آلاتِ حرب سے گھائل شدہ اجسام کے نشانات اکثر مٹ جایا
کرتے ہیں لیکن لفظوں کے تیر انسان تادم آخیر بھول نہیں پاتا،کیونکہ اکثر و
بیشتر لفظوں سے تار تار کرنے والے کوئی اور نہیں اپنے ہی ہوتے ہیں۔
دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
سابق صدر پاکستان پرویز مشرف کے بارے میں جب سے عدالت عظمی کی طرف سے
تفصیلی فیصلہ سنایا گیا فیصلہ کے ایک پیراگراف نے ملک میں نئی بحث کو جنم
دے دیا ہے،الفاظ کچھ اس طرح سے ہیں کہ اگر پرویز مشرف کوطبعی موت لاحق ہوتی
ہے تو ان کی لاش کو گھسیٹ کر ڈی چوک لایا جائے اور تین دن تک وہاں رکھا
جائے۔عدالت عظمی کے جج جسٹس وقار سیٹھ کے جاری کردہ فیصلہ کے ان تاریخی
الفاظ کو پڑھتے ہوئے میں تاریخ اسلام کے ان صفحات میں گم ہوگیا جہاں عبداﷲ
ابن ِ زبیر اپنے ساتھیوں سمیت مسلمانوں کے سب سے مقدس ومقدم مقام کعبۃاﷲ
میں اور وہ بھی حطیم میں محصور ہیں جس جگہ کے بارے میں ارشاد گرامی ﷺ ہے کہ
جس نے حطیم میں نوافل ادا کئے وہ اس طرح سے ہے کہ گویا خانہ خدا میں نوافل
ادا کئے۔عبداﷲ ابنِ زبیر سیاستدان،مفسر،فقیہ،محدث،الہیات دان ہونے کے ساتھ
ساتھ نواسہِ یار غار بھی ہیں،یعنی حضرت اسماؓ جو کہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی
بیٹی ہیں،ان کے بیٹے ہیں اور ہجرت مدینہ کے بعد مسلمانوں کے ہاں پیدا ہونے
والے سب سے پہلے بچے بھی ہیں۔آپ تقریبا سات ماہ تک محصور رہے اس دوران حج
کے دوران دونوں طرف سے جنگ کو روک دیا گیا۔حج کے اختتام پر جنگ دوبارہ شروع
ہوئی تو حجاج نے سنگ باری کا حکم جاری کردیا جس کے خانہ کعبہ کو بھی نقصان
پہنچا،اسی دوران حضرت عبداﷲ ابنِ زبیر اپنی والدہ سے مشورہ کرتے ہیں کہ
’’اب جب کہ میرے اپنے بھی ساتھ چھوڑ گئے ہیں اور جو باقی رہ گئے ہیں ان میں
لڑنے کی تاب نہیں،ہمارا دشمن ہمارے ساتھ رعائت کرنے کو تیار نہیں ایسی حالت
میں آپ کا کیا ارشاد ہے۔حضرت اسماؓ نے ارشاد فرمایا کہ بیٹا اگر تم حق کے
لئے لڑتے رہے ہو تو اب بھی لڑو کیونکہ تمہارے بہت سے ساتھیوں نے اس کے لئے
جان دی ہے اور اگر دنیا طلبی کے لئے لڑتے رہے ہو تو تم سے بدتر خدا کا بندہ
کون ہوگا،جاؤ حق پر جان دینا،دنیا کی زندگی سے ہزار درجہ بہتر ہے‘‘یہ جواب
سن کر ابن ِ زبیر نے کہا کہ ماں مجھے ڈر ہے کہ بنو امیہ میری لاش کو مثلہ
کر کے سولی پر لٹکا دیں گے،جس پر حضرت اسماؓ نے تاریخی کلمات کہے کہ بیٹا
ذبح ہوجانے کے بعد بکری کی کھال کھینچنے سے تکلیف نہیں ہوتی‘‘عبداﷲ ابن
زبیر لڑتے ہوئے جب شہید ہو گئے تو آپ کی لاش کو سولی پر لٹکا دیا گیا جو
تین دن تک وہیں لٹکتی رہی ،جب آپ کی والدہ کا ادھر سے گزر ہوا تو دیکھ کر
بولیں۔
’’شہسوار ابھی اپنی سواری سے نہیں اترا‘‘
ہماری تاریخ ایسے ہی کئی واقعات سے بھری ہوئی ہے مقصد ان واقعات کی روشنی
میں کہیں بھی یہ نہیں کہ مشرف درست تھا یا غلط،اس کا فیصلہ تو ایک اور
عدالت میں ابھی ہونا باقی ہے جوآخری فیصلہ ہوگا یعنی روزِ قیامت کہ کس نے
درست اور کس نے غلط کیا،تاریخ سے اس ایک اہم واقعہ کی یاد دلانے سے مراد یہ
تھا کہ منصفینِ زمانہ کو جب بھی کوئی فیصلہ سنانا ہو اس فیصلہ کے لئے لفظوں
کا چناؤ درست اور بہتر کرنا چاہئے کیونکہ یہ ایک فیصلہ نہیں ہے بلکہ آنے
والی نسلوں کے لئے ہماری تاریخ ہوگی جس طرح سے آج اسکینڈے نیویا میں حضرت
عمر فاروق ؓ کے فیصلوں کو قوانین عمر کے نام سے محفوظ کیا جا چکا ہے اسی
طرح آنے والے وقت میں ہماری عدالتوں کے جاری کردہ فیصلوں کو بطور ہماری
تاریخ کے پیش کیا جائے گا۔کیونکہ لاشوں کو گھسیٹنا،ان کو سولی چڑھانا،مثلہ
کرنا غیر انسانی،غیر اخلاقی اور غیر اسلامی ہے اس کی کسی بھی مذہب کی
اخلاقیات میں بطور اقدار حوصلہ افزائی نہیں کی گئی بلکہ ہر حال میں حاصلہ
شکنی ہی کی گئی ہے۔لہذا ہمیں اپنی تاریخ کو بھیانک پن سے بچانے کے لئے
لفظوں کا استعمال بہتر،شائستہ ،مستحسن،معقول اور بااخلاق قوموں کی طرح بہتر
کرنا چاہئے تاکہ ہم نسلِ آئندہ کو مہذب تاریخ دے کر جایئں نا کہ تاریک
تاریخ،جس پر ہمیں بھی شرمندگی اٹھانا پڑے اور نہ ہی ان کے سر شرم سے جھکیں
۔اسی لئے ہمارے بزرگ فرما گئے ہیں کہ پہلے تولو پھر بولو،اور بولتے ہوئے
لفظوں کے وقار کا بھی خیال رکھا جانا چاہئے۔ |