پاکستانی وزیراعظم عمران خان ملائیشیا میں ہونے والے
کوالالمپور سربراہ اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیرخارجہ شاہ
محمودقریشی نے وزیراعظم کے ملائیشیا نہ جانے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ
پاکستان کسی بھی سطح پر اس کانفرنس میں شرکت نہیں کرے گا۔سعودی عرب اور
متحدہ عرب امارات کو کانفرنس میں شرکت کی دعوت نہیں دی گئی جبکہ مصر سمیت
بعض دیگر ممالک بھی شرکت نہیں کر رہے۔ ابھی تک کوالالمپور سمٹ کے لیے کوئی
ایجنڈا جاری نہیں کیا گیا تاہم میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ کانفرنس
میں مسئلہ کشمیر اور مشرق وسطیٰ کے مسائل، شام اور یمن کے تنازعہ، میانمار
کے روہنگیا مسلمانوں اور چین میں کیمپوں میں محصور یغور مسلمانوں کے حوالے
سے گفتگو متوقع ہے۔ اس چار روزہ کانفرنس کا اختتام ہفتہ کے دن مشترکہ
اعلامیہ کے بعد ہو گا۔ ایران کے صدر حسن روحانی اور قطری امیر شیخ تمیم بن
حمید الثانی بھی کانفرنس میں شرکت کر رہے ہیں۔ سعودی عرب نے کہا ہے کہ پونے
2 ارب مسلمانوں کے اہم مسائل پر گفتگو کے لیے یہ سمٹ غلط فورم ہے ۔ ملائشیا
کے وزیراعظم مہاتیر محمد کے دفتر سے اسلامی تعاون تنظیم کے تمام 56 ارکان
کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی لیکن صرف 22 ملک اپنے وفود بھیجنے پر آمادہ
ہوئے ہیں اور ان میں سے بہت کم ممالک کی نمائندگی انکے سربراہ کریں گے۔
ملائیشین وزیر اعظم مہاتیر محمد کے دفتر سے جاری بیان میں بین الاقوامی سطح
پر کی جانے والی اس تنقید کہ او آئی سی کے متبادل پلیٹ فارم بنانے کی
کوششیں کی جارہی ہیں‘ کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم مسلم دنیا میں کوئی
نیا دھڑا بنانے کی کوشش نہیں کر رہے۔ یہ سمٹ مذہب یا مذہبی معاملات پر بحث
کے لیے پلیٹ فارم نہیں بلکہ اس میں امت مسلمہ کو درپیش مسائل پر گفتگو کی
جائے گی لیکن دوسری طرف ملائشیا دنیا کو اس بات پر مطمئن کرنے میں کامیاب
نہیں ہو سکا کہ اگر اس کانفرنس کا مقصد محض یہی ہے تو پھر اس کیلئے ایک نئے
پلیٹ فارم کی کیا ضرورت ہے؟ اور کیا یہ کام اسلامی تعاون تنظیم کے تحت نہیں
ہو سکتا تھا؟ کیا ایک نیا بلاک تشکیل دیکر مسلم امہ کے اتحاد و یکجہتی کو
کمزور نہیں کیا جارہا؟یہ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب ملائیشین قیادت کے پاس
نہیں ہے۔حقیقت یہ ہے کہ مسلمان ملکوں میں ایک نیا بلاک تشکیل دینا درحقیقت
بین الاقوامی اسلامی اداروں کی اجتماعی کاوشوں کو نقصان پہنچانا ہے۔ آپ جس
قدر چاہیں تنقید کر لیں لیکن یہ بات حقیقت ہے مسلم دنیا کا دینی مرکزہونے
کی حیثیت سے اسلامی یکجہتی کو فروغ دینے کیلئے اس کاکلیدی کردار رہا ہے۔ اس
لئے سعودی عرب اور او آئی سی کی پچاس سالہ خدمات کو یکسر نظر انداز کرنا
دینا کسی طور درست نہیں ہے۔
اسلامی تعاون تنظیم کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ او آئی سی دنیا کے ڈیڑھ ارب
مسلمانوں کی آواز ہے اور یہ تنظیم اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کے
ساتھ بھی مشاورتی عمل میں منسلک ہے تاکہ دنیا بھر میں مسلمانوں کے مفادات
کا تحفظ اور رکن ممالک کے اختلافات کو دور کیا جاسکے۔ اس کے علاوہ تنظیم نے
اسلامی اقدار کے دفاع ،غلط تصورات کی درستگی اور مسلمانوں کے خلاف نسلی
امتیاز ختم کرنے کے لیے بے شمار اقدامات اٹھائے ہیں۔مملکت سعودی عرب میں
1970 میں پہلی اسلامی وزراء خارجہ کانفرنس منعقد ہوئی جس میں فیصلہ کیا گیا
کہ اسلامی تعاون تنظیم کا جنرل سیکرٹریٹ قائم کیا جائے گا جس کا صدر دفتر
جدہ میں ہوگا اور اس سیکرٹریٹ کے صدر اسلامی تعاون تنظیم کے سیکرٹری جنرل
ہوں گے۔ ڈاکٹر یوسف بن احمد عثیمین اسلامی تعاون تنظیم کے گیارہویں سیکرٹری
جنرل ہیں جنہوں نے یہ عہدہ نومبر 2016 میں سنبھالا۔ 1972 میں اسلامی وزراء
خارجہ کانفرنس کے تیسرے اجلاس کے دوران اسلامی تعاون تنظیم کا چارٹر اپنایا
گیا اور تنظیم کے بنیادی مقاصد اور اصول وضع کیے گئے جن کا سب سے بڑا مقصد
رکن ممالک کے درمیان تعاون اور یکجہتی کو فروغ دینا ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم،
عالم اسلام کی اجتماعی آواز ہے، اور رکن ممالک کے لیے سرکاری چھتری ہے،۔اس
تنظیم کا مقصد مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ کرنا، مسلمانوں کو یک آواز رکھنا،
اور قوموں کے تعلقات کو مضبوط کرنا ہے۔ او آئی سی کی تاسیس اس تاریخی
سربراہی کانفرنس کی قرارداد کے نتیجے میں ہوئی جومراکش کے دار الحکومت رباط
میں 25 ستمبر 1969 میں مقبوضہ بیت المقدس میں مسجد اقصی کو آگ لگانے کے
مجرمانہ عمل کے رد عمل کے طور پر منعقد کی گئی تھی۔ پچھلی چار دہائیوں کے
دوران رکن ممالک کی تعداد 30 سے بڑھ کر 57 ہوگئی، بعد ازاں تنظیم کے چارٹر
میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں تاکہ عالمی پیشرفت سے مطابقت رکھی جاسکے۔ خادم
الحرمین شریفین ہمیشہ عرب اور اسلامی ممالک کے درمیان دوستی، اخوت اور
یکجہتی کی فضا قائم رکھنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں، تاکہ مسلمانوں کی صفیں
متحد رہیں اور ان کے درمیان اختلافات نہ پیدا ہوں۔مسلم دنیا کے مسائل کے حل
کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کا مقصد مسلمانوں کے درمیان اخوت اور بھائی چارے
کی فضا کو قائم رکھنا اور باہمی تعلقات کو کدورتوں سے پاک رکھنا ہے تاکہ
اسلامی یکجہتی کو مضبوط کیا جا سکے۔ مملکت سعودی عرب کی طرف سے مسلم دنیا
میں پائے جانے والے اختلافات ختم کرنے اور امت مسلمہ کو درپیش مختلف چیلنجز
سے نمٹنے کے لیے عظیم کاوشیں کی جاتی رہی ہیں۔ او آئی سی اور سعودی عرب کی
خدمات کو یکسر نظر انداز کرنا کسی طور درست نہیں ہے۔ اصلاح کی گنجائش تو ہر
جگہ موجود ہوتی ہے، جہاں کہیں کمزوری محسوس ہوتی ہے اسے ٹھیک کرنا چاہیے
بجائے اس کے کہ ایک نیا فورم تشکیل دے کر مسلم امہ کے اتحاد میں مزید
دراڑڈالتے ہوئے انتشار کی فضا پیدا کر دی جائے۔ اسلامی تعاون تنظیم( او آئی
سی) کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر یوسف بن عبدالرحمن العثیمین نے کہا ہے
کوالالمپور کانفرنس امت میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش ہے۔او آئی سی سے باہر
کسی بھی عنوان سے مشترکہ جدوجہد اسلام اور مسلمانوں کو کمزور کرنے اور ان
کے اتحاد کی صفوں میں دراڑ ڈالنے والی کوشش ہے اور اس سے لمی برادری کے
سامنے مسلم امہ کی پوزیشن کمزور ہوگی۔انہوں نے ملائیشیا میں محدود اسلامی
سربراہ کانفرنس کے انعقاد کو ایک غلط اقدام قرار دیتے ہوئے کہا کہ او آئی
سی تمام مسلمانوں کو جمع کرنے والی تنظیم ہے۔ اس کا طریقہ کار اس کے دائرے
میں کسی بھی قسم کے اجلاس کا موقع مہیا کرتا ہے۔ مشترکہ جدوجہد او آئی سی
کے دائرہ کار میں ہی رہتے ہوئے کی جانی ضروری ہے۔او آئی سی کے سیکرٹری جنرل
کے تحفظات بلاشبہ درست ہیں۔ یہ بات طے ہے کہ کوالالمپور کانفرنس میں کشمیر
، برما، فلسطین اور دنیا کے دیگر خطوں کے مظلوم مسلمانوں کے حق میں تقاریر
کی جائیں گی اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ او آئی سی کے پلیٹ
فارم سے یہ باتیں نہیں کی جا سکیں جو یہاں کی جارہی ہیں لیکن سوال پھر یہی
پیدا ہوتا ہے کہ اس فورم میں جو مسلمان ملک شامل ہیں کیا وہ او آئی سی میں
شامل نہیں ہیں؟ ایک نیا فورم اور بلاک بنانے سے مسلم دنیا کو تقسیم کرنے کے
علاوہ اور کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ پاکستانی وزیراعظم عمران خان کا مذکورہ
کانفرنس میں شرکت نہ کرنا درست فیصلہ ہے۔ اس سے پاکستان، سعودی اور دیگر
اسلامی ملک مل کر مسلم امہ میں اتحادویکجہتی برقرار رکھنے کی کوششوں میں
کامیاب ہوں گے اور مسلم دنیا کو مزید تقسیم سے ان شاء اﷲ بچایا جاسکے گا۔
وزیراعظم عمران خان سے اختلافات اپنی جگہ لیکن ان کے اس فیصلہ کو صرف
پاکستان اور سعودی عرب ہی نہیں دیگر اسلامی ملکوں میں بھی تحسین کی نگاہ سے
دیکھا گیا ہے اور سمجھا جارہا ہے کہ پاکستان واقعتا مسلم ملکوں میں
اتحادویکجہتی پیدا کرنے اور انہیں اختلافات سے بچانے کیلئے سنجیدہ کردار
ادا کرنا چاہتا ہے۔ ملائشیا کو وزیراعظم مہاتیر محمد کو بھی چاہیے کہ وہ
مسلمان ملکوں کا ایک نیا بلاک بنانے کی بجائے پاکستان اور سعودی عرب کے
ساتھ مل کر امت مسلمہ کے اتحاد کیلئے کی جانیو الی کاوشوں میں شریک ہوں۔
|