جب سے ہندوتوا کو بنیاد بنانے والی اور اسے فروغ دینے
والی حکومت برسرے اقتدار آئی ہے تب سے ملک میں بدامنی ، دہشت گردی اور فساد
کو بڑھاوا ملا ہے ، اس حکومت سے پہلے بھی ملک میں فساد پائے جاتے تھے مگر
اس قدر زیادہ نہیں ۔ اس کی مرکزی وجہ یہ ہے کہ اس حکومت کے اکثراہل سیاست
ہی فسادی ہیں ، ان کے اکثر وبیشترمنسٹروں پرقتل، زنا، دہشت گردی اور غنڈہ
گردی کے الزامات ہیں ، ان فسادی منسٹروں کی وجہ سے ملک کے دوسرے فسادیوں کا
سرفخروغرور سے بلند ہے ۔ موجودہ اہل سیاست ہی لوگوں کو فساد پر ابھارتیہیں
اور پھرفسادیوں کی حفاظت ودفاع بھی کرتے ہیں تاکہ فسادی کی ہمت بلند رہے
اور بے خوف ہوکر مزید فساد پھیلاتا رہے ۔
یہ لوگ اس لئے فساد مچاتے ہیں تاکہ ملک کا اقلیتی طبقہ ان سے ڈرا سہما
رہیاوریہ ان پر راج کرتے رہیں ، ان کا دین دھرم بدلتے رہیں ، ان کا خون
پانی کی طرح بہاتے رہیں ، ان کو غدار وطن اوردہشت گرد کہتے رہیں ، انہیں
مجرم وفسادی کہہ کر جیل کی سلاخوں میں سڑاتے رہیں ، ان سے اپنی مرضی کا کام
لیتے رہیں اور جے شری رام، وندے ماترم کا نعرہ لگواکر ان کو مجبوراہندوانہ
دین پر عمل کرواتے رہیں ۔یاد رہے ہمارا خون بہ سکتا ہے ، ہم جیل کی سلاخوں
میں جاسکتے ہیں ، ظلم وستم کے پہاڑ سہہ سکتے ہیں مگر نہ باطل طاقت سے
ڈرسکتے ہیں اور نہ ہی اپنے دین وایمان کا سودا کرسکتے ہیں ۔ اس کو ایک مثال
سے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں ۔
گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام کرکے بھگواحکومت اور بھگواتنظیموں نے
سوچا اب ہم انہیں ڈرا لئے گئے مگر سبحان اﷲ سی اے بی کے خلاف احمدآباد کی
سڑکوں پر خواتین کا احتجاج دیکھ کر انہیں سمجھ لینا چاہئے کہ جب یہ گجرات
کی مسلم عورتوں میں قتل عام کرنے کی باوجود خوف پیدا نہیں کرسکیتو ہندوستان
کے مسلم مردوں میں کہاں سے خوف پیدا کرسکے گا؟مسلمان نڈر اوربہادر قوم ہے ،
ہمارے پاس ہتھیار نہ سہی ، اپنے حوصلوں سے لڑتے ہیں اورایمانی طاقت وقوت سے
جنگ جتتے ہیں ۔
سی اے بی کے خلاف ملک بھر میں احتجاجی جلوسوں پر کنٹرول کرنے کے لئے حکومت
نے متشددانہ رویہ اختیار کی ، پولیس سیگولی چلوائی، آنسو گیس چھوڑوائی ،
انٹرنیٹ بند کروائی ،دھارا ñôô نافذ کی مگر احتجاج جوں کا توں ہے اور کہیں
کسی طبقہ پر خوف طاری نہ ہوا۔ اب ہمارے حوصلوں سے حکومت خود ڈر گئی ہے ،
نرمی سے بات کررہی ہے ، لوگوں کو پیار سے سمجھانے کی کوشش میں لگی ہے ۔ ایک
بڑا گیم یہ بھی کھیل رہی ہے کہ مسلم رہنماوں کو خریدکران کے ذریعہ عوام کو
بے وقوف بنانے کی کوشش کررہی ہے دراصل یہ خود ڈر گئی ہے اور کسی طرح احتجاج
رکوانا چاہتی ہے۔ دہلی کے شاہی امام سید احمد بخاری نے حکومت کے ہاتھوں
بکتے ہوئے یہ بیان دیا ہے کہ این آر سی ابھی کوئی قانون نہیں ہے اس کا محض
اعلان ہوا ہے ، صرف سی اے بی قانون ہے اور اس سیہندوستانی مسلمانوں کا کوئی
لینا دینا نہیں ہے ۔یہ تو پاکستان ، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آئے ہوئے
مسلمانوں سے متعلق ہے اس کے تحت انہیں شہریت نہیں مل سکے گی۔ یہ شاہی امام
کی زبان نہیں مودی اور امت شاہ کی زبان ہے ، اس بیان سے صاف ظاہر ہے کہ
حکومت پوری طرح ڈر گئی ہے اورخود سے کچھ نہیں کرپارہی ہے تو مسلمانوں میں
میرجعفرومیرصادق کا کردار نبھانے والوں کو تلاش کررہی اور اپنی بات ان کی
زبان سے اگلوانا چاہ رہی ہے ۔ ایک ایسے میرجعفربہار سے بھی سامنے آگئے ہیں
ان کا نام ڈاکٹرخالدانور ہے ، پہلے وہ سنسد میں سی اے بی کی حمایت کرچکے
ہیں اور اب کہتے ہیں کہ بہار میں این آر سی لاگو نہیں ہونے دیں گے ۔واضح
رہے کہ سی اے بی ایک قابون بن چکا ہے اور صرف آسام کے لئے نہیں ہے بلکہ
آسام وبہار سمیت ہندوستان کے تمام صوبوں کے لئے لایا گیا ہے ، ایک موٹی عقل
والا بھی سوچ سکتا ہے کہ کسی بھی صوبہ میں سی اے بی نافذ کرنے کے لئے پہلے
این آرسی کی ضرورت پڑے گی اور اس کا اظہار امت شاہ نے سنسد میں بھی کیا ہے
کہ این آر سی پورے ملک میں کی جائے گی، گویا سی اے بی اور این آرسی لازم
وملزوم کی طرح ہیں ۔ ایسے میں ڈاکٹرخالد انور اور سیداحمد بخاری جیسے
دوچہریوالوں کی باتوں سے ہمیں دھوکہ کھانے کی ضرورت نہیں ہے ۔
مجھے خدشہ ہے کہ ملک بھر میں لوگوں کا احتجاج نہ رکا تو ممکن ہے کہ اس طرح
ہرصوبہ سے بلکہ ملک کے کونے کونے سے میرجعفر ومیرصادق نکلے اور ہمیں یہ
سمجھانے کی کوشش کرے کہ سی اے بی سے ہندوستانی مسلمانوں کو کوئی خطرہ نہیں
ہے اس لئے چوکنا رہنے اور پرامن احتجاج جاری رکھنے کی ضرورت ہے ۔ بابری
مسجد کے فیصلے پر بھی ہم نے ایسے دوچہرے والے بہت سے رہنماوں کودیکھا
تھاجنہوں نے عدالت کے فیصلے کو مسلمانوں کے حق میں صحیح قرار دیا ، دراصل
ان لوگوں کو حکومت نے فیصلہ آنے سے پہلے ہی خرید لیا تھا تاکہ فیصلہ آنے کے
بعد لوگوں کی ذہن سازی کرکے خاموش کرسکے ۔
|