اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ او آئی سی امت مسلمہ کے
مفادات کی ضامن ہے، اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی 58 اسلامی ممالک پر
مشتمل ہے۔ جس کی مجموعی آبادی دنیا کی آبادی کا پانچواں حصہ ہے۔ اس کا دفتر
سعودیہ عرب کے شہر جدہ میں ہے۔ اس تنظیم کی سرکاری زبانیں عربی، انگریزی
اور فرانسیسی ہیں۔ اس تنظیم کو اقوام متحدہ میں باضابطہ نمائندگی دی گئی ہے
اور اس کا نما ئندہ وفد اقوام متحدہ کے صدر دفتر میں موجود رہتا ہے۔ تنظیم
کے تمام اسلامی ممالک دنیا کے مختلف خطوں یا حصوں مثلاً مشرق وسطیٰ ،
براعظم افریقہ ، وسطی ایشیا، حطنہ بلقان، جنوب مشرقی ایشیاء اور جنوبی
ایشیاء میں واقع ہیں۔ چھ ممالک کو اس تنظیم میں مبصر کی حثیت حاصل ہے۔ ان
میں بوسنیا ، جمہوری وسطی افریقہ، شمالی قبرص، تھائی لینڈ، روس اور سربیا۔
امت مسلمہ کو متحد کرنے کی دنیا بھر میں اجتماعی کوششیں تقریباً انیسو یں
صدی سے ہی جاری ہیں۔ جن کا مقصد یہ تھا کہ مسلمان ملکوں کے سیاسی، اقتصادی
اور سماجی مفادات کا تحفظ کیا جا سکے۔ مختلف اسلامی ممالک میں مختلف سیاسی
نظریات کے باوجود تمام ممالک نے او۔ آئی۔ سی کی تشکیل میں بھرپور کردار ادا
کیا۔ یہ تمام اسلامی ممالک کے اجتماعی تعاون کی وجہ سے وجود میں آئی۔ تنظیم
کی تشکیل کا پس منظر یہ ہے کہ بیت المقدس میں مسلمانوں کے متعدد مقدس
مقامات چھین لیے گئے۔1969ء میں 21اگست کو ایک انتہائی ناخو شگوار اور سنگین
واقعہ پیش آیا۔ ایک اسرائیلی انتہا پسند نے مسلمانوں کی مقدس زیارات کو
نقصان پہنچایا۔ جس پر عالم اسلام میں غصہ کی لہر دوڑ گئی۔ اس واقعہ کے بعد
عالم اسلام کے رہنما اور سربراہان مراکش کے شہر رباط میں جمع ہوئے۔ جس میں
اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ مسلمان ممالک کو سیاسی، اقتصادی، سماجی، ثقافتی
اور سائنسی شعبوں میں متحد کر نے کے لیے اجتماعی کوشش کی جائے اور مسلمانوں
کے درمیان یکجہتی کو فروغ دیا جائے۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے اسلامی ممالک
کی اسلامی ممالک کی کانفرنس کے نام سے ایک تنظیم بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔
25ستمبر 1969ء کو او آئی سی ممالک کی کانفرنس کے نا م سے وجود میں آ گئی۔
تنظیم کے منشور کے مطابق دنیا میں مسلمانوں کو اقتدار کا تحفظ کیا جا ئے
گا۔ رکن ممالک کے درمیان یکہجتی کو فروغ دیا جائے گا۔ سماجی، اقتصادی،
ثقافتی، سائنسی اور سیاسی شعبوں میں باہمی تعاون کو فروغ دیا جائے گا اور
تعلیم خاص سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں ترقی کے لیے اقدامات کیے جائیں
گے۔ اکتو بر 1973ء میں عرب ممالک اور اسرائیل جنگ ہو ئی۔ جس کے تقریباً چھ
ماہ بعد 1974ء میں لاہور میں تنظیم کا ہنگامی اجلاس ہوا جس میں فلسطینیوں
کی تنظیم آزادی کو پہلی بار فلسطینیوں کی تنظیم آزادی کو پہلی بار
فلسطینیوں کی واحد قانونی نمائندہ تنظیم کے طور پر تسلیم کر لیا گیا۔یہ
پہلا موقع تھا کہ تیسری دنیا کے ممالک نے اپنے کسی انتہائی اہم مسئلے کے حل
کے لیے مخالف طاقتوں کو ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ 1999ء میں اس تنظیم کا ایک
اجلا س ہوا جس میں تنظیم نے بین الاقوامی دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے کنونشن
کی منظوری دی اپریل 2000ء میں ملائشیا میں تنظیم کا ایک اور اجلاس ہوا جس
میں دہشت گردی کے خا تمے سے متعلق امور پر غور کیا گیا۔اس اجلاس میں یہ بات
واضح کر دی گئی کہ اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی جہدوجہد کو دہشت گردی قرار
نہیں دیا جا سکتا۔ یہ بھی واضح کر دیا گیا کہ اسرائیل فلسطینیوں کو کچلنے
کے لیے جو فوجی کارروائیاں اور حملے کر رہا ہے یہ ریاستی دہشت گردی ہے اور
اس کی شدید مذمت کی گئی۔
اسلامی کانفرنس تنظیم، اقوام متحدہ کے بعد دنیا کی دوسری سب سے بڑی
آرگنائزیشن ہے اور موجودہ حالات میں اس کی اہمیت بڑھتی جا رہی ہے۔اوآئی سی
کے ابطہ گروپ کا رواں برس انتہائی اہم اجلاس ہوا جس میں او آئی سی نے
کشمیرپرمشترکہ اعلامیہ جاری کیا تھا، اعلامیہ میں کہا گیا کہ بھارت انسانی
حقوق کی تنظیموں کومقبوضہ کشمیرمیں رسائی دے،بھارت پرامن مظاہرین کیخلاف
طاقت کا استعمال بندکرے،کرفیواٹھایاجائے،بھارتی اقدام مسلم اکثریتی علاقے
کو ہندواکثریت میں تبدیل کرنیکی کوشش ہے،اعلامیہ میں انسانی حقوق کی خلاف
ورزیوں سے متعلق یواین ہائی کمشنررپورٹس کاخیرمقدم کیا گیا،وزیر خارجہ شاہ
محمود قریشی نے او آئی سی اعلامیہ جاری کے بعد کہا کہ جن لوگوں کواوآئی سی
کے حوالہ سے جوابہام تھاوہ آج ختم ہو گیا ،کشمیریوں کی آوازدن بہ دن
زورپکڑتی جارہی ہے۔آج یہ تنظیم دنیا بھرکے مختلف حصوں میں رہنے والے ڈیڑھ
ارب مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہوئیان سے متعلق امور کی نگرانی کرتی ہے۔ یہ
تنظیم ممبر ممالک سے متعلق تنازعات کے حل کے لیے کوشش کرتی ہے۔اس تنظیم نے
اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے غلط فہمیوں اور شبہات کو ختم کرنے کے لیے
متعدد اقدامات کیے ہیں۔مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک کے خاتمے کے لیے بھی
او آئی سی کا اہم کردار رہا ہے۔ اکیسویں صدی میں مسلم ممالک کو نئے چیلنجز
درپیش ہوئے تو مکہ مکرمہ میں منعقدہ او آئی سی کے تیسرے غیر معمولی سربراہی
اجلاس میں ایک دس سالہ لائحہ عمل تشکیل دیا گیا تاکہ ممبر ممالک میں تعاون
بڑھا یا جا سکے۔ 2015 میں یہ دس سالہ پلان آف ایکشن کامیابی سے مکمل ہو گیا
اور ایک نیا دس سالہ پلان 2016 سے 2025 کے لیے تشکیل دے دیا گیا۔نئے پلان
آف ایکشن میں او آئی سی چارٹر کے مطابق 18 ترجیحی شعبوں میں 107 اہداف طے
کیے گئے ہیں۔ ان اہداف میں امن اور سلامتی کا حصول، فلسطین، بیت المقدس،
غربت کے خاتمے، دہشت گردی کا قلع قمع، بین المذاہب ہم آہنگی، خواتین کی
خودمختاری اور مشترکہ اسلامی لائحہ عمل کے حوالے سے نکات شامل ہیں۔اسلامی
تنظیم کے ذیلی ادارے بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں جن میں اسلامی ترقیاتی
بینک، اسلامی تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی ادارہ اور دیگر شامل ہیں۔
او آئی سی تنظیم نے فلسطین کے علا وہ کشمیر کے مسئلے پر بھی ایک واضح موقف
اختیار کیا۔ اوآئی سی کا موقف یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کے بارے میں اقوام
متحدہ نے جو قراردادیں منظور کی ہیں ان پر عمل کیا جائے۔ تنظیم کے اس موقف
کی وجہ سے بھارت او آئی سی پر تنقید کرتا ہے۔مسئلہ کشمیر دو طرفہ ہی نہیں
بلکہ بین الاقوامی مسئلہ ہے۔تنظیم نے کشمیر کے حوالے سے بھی اس سال جون میں
یوسف الدوبے کو خصوصی ایلچی نامزد کیا تھا۔اسلامی کانفرنس تنظیم او آئی سی
میں پاکستان کے مستقل مشن نے کام کا آغاز کر دیا ہے۔او آئی سی اور اس کے
تحت دیگر بین الاقوامی تنظیموں کے لیے پاکستان کے مستقل نمائندے رضوان سعید
شیخ کو منتخب کیا گیا ہے۔رضوان سعید شیخ نے جدہ میں سیکرٹری جنرل او آئی سی
ڈاکٹر یوسف بن احمد العثیمین کو اپنے تقرر کی اسناد پیش کی۔پاکستان کے
مستقل مندوب کی تعیناتی سے قبل سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر او آئی سی
میں ملک کی نمائندگی کرتے تھے۔رضوان سعید شیخ تجربہ کار سفارتکار ہیں، وہ
او آئی سی سیکریٹری جنرل کے ترجمان کی حیثیت سے بھی فرائض انجام دے چکے
ہیں۔ او آئی سی میں مستقل مشن قائم کرنے کا فیصلہ تنظیم کی مختلف قراردادوں
اور اعلانات کی پیروی میں کیا گیا ہے۔ او آئی سی میں مستقل مشن کے قیام کی
ہمیشہ سے ضرورت تھی۔او آئی سی میں مستقل مشن کے قیام سے پاکستان زیادہ مؤثر
طریقے سے اپنا کردار ادا کر سکے گا۔ خصوصاً مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے میں مدد
ملے گی۔
|