کوالالمپور سمٹ مسلم امہ کو اتحاد و یگانگت وقت کا تقاضا

امت مسلمہ کو ہم گیر مسائل کا سامنا ہے۔ موجودہ دور میں امت واحدہ کو ایک صفحے پرلانے کے لئے بااثر مسلم اکثریتی ممالک ، متفقہ اسلامی اتحاد کی ضرورت پر زور دیتے آئے ہیں۔ اقوام متحدہ کی اہم ذیلی تنظیم سلامتی کونسل میں کسی بھی مسلم اکثریتی ملک کو مستقل نشست و ویٹو کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ سلامتی کونسل کے اراکین ایٹمی طاقت سمیت ترقی وسائل کے حوالے سے ایک اہم پوزیشن رکھتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ترقی پزیر اور اہم ممالک کو اپنے اپنے فروعی مفادات کے تحت مختلف بلاکوں میں تقسیم کیا ہوا ہے۔ امریکا ، روس ، چین ، برطانیہ اور فرانس نے فروعی مفادات کے لئے خصوصی پلیٹ فارم بھی بنائے ہوئے ہیں، جن میں تجارتی و مفاداتی معاملات پر اپنی اہمیت کو بڑھاتے ہیں ۔یہ بلاک اپنے مخصوص مفادات کی وجہ سے پوری دنیا میں تقسیم ہے اور عالمی برداری ان ممالک کے اتحادی بن کر اپنے حریف ممالک کے مفادات ، بقا ، سلامتی سمیت فروعی معاملات کو حاصل کرتے ہیں ، طاقت کے اس توازن برقرار رکھنے کے لئے سپر پاورز و جی فائیو کی ترجیحات فروعی ہوتی ہیں ۔ سب سے زیادہ نقصان مسلم اکثریتی ممالک کا ہے ۔ خاص کر ایسے ممالک جو وسائل کے اعتبار سے جی فائیو ممالک پر فوقیت بھی رکھتے ہیں لیکن دوسری جانب عسکری حوالے سے کمزور واقع ہوئے ہیں ، اگر ایٹمی طاقت کے حوالے سے پاکستان کا ذکر کیا جائے تو جوہری پاور رکھنے کے باوجود گردگوں صورتحال کے سبب عالمی منظر نامے میں مختلف مسائل سے نکلنے کی کوشش کررہا ہے۔سلامتی کونسل میں کسی بھی مسلم اکثریتی ملک کا نہ ہونا ، اس کے لئے جانبداری کا سبب بناہوا ہے ،غیر مسلم ممالک پر انحصار کے سبب امت واحدہ کے تصور کو کسی ایک پلیٹ فارم پر لانے کے لئے آپسی اختلافات دور کرنے کے ضرورت ہمیشہ رہی ہے ۔ اسلامی تعاون تنظیم جس منشور پر بنی تھی ، بدقسمتی اپنا ایسا کوئی فعال کردار ادا نہیں کرسکی جو دنیا میں مسلم امہ کو درپیش مسائل کا حل نکالنے کے لئے موثر رہتی ۔ تاہم اس کے باوجود اسلامی تعاون تنظیم ، اقوام متحدہ کی طرح ایک استعارہ کی حیثیت رکھتی ہے ، صرف اس کمی کے ساتھ کہ اسلامی تعاون تنظیم کے پاس عسکری قوت نہیں ہے، جس طرح سلامتی کونسل ، نیٹو کے افواج کو دنیا بھرمیں اپنے مفادات کے لئے استعمال کرتی ہے ۔ سلامتی کونسل کی جانب سے دنیا بھر میں مسلمانوں کے خلاف اسلام فوبیا کے خاتمے کی کوششیں نہ کئے جانے کی ان گنت مثالیں ہیں ، جن میں فلسطین ، کشمیر ، عراق شام ، افغانستان سمیت کئی ممالک میں غیر مسلم جارحیت ، دہشت گردی کی بُری مثال ہیں ، اسی طرح امریکا سمیت یورپی ممالک میں مسلم کیمونٹی کے خلاف جس قسم کا ماحول بنایا گیا اس سے مسلمانوں کو عدم تحفظ کا سامنا ہے۔ اقوام متحدہ مسلم اکثریتی ممالک کے خلاف سخت کاروائیاں کرنے میں تامل کا مظاہرہ نہیں کرتی ، لیکن جب بات مقبوضہ جموں کشمیر، بھارت،برما میں مسلم کیمونٹی کے خلاف انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کی آتی ہے تو اقوام متحدہ کچھ نہیں کرپاتی اور اسلامی تعاون تنظیم کا کردار بھی صرف رسمی مذمت تک محدود رہتا ہے ۔تاہم سمٹ کے حوالے سے سعودی عرب نے جن تحفظات کا اظہار کیا ہے ، اس پر تمام مسلم اکثریتی ممالک کو غور وفکر کی درست ہے کہ کس طرح اختلافات کو دور کرنے کے لئے مثبت لائحہ عمل اپنایا جائے ۔

اسلامی تعاون تنظیم ، عرب لیگ سمیت اہم پلیٹ فارم اس وقت موجود ہیں ، تاہم ملائیشیا میں او آئی سی تنظیم کے 56رکن ممالک کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی ، جس میں صرف22ممالک ہی ابتدائی طور پر شریک ہوئے۔ دیگر مسلم ممالک میں کولالمپور سمٹ کے حوالے سے یہ تاثر گیا کہ او آئی سی کے مقابلے میں کچھ عناصر، عرب ممالک کو دباؤ میں لانے کے لئے جداگانہ گروپ بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اسلامی تعاون تنظیم(او آئی سی) کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر یوسف بن عبدالرحمٰن العثیمین نے کوالالمپور کانفرنس کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کوالالمپور کانفرنس امت میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’او آئی سی سے باہر کسی بھی عنوان سے مشترکہ جدوجہد اسلام اور مسلمانوں کو کمزور کرنے اور ان کے اتحاد کی صفوں میں دراڑ ڈالنے والی کوشش ہے۔‘ العثیمین نے خبردار کیا ’او آئی سی کے پلیٹ فارم سے باہر کی ملاقاتوں سے عالمی برادری کے سامنے مسلم امہ کی پوزیشن کمزور ہوگی‘‘۔ ڈاکٹر مہاتیر محمد نے اس خبر کی تردید کی کوالالمپور سمٹ کا مقصد اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی جگہ ایک متبادل پلیٹ فارم فراہم کرنا ہے۔ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد اور سعودی شاہ سلمان کے مابین ٹیلیفونک رابطہ بھی ہوا ہے۔ موصولہ رپورٹ کے مطابق وزیراعظم مہاتیر محمد نے سعودی شاہ سلمان بن عبدالعزیز کو فون کر کے کوالالمپور میں ہونے والے سربراہی اجلاس کے حوالے سے اعتماد میں لیا۔ملائیشیا کے وزیراعظم نے اپنے موقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ کوالالمپور اجلاس او آئی سی کی جگہ نہیں لے گا۔صحافیوں سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ شاہ سلمان کے اس موقف سے اتفاق کرتا ہوں کہ امت مسلمہ کو درپیش مسائل کے حوالے سے او آئی سی کا اجلاس بلانا چاہئیے۔مہا تیر محمد کا کہنا تھا کہ سعودی شاہ نے انہیں کوالالمپور سربراہی اجلاس میں شرکت نہ کرنے کی وجوہات سے آگاہ کیا۔سعودی شاہ کا اس حوالے سے موقف کچھ اور تھا۔وہ چاہتے تھے کہ امت کو درپیش مسائل کو او آئی سی اجلاس میں اٹھانا چاہئیے اور میں ان کے اس موقف سے اتفاق کرتا ہوں۔جب کہ ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد نے اپنے ملک میں شیڈول اسلامی ممالک کی کانفرنس کے حوالے سے سعودی عرب کے تحفظات دور کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

وزیراعظم مہاتیر محمد نے ایک دانش مندانہ فیصلہ کرتے ہوئے مسلم اکثریتی ممالک میں کسی مبینہ غلط فہمی کو دور کرنے کوشش کی ۔ جس کے بعد اس امر کی توقع بڑھ گئی ہے کہ کوالالمپور اجلاس میں شریک ممالک او آئی سی کے اُن تمام رکن ممالک کو اعتماد میں لیں گے جو کسی نہ کسی وجہ سے کانفرنس میں شریک نہ ہوسکے ۔ او آئی سی کو جلد ازجلد اپنا اجلاس طلب کرلینا چاہیے تاکہ جو غلط فہمی پیدا ہو رہی ہے اُسے اپنے پلیٹ فارم پر بیٹھ کر باہمی اتفاق و افہام و تفہیم سے حل کرلیا جائے۔اس وقت کوالالمپور اجلاس ابتدائی مراحل میں ہے ، اس لئے مسلم اکثریتی ممالک کو یہ فیصلہ نہایت غور وفکر کے ساتھ کرنا ہوگا کہ امت مسلمہ کو درپیش مسائل سے باہر نکالنے کے لئے نیٹو کی طرز پر قوت حاصل کرسکتے ہیں یا نہیں ، گو کہ سعودی اتحادی فوج کے34ممالک پر مشتمل ایک فورس کا قیام وجود میں لایا گیا ہے لیکن اس کی ترجیحات میں واضح عملی حکمت عملی کو سامنے لائے جانا ضروری ہے ۔ سعودی اتحادی افواج اس وقت سعودی عرب کی سرزمین کو تحفظ دے رہا ہے اور یمن میں کی جانے والی کاروائیوں پر اقوام متحدہ سمیت کئی ممالک تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں ، تاہم سرزمین حجاز کے تحفظ کے لئے ایسے عناصر جو مسلم امت کو گروہی اور فرقوں کی بنیاد پر تقسیم کرنا چاہتے ہیں، انہیں اس کا توڑ نکالنے کی اشد ضرورت ہے ۔ یہ اُسی وقت ممکن ہے جب تمام مسلم اکثریتی ممالک ایک صفحے پر ہوں ۔

مسلم اکثریتی ممالک اپنے اتحاد کے لئے پہل کوشش کریں تو دیگر مسائل حل کرنے میں انہیں دشواری کا سامنا نہیں ہوگا ۔ اس وقت کوالالمپورسمٹ میں جتنے بھی ممالک اور دیگر مفکرین و دانشوروں نے شرکت کی ہے ان کے سامنے واحد ایجنڈا یہی ہے کہ دنیا بھر میں پونے دو ارب مسلمانوں کو ایک ایسی قیادت و قوت کی ضرورت ہے جو امت مسلمہ کو درپیش مسائل کی دلدل سے باہر نکالنے میں مدد سکے ۔ مسلم اکثریتی ممالک کی سربراہی و مسلم دنیا کے لئے اُن کردار میں قول و فعل کا تضاد نہ ہو۔ مغرب کے مفادات کے لئے قدرتی دولت سے مالامال مسلم اکثریتی ممالک کو ایسے کمزور ممالک کی مدد کرنے کے لئے آگے بڑھنا ہوگا جو کہ اپنی معاشی دشواریوں اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں، ایک دوسرے کی کمی ، خامی اور کمزوری کو اتفاق و یک جہتی کے ساتھ مل کر دور کیا جاسکتا ہے۔ مسلم حکمرانوں نے دنیا کے بڑے حصے پر انصاف کے ساتھ حکومت کی ہے اور سینکڑوں برس میں انہوں نے انسانیت کی خدمت و فلاح و بہبود کے کارہائے کارنامے سرانجام دیئے ہیں۔لیکن جہاں امت میں انتشار پیدا ہوا ، اس سے مسلم مخالف قوتوں نے فائدہ اٹھایا۔ موجودہ دور بھی مسلم اکثریتی ممالک کے درمیان مختلف تنازعات کی وجہ سے آزمائش ہے۔ اس آزمائش کو سب نے مل کر حل کرنا ہے کیونکہ کوئی ایک ملک یا گروپ مسلم دنیا کے مسائل حل نہیں کرسکتا۔

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 399 Articles with 262824 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.