی بدولت، مملکت سعودی عرب توازن کا محور ہے، بطور خاص ان بے شمار مسائل اور اختلافات حل کرنے کے سبب اور ان کی راہ میں رکاوٹ بننے کے سبب جو اسلامی ممالک میں بالواسطہ یا بلا واسطہ دخل اندازی کی کوشش کرتے ہیں۔ مملکت سعودی عرب، مصیبت کی گھڑی میں جب کبھی بھی امت مسلمہ سیاسی، معاشی، یا قدرتی آفات میں مبتلا ہوتی ہے، تو اپنے بھائیوں کی طرف مدد کا ہاتھ بڑھاتی ہے۔ خادم الحرمین شریفین ہمیشہ عرب اور اسلامی ممالک کے درمیان دوستی، اخوت اور یکجہتی کی فضا قائم رکھنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں، تاکہ مسلمانوں کی صفیں متحد رہیں اور ان کے درمیان اختلافات نہ پیدا ہوں۔ اسلامی مسائل کے حل کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کا مقصد مسلمانوں کے درمیان اخوت اور بھائی چارے کی فضا کو قائم رکھنا اور باہمی تعلقات کو کدورتوں سے پاک رکھنا ہے تاکہ اسلامی یکجہتی کو مضبوط کیا جا سکے۔ مملکت سعودی عرب، بانی شاہ عبدالعزیز کے دور سے لیکر آج خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے دور تک، امت مسلمہ کی پریشانیوں کا بغور جائزہ لیتی رہی ہے اور اسلامی یکجہتی کو مضبوط بنانے کرنے کے لیے انتھک کاوشیں کرتی رہی ہے۔ برادر ملک ہمیشہ امت مسلمہ کے مسائل کے خاتمے کے لیے عالمی قوانین اور اسلامی سربراہی کانفرنسوں کی قراردودوں اور اسلامی ممالک کے وزراء خارجہ کی ملاقاتوں کے ذریعہ اسلامی تعاون تنظیم کے سائے میں منصفانہ حل تلاش کرتا رہا ہے۔

اقوام متحدہ کے بعد، اسلامی تعاون تنظیم دنیا کا دوسرا بڑا عالمی ادارہ ہے جس کے رکن ممالک کی تعداد 57 ہے اور یہ رکن ممالک 4 بر اعظم پر پھیلے ہوئے ہیں۔ اسلامی تعاون تنظیم، عالم اسلام کی اجتماعی آواز ہے اور رکن ممالک کے لیے سرکاری چھتری ہے۔ اس تنظیم کا مقصد مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ کرنا، مسلمانوں کو یک آواز رکھنا اور قوموں کے تعلقات کو مضبوط کرنا ہے۔ مملکت سعودی عرب نے اپنے قیام سے لیکر آج تک امت مسلمہ کے غموں کو اپنا غم تصور کیا ہے چناچہ اسلامی وحدت کا بیج شاہ عبدالعزیز نے 1926 میں بویاجب انہوں نے مکہ مکرمہ میں اسلامی سربراہی کانفرنس کے لیے پکارا جس کے نتیجے میں کئی قراردادیں سامنے آئیں اور اسلامی وحدت کی راہ ہموار ہوئی۔ ملائشیا کانفرنس سے متعلق یہ سوال بہت زورسے اٹھایا جارہا ہے کہ اگر کوالالمپور کانفرنس کا مقصد عالم اسلام کو درپیش مسائل پربحث کرنا ہی ہے تو اس کیلئے بعض مسلم ملکوں کو نکال کر ایک نئی کانفرنس کا انعقاد کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اور کیا یہ کام او آئی سی کے پلیٹ فارم پر نہیں ہو سکتاتھا؟مسلمان ملکوں میں ایک نیا بلاک تشکیل دینا درحقیقت بین الاقوامی اسلامی اداروں کی اجتماعی کاوشوں کو نقصان پہنچانا ہے۔ آپ جس قدر چاہیں تنقید کر لیں لیکن یہ بات حقیقت ہے مسلم دنیا کا دینی مرکزہونے کی حیثیت سے اسلامی یکجہتی کو فروغ دینے کیلئے اس کاکلیدی کردار رہا ہے۔ اس لئے سعودی عرب اور او آئی سی کی پچاس سالہ خدمات کو یکسر نظر انداز کرنا دینا کسی طور درست نہیں ہے۔ پاکستانی وزیراعظم عمران خان کا مذکورہ کانفرنس میں شرکت نہ کرنا درست فیصلہ ہے۔ اس کے یقینی طور پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے اور سعودی عرب، پاکستان اور دوسرے اہم اسلامی ملک مل کر مسلم امہ میں اتحادویکجہتی برقرار رکھنے کی کوششوں میں کامیاب ہوں گے اور مسلم امہ میں تقسیم کے خطرات پر قابو پایا جاسکے گا۔ عالمی سطح پر بھی مسلم رہنماؤں اور مبصرین کی طرف سے وزیراعظم عمران خان کے اس فیصلہ کو سراہا گیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے مضبوط موقف اپنانے سے مستقبل میں بعض ملکوں میں پائے جانے والے اختلافات کو بھی ختم کیا جاسکے گا۔

Munzir
About the Author: Munzir Read More Articles by Munzir: 193 Articles with 134453 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.