مشہور مصنف چیتن بھگت نے شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے )
کے بارے میں کہا ہے کہ یہ قانون کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہوسکتا ہے ،لیکن سی اے
اے اور این آر سی کو ایک ساتھ ملایا جائے تو وہ امتیازی سلوک کی راہیں کھول
دیتا ہے۔جبکہ این آر سی کے تحت ملک۔کے ہر ایک شہری کو اپناہندوستانی شہری
ہونا ثابت کرنا پڑے گا۔اس موقع پر ملک کے غیر مسلم کہہ دیں گے کہ ان کے پاس
کوئی ہندوستانی شہری ہونے کے بارے میں کوئی دستاویز نہیں ہے اور حکومت
کاجواب یہی ہوگا کہ ٹھیک ہے ،سی اے اے ان کی حفاظت کرے گااور وہ ہندوستانی
ہیں،لیکن کسی مسلمان کے یہ کہہ جانے پر کہ اس کے پاس کوئی دستاویز نہیں ہے
تو انہیں منفی جواب ملے گا کہ وہ ہندوستانی نہیں ہے ،باہر نکل جائیں۔دراصل
سی اے اے ایک 'لائف جیکٹ' ہے،این آر سی کے ذریعہ اس کی مدد سے سبھی بحفاظت
طیارے سے نکل آئیں گے ،لیکن مسلمانوں کو 'لائف جیکٹ' نہیں ملے گا۔'لائف
جیکٹ 'کی تقسیم مسئلہ نہیں ہے۔لیکن محض چند افراد کو جیکٹ دینا اور طیارے
سے انہیں باہر دھکیل دیناسب سے بڑا مسئلہ ہے۔یہی باتیں مسلمانوں کے ذہن
نشین ہوگئی ہیں کیونکہ چیتن بھگت اور معروف مؤرخ رام چندر گوہا جیسے
دانشوروں نے ان قوانین کے بارے میں اس طرح کا اظہار خیال کیا تو مسلمانوں
کا سڑکوں پر نکل آنا ایک فطری امر ہے۔میرے خیال میں اس کے کئی جوازہیں، جن
کی وجہ سے لاوا پکنے کے بعد وہ پھوٹ پڑا ہے۔جس کے سلسلہ میں بعد میں ذکر
کیا جائیگا۔
ملک بھر میں اتنی ہنگامہ آرائی اور بلاخوف وخطر ہوکر مودی اور شاہ کے خلاف
احتجاج نے بی جے پی لیڈرشپ کی نیندیں اڑادیں،جبکہ مسلمان بھی کھل کر میدان
میں اترپڑے۔جس کی کبھی بھی بی جے پی نے توقع نہیں کی تھی ،بلکہ ان کے وہم
وگمان بھی نہیں تھاکہ مسلمان اتنی مخالفت کریں گے۔کیونکہ یہ بات عام طور پر
کہی جاتی ہے کہ مودی دور میں ملک کا مسلمان خوفزدہ ہے،لیکن اس مفروضہ کو
مسلمانوں نے غلط ثابت کردیا ہے۔حال میں سی اے بی پر راجیہ سبھا کے ایوان
میں بحث کے دوران کانگریس کے لیڈر اور سنئیر ایڈوکیٹ کپیل سبل نے کس مقصد
سے اس کا اظہار کیا تھا ،اس کا علم نہیں ہے ،لیکن انہوں نے وزیر داخلہ امت
شاہ کے روبرو انہیں چیلنج کرتے ہوئے اتنا ضرور کہہ دیا تھا کہ مسلمانوں کو
ڈرانے اور دھمکانے کی پالیسی ترک کردیں ،مسلمان بی جے پی اور سنگھ پریوار
سے نہیں ڈرتا ہے۔گزشتہ دو ہفتوں سے ملک بھر میں جاری احتجاج اور مظاہروں
میں مسلمانوں کی بڑی تعداد میں شرکت نے ایک عجیب وغریب صورتحال پیدا کردی
ہے۔جس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ نریندر مودی حکومت کے خواب و
خیال میں بھی نہیں تھا کہ نئے شہریت قانون کے منظور کیے جانے کے بعد ملک
بھر میں اتنے بڑے پیمانے پر احتجاج شروع ہو گااور اس کو ٹھنڈا کرنے اور
بیداری پیدا کرنے کے لیے حکومت کو اپنے سابقہ سنگین نوعیت کے بیانات سے
انحراف کرنا پڑے گا۔اور این ڈی اے میں شامل اپنے سیاسی فریقین کو بھی دلاسہ
دینا پڑے گا۔2014میں برسر اقتدار آنے کے بعد وزیراعظم نریندر مودی کو پہلی
بار خاصی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا بلکہ ان کے لیے یہ سب سے بڑا چیلنج بن کر
رہ گیا۔کیونکہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں طلبہ کے احتجاج کے دوران پولیس کی بے
دردانہ کارروائی شعلہ بن گئی اور یہ جنگل کی آگ کی طرح ملک بھر میں پھیل
گئی۔
شہریت ترمیمی قانون کے سبب ہزاروں لاکھوں ہندوستانی سڑکوں پر نکل آئے
ہیں،دراصل مذکورہ سی اے اے قانون۔کے۔مطابق پڑوسی ممالک پاکستان،بنگلہ دیش
اور افغانستان غیر مسلم یعنی ہندو ،سکھ، عیسائی، جین ،بدھسٹ اور پارسی پناہ
گزینوں کو ہندوستان کی شہریت بلاروک ٹوک دے دی جائے گی ،لیکن مسلمانوں کو
اس شہریت ترمیمی قانون میں شامل نہیں کیاگیا ہے۔جس نے جلتی۔پر آگ کا کا م
کیا ،بی۔جے پی لیڈر شپ نے اعتراف کیا ہے کہ سی اے اے کے تعلق سے مسلمانوں
کی ناراضگی کا اندیشہ ظاہر کیا جاتا رہا،لیکن لیڈرشپ نےیہ کبھی خواب وخیال
میں سوچا بھی نہیں تھا کہ احتجاج اتنے بڑے پیمانے پر پھیل جائےگا اور اس کے
تشدد میں تبدیل ہونے کے ساتھ ساتھ مسلمان بڑی تعداد میں شامل ہوجائیں گے کہ
ملک کے کئی شہر اور شمالی ہند کے کئی علاقے اس کی لپیٹ میں آجائیں گے ،جبکہ
احتجاج دوہفتے گزرجانے کے بعد بھی جاری ہیں۔بلکہ عالمی سطح پر مذکورہ قانون
ہی نہیں بلکہ اقلیتی فرقے کے خلاف یوپی پولیس کے غیر انسانی سلوک اور
مظاہرین کی املاک کی قرقی کرنے کے اقدامات کی مذمت کی جارہی ہے۔یہاں تک
آرگنائزیشن اسلامک کوپریشن (او آئی سی) نے بھی شدید ردعمل ظاہر کیا ہے ،جس
کے بعد حکومت کو پیچھے ہٹنا پڑا اور یہاں تک وزیر اعظم مودی کو جلسہ عام
این آر سی کے نفاذ کی خبروں جھوٹا کا پلندہ کہنا پڑا ،حالانکہ پارلیمنٹ کے
ساتھ ساتھ نیوز چینلوں کے انٹرویو ز میں امت شاہ نے مسلسل آسام کے بعد ملک
بھر میں این سی آر کو نافذ کرنے کا بلند بانگ اعلان کیا بلکہ صدر جمہوریہ
کووند نے پارلیمنٹ کے اجلاس کے آغاز میں اپنے خطبہ میں اس کا اظہار کیا تھا
،صدر کا خطبہ حکومت کی پالیسی کا عکس ہوتا ہے۔مرکزی حکومت کو اس بات کا ذرہ
برابر اندازہ نہیں لگا کہ مسلمانوں میں اتنے بڑے پیمانے پر بے چینی پھیلی
جائے گی۔ حکومت توآرٹیکل 370 کو ہٹانے،سپریم۔کورٹ سے بابری مسجد کے بارے
میں ہوئے فیصلہ کے بعد اس حد خمار میں نظر آئی کہ راجیہ سبھا میں جوڑتوڑ کر
کے سی اے اے کو بھی منظور کرلیا گیا۔اور یہ خوش فہمی میں مبتلا ہوگئی کہ ان
تین پڑوسی ملکوں کے پناہ گزینوں کو بسانے کی راہ بھی ہموار ہوچکی ہے اور اس
طرح سے 130 کروڑ ہندوستانیوں کے مسائل حل ہوچکے ہیں لیکن یہی خوش فہمی
یاover confidence نے مودی-شاہ کی جوڑی کو 'بیک فٹ'پر پہنچا دیا۔ موجودہ
مرکزی حکومت فی الحال مندی ،مہنگائی اور بدحال اقتصادی حالات کو دانستہ طور
پر نظر انداز کررہی ہے اور عام آدمی کو سی اے اے ،اجن سی آر اور اب این پی
آر میں الجھا کر رکھناچاہتی ہے۔لیکن اس وقت مودی جی اور ان کے دست راست امت
شاہ کو فکر ان غیرملکیوں کی ہے جن کا ہندوستان سے کچھ بھی لینا دینا نہیں
ہے وہ سب سے زیادہ ان لوگوں کے بارے میں فکر مند ہیں جو دوسرے ملک کے شہری
ہیں حکومت کی کوشش ہے کہ کس طرح سے بیرون ملکوں کے ان شہریوں کو لاکر اپنے
ملک میں جتنی جلد ممکن ہو بسایا جائے ،دوسروں کو بی جے پی کے لئے ووٹ بینک
اور منہ بھرائی کا طعنہ دینے والی بی جے پی ان قوانین کے ذریعہ ووٹ بینک
تیار کرنے کی کوشش میں لگی ہے۔ ویسے وزیراعظم مودی اور وزیرداخلہ ہمیشہ
دونوں ہی دروغ گوئی سے کام لیتے رہے ہیں ،لیکن حیرت انگیز طور پر پہلے مودی
نے این آرسی اور ڈیٹیکشن سینٹرز یعنی حراستی کیمپ نہ ہونے کے بارے میں بیان
جاری کرکے عوام کو بیوقوف بنانے کی کوشش کی اور پھر امت شاہ نے بھی ایک
خصوصی انٹرویو میں ان معاملات سے کنارہ کشی کرلی ہے۔پہلے دونوں کے بیانات
میں تضاد پایا گیا تھا،مودی کے رام لیلا گراؤنڈ پر دیئے گئے بیان پر دوسرے
دن سمت شاہ نے مہر ثبت کرکے سب کو چونکا دیا۔
ملک کے بیشتر علاقوں میں سی اے اے اور این آر سی کیخلاف احتجاج پرتشدد
ہوگئے ،لیکن یہ سچائی ہے کہ ان احتجاج میں مسلمان پیش پیش ہیں لیکن بڑی
تعداد میں برادران وطن بھی شامل ہیں۔ون احتجاج کے دوران مسلمان اتنا جذباتی
ہو گیا ہےیا جان بوجھ اسے کردیا گیا ہے کہ حالات بے قابو ہو گئے ہیں جس کی
وجہ سے نوجوانوں کی جانیں گئیں ہیں ۔ بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں میں
ان کومسلمان بمقابلہ پولیس کرنےکی کوشش کی گئی ۔ دراصل مسلمانوں پر حال کے
دنوں میں نفسیاتی طور پر دباؤ ڈالنے کی مذموم اور گھناؤنی کوشش کی گئی،پہلے
طلاق ثلاثہ،پھر بابری مسجد مقدمہ میں سپریم کوٹ کا فیصلہاور اب سی اے اے
،این سی آ ر اور این پی آ ر کی نئی تلوار لٹکانے کی مذموم کوشش کی جارہی
ہے۔ یہی ذہنی دباؤ کے سبب مسلمان سڑکوں پر نکل۔ائے ،جوایک اچھی پہل ہے
،لیکن مسلمانوں کو پوری ہوشمندی کے ساتھ آگے کی حکمت عملی تیار کر نا
ہوگی۔پولیس اور انتظامیہ کا رویہ مبینہ طور پر متعصبانہ ہے۔ اسی لیے جہاں
بھی احتجاج ہوں بڑی تعداد میں برادران وطن کو بھی ساتھ میں رکھا جائے تاکہ
مسلمانوں کو کسی کا لیبل نہ لگنے پائے ویسے بھی مسلمان اس میں تنگ نظر
لوگوں کے لئے نرم چارہ بن جاتے ہیں۔ہمیں مذکورہ قوانین کے خلاف احتجاج کے
دوران ہر کسی کا تعاون حاصل ہورہا ہے اور یہ خوش آئند بات ہے۔کیونکہ مرکزی
حکومت نے 'بیک فٹ' پر جاکر اپنا دفاع کرنا شروع کردیا ہے ،لیکن اس چیز کو
دھیان میں رکھنا ہوگا کہ بی جے پی لیڈرشپ اس پسپائی کے بعد ایک مرتبہ پھر
کیل کانٹوں کے ساتھ میدان مارنے کی کوشش کرے گی ،بس ہمیں ہوشمندی اور حکمت
عملی کا مظاہرہ کر ناہوگا۔فی الحال جیت کی علامت یہ ہے کہ امت شاہ چاروں
خانے چت ہیں ۔لیکن اتنے شاطر بھی کہ خود کو سنبھالنے میں دیر نہیں کریں گے۔
|