قائد اعظم ،نظریاتی مسلم یا سیکولر شخصیت۔۔۔؟

آج اگر پاکستان میں اسلامی نظام کی بات کی جائے تو یورپ سے پڑھے ہوئے اور نظام یورپ سے متاثرہ افراد کا یہ رونا پیٹنا ہوتا ہے کہ پاکستان اسلامی نہیں بلکہ ایک سیکولر ریاست ہے اور قائد اعظم محمد علی جناح نے اسے اسلامی قانون کے نفاذ کے لیے نہیں بنایا تھا۔

ان لوگوں کی اس سوچ کو میں کم علمی ، کم عقلی یا کم فہمی کہوں۔۔۔۔۔ یا اہل یورپ کی سوچی سمجھی سازش۔۔۔۔؟

سب سے پہلی بات تو یہ کہ جب قائداعظم محمد علی جناح سے پوچھا گیا کہ پاکستان بنانے کا کیا مقصد ہے تو انہوں نے واضح الفاظ میں یہ بیان کیا تھا کہ ہم ایک ایسی اسلامی اور فلاحی ریاست کا قیام چاہتے ہیں جس میں مسلمانوں کو اپنے طریقے کے مطابق عبادت کرنے کی کھلی آزادی ہوں اور تحریک پاکستان میں ایک ہی نعرہ تھا جو ہر چوک چراہے، گلی بازار اور آج جلسے میں جابجا گونجتا تھا کہ "پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اﷲ محمد الرسول اﷲ" یہی وہ نظریہ تھا کہ اس نظریہ کی بنیاد پر پاکستان معرض وجود میں آیا۔
12 جون 1945 کو مسلم فیڈریشن پشاور کے نام اپنے پیغام میں قائد اعظم محمد علی جناح نے کہا تھا کہ "پاکستان کا مطلب صرف آزادی ہی نہیں بلکہ اس کا مطلب اسلامی نظریہ بھی ہے"۔

قائداعظم محمد علی جناح کی اسلام، قرآن اور آقائے نامدارﷺسے والہانہ محبت کے اس بحر بے کنار کو سمیٹنا ناچیز کے بس میں تو نہیں مگر ان کے چند ایک بیانات آپ کے گوش گزار کرنا چاہوں گا تاکہ جن لوگوں کے دلوں میں اسلامی مملکت پاکستان اور قائداعظم محمدعلی جناح کے بارے میں جو اشکالات موجود ہیں وہ دور ہو سکیں۔

آل انڈیا مسلم لیگ کی کونسل کے ایک اجلاس میں قائداعظم نے مخالفین کی بہتان طرازیوں کے سلسلے میں فرمایا!
"مسلمانو! میں نے دنیا کو بہت دیکھا. دولت ،شہرت اور عیش و عشرت کے بہت لطف اٹھائے ، اب میری زندگی کی واحد تمنا یہ ہے کہ مسلمانوں کو آزاد اور سربلند دیکھوں ، میں چاہتا ہوں کہ جب مروں تو یہ یقین اور اطمینان لے کر مروں کہ میرا ضمیر اور میرا اﷲ گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی اور مسلمانوں کی آزادی، تنظیم اور مدافعت میں اپنا فرض ادا کر دیا میں آپ سے زوردار شہادت کا طلبگار نہیں ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ مرتے دم میرا اپنا ایمان، میرا ضمیر گواہی دے کہ جناح! تم نے نے واقعی مدافعت اسلام کا حق ادا کر دیا جناح! تم مسلمانوں کی تنظیم، اتحاد اور حمایت کا فرض بجا لائے۔ میرا اﷲ کہے کہ بے شک تم مسلمان پیدا ہوئے اور کفر کی طاقتوں کے غلبے میں عَلمِ اسلام کو بلند رکھتے ہوئے مسلمان مرے (روزنامہ "انقلاب" لاہور 22 اکتوبر 1939)

اسٹریچی ہال علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں قائداعظم نے ایک معرکۃالآراء تقریر کے دوران فرمایا "مجھے بحیثیت مسلمان دوسری اقوام کے تمدن ، معاشرت اور تہذیب کا پورا احترام ہے لیکن مجھے اپنے اسلامی کلچر اور تہذیب سے بہت زیادہ محبت ہے ، میں ہرگز نہیں چاہتا کہ ہماری آنے والی نسلیں اسلامی تمدن اور فلسفہ سے بالکل بے بہرہ ہوں۔

لاہور میں طلباء کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا: "کمیونسٹ ہمیں بیوقوف خیال کرتے ہیں، ان کے پاس اس سوچ کا کچھ جواز ہو سکتا ہے لیکن اب وہ غلطی پر ہیں کیونکہ پانچ یا دس سال قبل کے مسلمان اب خود کو بدل چکے ہیں۔ کمیونسٹ ہمیں بے وقوف نہیں بنا سکتے، مت چھیڑو ، مت چھیڑو کمیونسٹو! ہمیں مت چھیڑو، اگر تم نے ہمیں چھیڑنے کی کوشش کی تو تم خود اپنے داؤ کی زد میں آ جاؤ گے۔ ہمیں مسلم لیگ کے چاند ستارے والے جھنڈے کے سوا کسی دوسرے جھنڈے کی ضرورت نہیں، اسلام ہمارا رہبر و رہنما ہے، وہی ہمارا ضابطہ حیات ہے، ہمیں کسی سرخ یا زرد جھنڈے کی ضرورت نہیں، ہمیں کسی ازم۔۔۔۔سوشلزم، کمیونزم یا نیشنل سوشلزم کی ضرورت نہیں"

اسی طرح 12جون 1938کو میمن چیمبر آف کامرس کی جانب سے اپنے اعزاز میں دیئے گئے ظہرانہ سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا: مسلمانوں کو کسی پروگرام تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے، ان کے پاس ایک پروگرام گزشتہ 13 سو سال سے موجود ہے اور وہ "قرآن کریم" ہے۔ قرآن کریم میں ہمارے معاشی، ثقافتی اور تہذیبی مسائل کا حل موجود ہے۔ اس کے علاوہ اس میں ہماری سیاسی رہنمائی کے لئے بھی ایک پروگرام ہے اور میرا اس "خدائی فقہ" میں مکمل یقین ہے اور وہ آزادی جس کے لئے میں جنگ لڑ رہا ہوں دراصل اس "خدائی قانون" کی تعمیل ہے۔ ازادی،مساوات اور اخوت اور بحثیت ایک مسلمان میرا بنیادی فرض ہے کہ انہیں حاصل کروں۔ ہماری نجات قرآنی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے میں ہے اور انہی پر کاربند ہو کر ہم آزادی سے ہمکنار ہوسکتے ہیں"۔

ایک بار قائد اعظم ممدوٹ ولا لاہور میں تشریف فرما تھے کہ رانا نصراﷲ صاحب سے باتوں باتوں میں فرمایا!
"میں نے قرآن حکیم کا ایک انگریزی ترجمہ کئی بار پڑھا ہے مجھے اس کی بعض صورتوں سے بڑی تقویت ملی ہے۔

رانا نصراﷲ نے پوچھا: مثلاً؟ محمد علی جناح نے جواب دیا: وہ چھوٹی سی سورت ہے جس میں ابابیلوں کا ذکر ہے۔

نصراﷲ خان نے کہا: آپ کی مراد اس آیت سے ہے جو یوں شروع ہوتی ہے "الم ترکیف فعل ربک باصحاب الفیل" اس پر آپ نے فرمایا: "جی ہاں، جی ہاں، اﷲ نے جس طرح کفار کے بڑے لشکر کو ابابیلوں کے ذریعے شکست دی اسی طرح ہم لوگوں کے ذریعے اﷲ تعالی ان شاء اﷲ کفار کی قوتوں کو شکست دے گا"
(محمد علی جناح، منصور احمد بٹ ،صفحہ نمبر 173-174)

جولائی 1947 کا واقعہ ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح دہلی میں دس اورنگ زیب روڈ پر قیام پذیر تھے اور قیام پاکستان سے متعلق معاملات کو سلجھا رہے تھے کہ علامہ شبیراحمدعثمانی اپنے کچھ دوستوں کے ہمراہ ملاقات کے لیے تشریف لائے، علامہ صاحب سلام دعا کے بعد گویا ہوئے کہ "آپ کو قیام پاکستان مبارک ہو" تو قائداعظم محمد علی جناح نے فرمایا "مبارکباد کے مستحق تو آپ لوگ ہیں جنہوں نے تحریک پاکستان کو کامیاب کرنے کی بھرپور جدوجہد کی" ، علامہ عثمانی صاحب نے سوالیہ انداز میں کہا کہ اب جبکہ اﷲ کے فضل و کرم سے پاکستان بن گیا ہے آپ یہ فرمائیں کہ پاکستان میں آئین کونسا ہوگا؟

اس پر قائداعظم محمد علی جناح نے فرمایا "پاکستان میں قرآنی آئین ہوگا، میں نے قرآن پاک مع ترجمہ پڑھا ہے اور میں پختہ یقین رکھتا ہوں کہ قرآنی آئین سے بڑھ کر کوئی آئین نہیں ہوسکتا، میں نے مسلمانوں کا سپاہی بن کر پاکستان کی جنگ جیتی ہے، قرآنی آیات کا ماہر میں نہیں آپ اور آپ جیسے علماء ہیں، میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ دوسرے علماء کے ساتھ سر جوڑ کر بیٹھیں اور اپنے نئے ملک پاکستان کے لیے قرآنی آئین کا مسودہ تیار کریں"۔

14 اگست 1947 کو شاہی دربار سبی سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی اسلام پسندی کا ثبوت ان الفاظ میں دیا کہ: "میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات اسوہ حسنہ پر چلنے میں ہے جو ہمیں قانون عطا کرنے والے پیغمبر اسلامﷺ نے دیا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی جمہوریت کی بنیادی صحیح معنوں میں اسلامی تصورات و اصولوں پر رکھیں"۔

یہیں بس نہیں بلکہ 14 فروری 1948 کو سبی میں فرمایا:
"It is my belief that our salvation lies in following the golden rules of conduct set for us by our great lawgiver, the prophet of Islam. Let us lay the foundation of our democracy on the basis of truly Islamic riddles and principles. Our Almighty has taught us that "our decisions in the affairs of the State Shall be guided by discussions and consultations".
(Quaid-e-Azam,page 78,79)
"یہ میرا یقین ہے کہ ہماری نجات کردار کے ان سنہری اصولوں کی اتباع میں ہے جنہیں ہمارے لئے ہمارے مقنن اعظم پیغمبراسلام ﷺنے مقرر فرمایا ہے۔ ہمیں اپنی جمہوریہ کی بنیاد اسلامی تصورات اور اصولوں کی سچی اور حقیقی بنیادوں پر رکھنی چاہیے۔ اﷲ نے ہمیں یہ سکھا دیا ہے کہ ہمیں اپنے ریاستی معاملات میں کئے جانے والے فیصلوں میں مکالمہ اور مشاورت سے رہنمائی لینی چاہیے"۔

محمد علی جناح کی دلی خواہش تھی کہ پاکستان میں اسلامی نظام وجود میں لایا جائے اور پاکستان میں موجود تمام طبقات کے لوگوں کو ان کے تمام بنیادی حقوق فراہم کیے جائیں، آپ تمام معاملات میں پاکستان کے دستور کو تیرہ سو سال قبل سے موجود شریعت محمدی کے مطابق ڈھالنا چاہتے تھے، تبھی تو 25 جنوری 1948 کو اپنے اعزاز میں کراچی بار ایسوسی ایشن کی جانب سے دیئے گئے استقبالیہ سے بطور گورنر جنرل پاکستان محمد علی جناح نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: "میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ لوگوں کا ایک طبقہ جو دانستہ طور پر شرارت کرنا چاہتا ہے ،یہ پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ پاکستان کے دستور کی اساس شریعت پر استوار نہیں کی جائے گی۔

محمد علی جناح نے فرمایا: "آج بھی اسلامی اصولوں کا زندگی پر اسی طرح اطلاق ہوتا ہے جس طرح تیرہ سو برس پیشتر ہوتا ہے"

1971ء میں قائداعظم کے بھانجے نے محترمہ فاطمہ جناح کی جائیداد کا نظم ونسق چلانے کے لئے عدالت عالیہ ہائیکورٹ کراچی میں درخواست دائر کی۔

اس درخواست کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل سید شریف الدین پیرزادہ نے اپنی شہادت میں کہا کہ قائداعظم نہ شیعہ نہ سنی تھے بلکہ وہ ایک مسلمان تھے۔ پیرزادہ نے عدالت کو بتایا کہ میرٹھ میں مسلم لیگ کے کارکنوں نے جب قائداعظم سے سوال کیا کہ وہ شیعہ ہیں یا سنی؟ تو قائداعظم نے فوراً دریافت کیا کہ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کیا تھے؟ اس موقع پر قائداعظم نے تفصیل سے کہا کہ وہ حضرت محمدﷺکے پیروکار ہیں شیعہ یا سنی نہیں ہیں. مطلب کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنے آپ کو کسی مسلک کی کڑی میں نہیں پرویا کیونکہ آپ کی ایک ہی خواہش تھی اور ساری زندگی اسی جدوجہد میں گزار دی کہ تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں،صوبائیت کی تقسیم کو رد کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ "یہ ایک بیماری ہے اور لعنت ہے ، میں چاہتا ہوں کہ مسلمان صوبائی عصبیت کی بیماری سے چھٹکارا پالیں۔ ایک قوم جب تک کہ وہ ایک صف میں نہ چلے کبھی ترقی نہیں کرسکتی، ہم سب پاکستانی اور اس مملکت کے شہری ہیں اور ہمیں مملکت کے لیے خدمات ایثار اور زندگی کا نذرانہ پیش کرنا چاہیے کہ ہم اسے دنیا کی عالیشان اور خود مختار مملکت بنا سکیں"

اس موقع پر آپ نے مزید فرمایا کہ "رسول اکرم ﷺایک عظیم رہبر تھے، آپ ایک عظیم قانون عطا کرنے والے تھے، آپ ایک عظیم مدبر تھے، آپ ایک عظیم فرمانروا تھے جنہوں نے حکمرانی کی ، جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں تو بلاشبہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اس بات کو بالکل نہیں سراہتے"

پاکستان میں موجود ایسی لابی جو سندھی، بلوچی ،پنجابی،پشتون اور کشمیری تقسیم کیے بیٹھے ہیں ان کو چاہیے کہ قائد اعظم کے اس فرمان کو سامنے رکھیں جس میں آپ نے فرمایا تھا کہ "ہم پہلے پاکستانی ہیں اور اس کے بعد پنجابی ،سندھی ،بلوچی یا پٹھان۔

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی عدالتیں اور حکومت مل کر اس نظام پر عمل درآمد کی کوشش کریں کہ جس کی خاطر مسلمانان ہند نے لاکھوں قربانیاں دیں اور آج یہ ملک دنیا کے نقشے پر موجود ہے۔
موجودہ حکومت ، افواج اور عدلیہ سمیت تمام عہدیداران پر یہ واجب ہے کہ سب مل کر ایک اسلامی فلاحی ریاست کو فروغ دیں۔

اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اﷲ رب العزت بانی پاکستان جناب قائد اعظم محمد علی جناح کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے اور ان کی غلطیوں سے درگزر کرتے ہوئے ان کے درجات بلند فرمائے۔آمین
 

Abdul Hameed Sadiq
About the Author: Abdul Hameed Sadiq Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.