ریاست مدینہ میں دوغلی پالیسی کیوں؟

ہمارے ملک میں بڑے شہر میں کوئی موٹر سائیکل سے بھی گر جائے تو وہ بریکنگ نیوز بنتی ہے ، لیکن چھوٹے شہروں میں لوگ سسک سسک کر جان بھی دے دیں تو ارباب اختیار تک ان کی سسکیاں نہیں پہنچتیں ، بڑے لوگ کسی ہوٹل یا اور کسی مقام پر تفریح کے لئے بھی جائیں تو بات اجاگر ہوتی ہے لیکن ایک عام آدمی ہسپتال میں ایڑیاں رگڑتا ہوا بھی نظر آئے تو عمومی طور پر لوگ اسے نظر انداز کردیتے ہیں ، پاکستان میں اس وقت مسئلہ اسی کو سمجھا جاتا ہے جو میڈیا پر دکھایا جارہا ہو ، اگر میڈیا پر کوئی بات ڈس کس نہ ہورہی ہو تو اہم سے اہم بات بھی ہمارے یہاں بے معنی سمجھی جاتی ہے ، اسی طرح پارلیمان میں موجود جماعتوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں پر تو سب کی نظر ہوتی ہے ان کی آواز بھی سب تک پہنچ جاتی ہے لیکن جو جماعتیں پارلیمان میں موجود نہیں ہیں ان کے ساتھ جتنا مرضی ظلم ہو جائے ان کے پیروں میں جوتے جتنے چاہے تنگ کر لو ارباب اختیار تک وہ آواز نہیں پہنچ پاتی ، میرا تعلق بھی اسی مظلوم دینی طبقے سے ہے جن کے ساتھ ہونے والی زیادتیاں میڈیا پر دکھائی نہیں جاتیں اس لئے کوئی اُن ناانصافیوں کو ناانصافی سمجھنے کو تیار ہی نہیں ہے ، وزیراعظم عمران خان صاحب نے قوم کو یہ خواب دکھایا تھا کہ دو نہیں ایک پاکستان بنے گا ، لیکن آج بھی بدقسمتی سے پاکستان میں انصاف کے دو ہی نظام رائج ہیں ، میں پاکستان کا محب وطن شہری ہوں ، ملک بھر میں مجھ پر کوئی کیس بھی داخل نہیں ہے ، الحمدللہ، میں دہشت گردی ، بھتہ خوری ، منشیات فروشی ، غنڈہ گردی ، قبضہ مافیا یا کسی اور جرم کا کبھی بھی مرتکب نہیں ہوا ، ہمیشہ شرافت کی سیاست کی ، کسی نے الجھنے کی کوشش بھی کی تو نظریں جھکا کر دوسرا راستہ لیا ، لیکن اس سب کے باوجود میرا سب سے بڑا شکوہ یہ ہے کہ دینی تنظیموں کے نمائندوں اور کارکنوں کو آخر کار کس جرم میں فورتھ شیڈول میں سالوں سال شامل کیا جاتا ہے ، ہر بار فارم بھروائے جاتے ہیں ، ہم عزت دار لوگ ہیں عزت ہی ہمارا واحد اثاثہ ہے ، لیکن فارموں میں بہنوں ، بیٹیوں حتیٰ کہ سالیوں تک کے بارے میں تفصیلات لی جاتی ہیں اور ایسا ایک بار نہیں ہوتا، بلکہ بار باربار ہوتا ہے ، جو ایک عزت دار انسان کی تذلیل کے سوا کچھ نہیں ہے ، ہم جب بھی کسی افسر سے کہتے ہیں کہ آپ ہمیں جانتے ہو ہم پرامن ، محب وطن لوگ ہیں ، پاکستان کے سوا ہمارا کوئی ٹھکانہ نہیں ، آمدن سے زیادہ ہمارے اثاثے نہیں ہیں پھر ہماری مذہبی اور دینی جماعتوں کو بلاجواز کیوں ستایا جارہا ہے، تو تمام افسران سے ایک ہی جواب ملتا ہے کہ اوپر کی پالیسی ہے ، یہ اوپر کی پالیسی آخر ہے کیا..،میں نہیں جانتا.......؟

لیکن اگر پاکستان ایک آزاد اور مختار ملک ہے تو اس ملک میں آئین و قانون کی بالادستی ہونی چاہیئے ، دینی کارکنان سے جینے کا حق تک چھین لینا کوئی دانشمندی نہیں ہے ، میں آج کے اپنے کالم کی توسط سے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب اور چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد صاحب تک اپنی یہ آواز پہنچانا چاہتا ہوں کہ باجوہ صاحب نومبر 2022 تک اور چیف جسٹس فروری 2022 تک ملک کے سب سے بڑے اداروں کے سربراہ ہیں ، ان 3 سالوں میں آپ دونوں پاکستان کی کایا پلٹ سکتے ہیں ، آپ دونوں محروموں اور محکوموں کو انصاف دے سکتے ہیں ، یقین جان لیں کہ ہم سب نے دنیا سے جانا ہے ، ہم سب کے صرف کام زندہ رہیں گے ، جو اچھے کام کر جائے گا لوگ اسے اچھے نام سے یاد کریں گے ، پارلیمان میں ہماری نمائیندگی آٹے میں نمک کے برابر ہیں، اس لئے ہماری آواز فیصلہ سازوں تک نہیں پہنچ رہی ہے ، ہم محب وطن پاکستانی ہیں ، ہم امتحان اور آزمائش کے ہر کڑے سے بھی گزر چکے ہیں ، اب ہماری حب الوطنی اور امن پسندی پر سوال بنتا نہیں ہے ، رانا ثناءاللہ 6 ماہ جیل میں رہے ان کی زوجہ نے کہا کہ ان کے 6 ماہ کا حساب کون دے گا ، ہم نے تو اپنے اس سوال کو بھی اللہ پر چھوڑ دیا ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں سے ہم پر جو ظلم وستم ہوئے اس کا جواب کون دے گا ، پہلے امریکا کی فرمائیش پر دینی کارکنان کے ساتھ زیادتیاں ہوئیں اور اب ایف ، اے ، ٹی ، ایف کی ہدایت کی روشنی میں دینی کارکنان قربانی کا بکرا ہیں ، ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ کتنا ظلم و ستم ہورہا ہے ، وہاں پر آر ، ایس ، ایس اور ہندو انتہا پسند تنظمیوں نے کیسا کہرام مچایا ہوا ہے لیکن امریکا اور ایف ، اے ، ٹی ، ایف کی طرف سے انڈیا پر کوئی دباؤ ڈالا نہیں جاتا ، حالانکہ بھارت تو ایف ، اے ، ٹی ، ایف کا رکن بھی ہے جبکہ پاکستان اس تنظیم کا باضابطہ رکن بھی نہیں ہے ، لیکن پھر بھی یہ لوگ پاکستان پر ہی پریشر ڈال رہے ہیں ، اس وقت میں ضرورت اس امر کی ہے کہ باجوہ صاحب اور چیف جسٹس صاحب کمزور لوگوں کے لئے ڈھال بنیں ، آپ ہمیں کسی بھی چھلنی میں چھان لیں ان شاءاللہ پاکستان کی محبت پر کوئی کمپرومائز نہیں ملے گا ، جتنے بھی لوگ فورتھ شیڈول میں ہیں ان سب کی آزادانہ انکوائری کریں کہ کیا واقعی ان سب پر فورتھ شیڈول بنتا ہے ، کیا واقعی ان سے ملک میں بد امنی کا کوئی خطرہ ہے ، ایک شخص اگر 10 سال سے فورتھ شیڈول میں ہے اور اس نے کبھی ملکی قوانین کو ہاتھ میں نہیں لیا ہے ، اس کی وجہ سے ملک میں کبھی بدامنی بھی نہیں ہوئی ہے تو پھر ایسے افراد کو مزید فورتھ شیڈول میں رکھنے کا کیا جواز ہے ، سیاسی لوگوں کے بیانئیے کو سُنا جارہا ہے ہم دینی لوگوں کے مؤقف کو بھی سمجھنے کی کوشش کریں ، ریاست پاکستان خود دینی لوگوں سے بھی ڈائیلاگ کرے اگر کوئی مسئلہ ہے تو دینی قیادت کے سامنے اس مسئلے کو رکھا جائے ، مل جل کر اس مسئلے کا حل نکالا جائے ، دینی مدارس ہوں یا دینی کارکن ہم سب پاکستان کی تعمیر و ترقی میں اپنا آئینی و قانونی کردار ادا کرنا چاہتے ہیں ہمیں ادا کرنے دیا جائے ، باجوہ صاحب اور چیف جسٹس صاحب یقین جانیں ہمارے آئینی و قانونی کیا انسانی و اسلامی حقوق بھی سلب ہوچکے ہیں ، آپ ہمیں ہمارے انسانی ، اسلامی اور آئینی حقوق واپس دلوا دیں ، پلیز باجوہ صاحب ، پلیز چیف جسٹس صاحب ، ہماری آواز سُن لیں ، سن لیں ، سُن لیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

 

Muhammad Nafees Danish
About the Author: Muhammad Nafees Danish Read More Articles by Muhammad Nafees Danish: 11 Articles with 14013 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.