آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں چینی فوج کی موجودگی کا امریکی دعویٰ

آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں چینی فوج کی موجودگی کے بھارت الزام کی پاکستان اور چین کی طرف سے تردید کے باوجود اب امریکہ بھی بھارت کے اس دعویٰ کی تائید کر رہا ہے۔میڈیا میں شائع اطلاعات کے مطابق نئی دلی میں ایک سرکاری حاکم کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ” امریکہ کے اداروں نے نئی دلی کی حکومت یہاں تک کہ سراغرساں ادارے ’را‘ تک جو پیغام پہنچایا ہے اس میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں چینی افواج موجود ہیں“۔ مذکورہ سرکاری حاکم نے مزید بتایا کہ”امریکہ اور بھارت کے درمیان جو ٹیکنیکل مشترکہ انٹیلی جینس کام کررہی ہے اس نے نئی دلی کے اداروں یہاں تک کہ” را“ کو بھی بتایا ہے کہ پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں کنٹرول لائن کے آس پاس چین کی افواج موجود ہیں اور کئی طرح کی سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں“۔

دریں اثناء بھارتی فوج کی شمالی کمان کے جنرل آفیسر کمانڈنگ لیفٹنٹ جنرل کے ٹی پرنیک نے جموں میں ایک تقریب کے دوران کہا ہے کہ ”بھارت کو چین اور پاکستان کے دفاعی تعاون کی وجہ سے زبردست خطرات لاحق ہیں اور اس خطرے کی وجہ سے4057کلو میٹر لمبی حقیقی کنٹرول لائن اور778کلو میٹر لمبی کنٹرول لائن انتہائی حساس بنی ہوئی ہے۔پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں چین کی موجودگی میں آہستہ آہستہ اضافہ ہورہا ہے اور اسکی فوجیں صحیح معنوں میں کشمیر کے ساتھ لگنے والی لائن آف کنٹرول پر موجود ہیں۔ گلگت بلتستان علاقہ میں بھی چینی فوجی اہلکاروں کا بھاری جماﺅ ہے اور پاکستانی فوج کے ساتھ اس کا گٹھ جوڑ بھارت کے لئے سیکورٹی کے حوالے سے گہرے تشویش کی بات ہے۔ یہ خطرہ پاکستان کے ساتھ لگنے والی کنٹرول لائن تک بھی بڑھ گیا ہے کیونکہ بیجنگ اور اسلام آباد کے درمیان ایک مضبوط دفاعی معاہدہ موجود ہے اور دونوں اس پر سختی کے ساتھ کاربند ہیں۔“بھارت پہلے ہی آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں چین کے تعاون سے جاری بجلی پیدا کرنے اور دوسرے ترقیاتی منصوبوں پر سخت تشویش ظاہر کر رہا ہے اور بھارت نے کہا ہے کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں گیارہ ہزار چینی فوجی موجود ہیں ۔

گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں چینی فوج کی موجودگی کی حقیقت یہ ہے کہ بھارت کی طرف سے پاکستان کے خلاف ”واٹر وار“ کی صورتحال میں پاکستان چین کے تعاون سے گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں بجلی پیدا کرنے کے بڑے منصوبوں پر کام کر رہا ہے اور ان علاقوں میں چین کی تعمیراتی کمپنیاں ان منصوبوں کی تعمیر کا کام کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ چین آزاد کشمیر کے 2005ءکے ہولناک زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں تعمیر نو کے منصوبوں پر بھی کام کر رہا ہے۔بھارت اور امریکہ کی طرف سے یہ کہنا کہ” چینی فوج حقیقی طور پر آزاد کشمیر میں لائین آف کنٹرول پر موجود ہے “ ، کشمیر کے معاملے میں بھارت اور امریکہ کے عزائم کے خطوط بھی واضح کرتا ہے۔ بھارت جس طرح مسئلہ کشمیر حل کرنے کے بجائے ڈھٹائی کے ساتھ کشمیریوں کے مطالبہ آزادی کو اپنی فوجی طاقت کے ظالمانہ استعمال سے کچلتے ہوئے پاکستان کے ساتھ بار بار تعطل کا شکار ہونے والے لا حاصل مزاکرات کی پالیسی پر چل رہا ہے ،مسئلہ کشمیر کو منصفانہ اور پرامن طور پر حل کرنے کے بجائے دھونس سے کام لیتے ہوئے بھارت جنوبی ایشیاء کے خطے میں جنگ ،تباہی اور بدحالی کی راہ ہموار کر رہا ہے۔

چین کی کشمیر سے متعلق پالیسی میں تبدیلی اور متنازعہ ریاست جموں و کشمیر میں چین کی بڑھتی ہوئی دلچسپی سے بھارت کی پریشانی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ 1970ءتک چین کشمیر کے معاملے میں پاکستان کا پر جوش حامی رہا لیکن پھر چین کی کشمیر پالیسی سفارتی حمایت کی سطح تک ہی محدود رہی او ر چین کشمیر کو پاکستان اور بھارت کا باہمی مسئلہ قرار دیتا رہا۔گزشتہ چند سالوں میں چین اور بھارت کے درمیان مختلف شعبوں میں اچھے تعلقات کے قیام سے بھارت نے خیال کیا کہ اس سے چین کشمیر سے متعلق پاکستان کی حمایت سے پیچھے ہٹا جائے گا۔لیکن خطے میں امریکہ اور دوسری عالمی طاقتوں کے بڑھتے ہوئے اثرات کی روشنی میں چین نے خطے سے متعلق اپنی پالیسی میں تبدیلی لائی ہے اور کشمیر چین کی اس پالیسی کی تبدیلی کا ایک اہم موضوع ہے۔ چین کو عالمی سطح پرمسئلہ کشمیر کا فریق نہیں سمجھا گیا لیکن عملی طور پر چین اس مسئلے کا ایک فریق ہے۔1947 ءتک قائم ریاست جموں و کشمیر کا ایک دشوار گزار غیر آباد برفانی علاقہ اقصائے چن کا انتظام چین کے پاس ہے جبکہ 1963ءمیں پاکستان سے ایک معاہدے کے ذریعے تقریبا پانچ ہزار مربع کلومیٹر علاقہ چین کی عملداری میں آگیا۔چین نے اقتصادی معاونت کے علاوہ دفاعی لحاظ سے بھی پاکستان کا ہر مشکل وقت میں بھرپور ساتھ دیا ہے۔

چین سمجھتا ہے کہ امریکہ بھارت کو چین کے خلاف تیار کرتے ہوئے چین کے گرد گھیرا تنگ کر رہا ہے۔ بھارت اپنے ہمسایہ ممالک،پاکستان،بنگلہ دیش،مالدیپ،بھوٹان،سری لنکا اور نیپال کے خلاف شروع سے ہی جارحانہ اور حاکمانہ انداز میں نظر آتا ہے لیکن چین کے معاملے میں اس کے برعکس بھارتی انتظامیہ خوف اور احساس کمتری کا شکار نظر آتی ہے۔ مسئلہ کشمیر کا حل پاکستان اور بھارت کے درمیان باہمی طور پر حل کرنے کا فارمولہ ناکام ہو چکا ہے اور چین کی کشمیر پر متحرک پالیسی سے اب امریکہ کے لئے یہ ممکن نہیں رہے گا کہ وہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے سلسلے میں اپنے متحرک کردار کے بجائے پاکستان بھارت کے درمیان مزاکرات کی حوصلہ افزائی تک محدود رہے۔بھارت کے تعاون سے چین کو گھیرنے کی امریکی حکمت عملی کے جواب میں مسئلہ کشمیر کے حل میں چین کی سرگرمی موثر دفاع اور بہترین جواب ہو سکتا ہے۔

پاکستان میں اب اس سنگین مسئلے کو محسوس کیا جا رہا ہے کہ بھارت متنازعہ ریاست کشمیر میں درجنوں ڈیم بناتے ہوئے دریاﺅں پر ایسا کنٹرول حاصل کر رہا ہے جس سے پاکستان کو کبھی قحط زدہ اور کبھی سیلاب سے تباہ کیا جا سکتا ہے۔اگر گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں کنٹرول لائن کے ساتھ چین کے فوجی دستے پہنچ گئے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ چین مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے عملی طور پر کشمیر میں آ گیا ہے اور یہ کہ پاکستان ”واٹر وار“ میں شکست سے بچنے کے لئے مسئلہ کشمیر کے حتمی منصفانہ حل کے لئے چین کے تعاون سے سرگرم عمل ہے۔لیکن اگر بھارت اور امریکہ کے یہ دعوے غلط ہیں تو اس سے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے متعلق امریکہ اور بھارت کے عزائم آشکار ہوجاتے ہیں۔متنازعہ ریاست کشمیر میں جاری اس سرگرمی سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ کشمیر کے خطے میں تبدیلیوں کی پیش بندیاں جاری ہیں ۔ یہ مراحل پاکستان کے لئے فیصلہ کن ہو سکتے ہیں کہ کشمیر اور پاکستان کے درمیان گہرے اور ناگزیر تعلق کے تقاضوں کو پورا کرنا ہے یا اس کے بجائے اغیار کی سازشوں اور جارحیت کا مقابلہ آزاد کشمیر و گلگت بلتستان کے اندر رہ کر کرنا ہے۔یہ محض کشمیر کی آزادی ہی کی نہیں بلکہ پاکستان کے وجود اور بقاء کی جنگ ہے جو گزشتہ63سال نظر انداز کر نے کے باوجود آج ہمارے وجود کے خلا ف ایک بڑا خطرہ اور چیلنج بن چکی ہے۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 699278 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More