طاقت کی کئی اقسام ہیں جن میں قابل ذکرروحانی
طاقت،جسمانی طاقت،عہدے،اختیارات اوردولت کی طاقت ہیں،قلم کی طاقت
کاذکرکرنابھی ضروری ہے پردورحاضرمیں قلم اوپربیان کردہ طاقتوں کے زیرقبضہ
ہے لہٰذاقلم کی طاقت یرغمال ہوچکی ہے،جسمانی لحاظ سے توجانورہردورمیں
طاقتوررہے ہیں جوآج بھی ہیں،روحانی طاقت کاتعلق انسان کے ساتھ ہے پرایسے
انسان بھی کم یاب ہوتے ہیں جبکہ عہدے،اختیارات اوردولت کی طاقت کے نشے میں
مست حیوان نماانسانوں کی بھیڑہردورمیں ثابت ہوتی ہے جوآج بھی اکثریت میں
پائے جاتے ہیں،دنیاوی دھن دولت کے بل بوتے پرطاقت کامظاہرہ کرتے وقت انسان
اپنی آخرت اوراوقات تک بھول جاتے ہیں،ایسے لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ دوسروں سے
زیادہ ذہین ہیں،اُن کے پاس داؤپیچ دوسروں سے زیادہ ہیں جبکہ حقیقت میں یہ
لوگ جھوٹ کے سہارے دنیاکمانے میں کسی دوسرے کونہیں بلکہ اپنے آپ کودھوکے
میں ڈال کرخسارے کاسوداکرتے ہیں،دنیاوی عہدے،اختیارات اوردولت کی طاقت
ہمیشہ سے عارضی اورفانی ہے جبکہ دنیاپرست اسے ہمیشگی سمجھ لیتے ہیں،جسے
دنیانظریہ ضرورت کے نام سے جانتی ہے اس نظریے کویوں بیان کیاجاتاہے کہ کوئی
شخص یاادارہ وقت کی نزاکت کومدنظررکھتے ہوئے وقتی طورپرکسی مشکل سے بچنے
کیلئے عارضی اقدام اٹھائے جبکہ اصل میں یہ کوئی نظریہ نہیں فقط ایک علامت
ہے نظریہ مال بناؤکی،نظریہ مال بناؤہی دنیاکامقبول ترین نظریہ اوررائج
الوقت نظام کی بنیادہے،اس نظریے کے پیروکارملک وقوم کے متعلق سوچنے کی
صلاحیت تک سے عاری ہیں،نظریہ مال بناؤ کے مطابق دنیاکاسب سے بڑامذہب پیسہ
ہے،نظریہ مال بناؤکے قانون میں لکھاہے جومال اکٹھاکرسکتے ہوکرلو،نظریہ مال
بناؤاپنے آئین پرمکمل کاربنداورپائیدارنظام ہے جوسب کوخریدنے کیلئے کسی بھی
طرح مال بنانے کی ترغیب دیتاہے،سنتے ہیں کہ طاقت کاسرچشمہ عوام ہیں،اسی
طاقت کی بنیادپرقائم نظام حکومت کوجمہوریت کہتے ہیں،کہنے،سننے،لکھنے
یاپڑھنے کی حدتک توپاکستان میں بھی طاقت کاسرچشمہ عوام ہیں اوربذریعہ
الیکشن نماسلیکشن مقررہونے والی حکومت کوجمہوری کہاجاتاہے،حقیقت انتہائی
مختلف ہی نہیں بلکہ شدیدمخالف ہے،ہماری قوم کے بڑے بڑے دانشوربھی اسی
فراڈقسم کے الیکشن سے منتخب نہیں نامزدنظام حکومت کوبدترین جمہوریت بھی
آمریت سے بہترہے کہہ کرجمہوری تسلیم کرتے ہیں جبکہ حقائق بہت مختلف
اورتکلیف دہ ہیں،جمہوری نظام حکومت کامطلب ہے کہ سب سے پہلے عوام کے حقوق
کاخیال کیاجائے،اُن عوام کاجواپنے خون پسینے کی کمائی سے ٹیکس اداکرکے
حکمرانوں اوردیگرتمام اداروں کے آفسران اوراہلکاران کی نہ صرف ضروریات پوری
کرتے ہیں بلکہ عالیشان زندگی گزارنے کیلئے اپنے منہ کانوالہ بھی قربان کرتے
ہیں،جمہوری نظام حکومت میں منتخب حکومت ملکی سلامتی کے ضامن سکیورٹی
ادارے،عدلیہ اورمیڈیااہم ترین ستون ہوتے ہیں،یہ بات تسلیم کرناتوممکن نہیں
کہ ہمارے ملک میں جمہوری نظام رائج ہے،رائج الوقت بوٹ پلس،سیاسی
یاسیاسی+بوٹ،پارلیمانی نظام کے کرتادھرتاسیاستدان آج تک نظریہ ضرورت یعنی
ڈنگ ٹپاؤپالیسی سے اس لئے نہیں نکل پائے کہ انہیں ملک،قوم یاعوام کے حقوق
سے زیادہ اپنے ذاتی مفادات عزیزہیں،ملکی سلامتی کے ضامن سکیورٹی ادارے ملک
کے سب سے منظم اورقابل فخرادارے ہیں پرافسوس کے ساتھ کہناپڑتاہے کہ عوام کے
ساتھ اُن کاسلوک بھی قابل ذکرنہیں،سکیورٹی اداروں کے سربراہ بھی نوکری کی
مدت پوری ہونے پرملک چھوڑجاتے ہیں،عدلیہ کاحال سب کے سامنے ہے،انصاف کی
دیوی مقدمات کے فیصلوں میں سزاوجزاء کی بجائے سیٹلمنٹ زیادہ کرتی
ہے،عدالتیں کرپشن،رشوت اورقبضوں کے مقدمات میں اعلانیہ سیٹلمنٹ کرکے
طاقتورمجرمان کوپھرسے کمزروں کے حقوق پرڈاکے ڈالنے کیلئے آزادکردیتی
ہیں،یہاں مجرمان کالفظ اس لئے استعمال کرناپڑاکہ جوملزم اپنے مقدمات کے
انصاف پرمبنی فیصلوں کاانتظارکرنے کی بجائے سیٹلمنٹ کے ذریعے پیسے یعنی
قانونی رشوت اداکرکے مقدمات کے خاتمے کی کوشش کریں انہیں ملزم نہیں مجرم ہی
تصورکیاجاناچاہیے،میڈیاکی پسماندہ حالی کایہ عالم ہے کہ جن طاقتورطبقات نے
احتساب کے گھوڑے پرسوارحکومت کوگھٹنے ٹیکنے پرمجبورکردیا،حکومت نے پہلے
کاروباری اورپھرسرکاری آفسرطبقے کونیب قوانین تبدیل کرکے بھوکے شیروں کی
طرح قوم پرچھوڑدیاہے یہ طاقتورطبقات بڑے میڈیاگروپس کے مالک ہیں،محب
وطن،سچے اورکھرے حقیقی صحافی کوتوبھوک،افلاس،جھوٹ اوربلیک میلنگ کب
کاکھاچاٹ چکی موجودہ نظام میں صحافتی سرگرمیاں جاری رکھنے والے صحافیوں میں
شائدہی کوئی ہوجواپنے ضمیرکے مطابق فرائض سرانجام دے رہاہو،مختصریہ کہ رائج
الوقت نظام حکمرانی جمہوری ہے اورنہ ہی اس نظام میں عوام طاقت
کاسرچشمہ،عوام طاقت کاسرچشمہ ہوتے توسیاستدان کبھی عوام کے بنیادی حقوق کی
فراہمی کیلئے بھی مل بیٹھتے،اپناسرمایہ اورخاندان بیرون ملک رکھنے کی بجائے
اپنے وطن میں سرمایہ کاری کرتے، قوم نے دیکھاکہ ووٹ کیلئے عزت کامطالبہ
کرنے والے ،اپنی کرپشن پرجمہوریت کاپردہ ڈالنے والے کس قدرجلدی سے احتساب
کے دعویداروں کے ساتھ غیرمشروط ہوجاتے ہیں،رائج الوقت نظام جس کی لاٹھی اُس
کی بھینس یعنی جس کے ڈنڈے میں طاقت اُس کی قانون سازاسمبلی اوراسی کے قانون
اوروہی طاقت کاسرچشمہ ہیں،عوام کوطاقت کاسرچشمہ کہنے والے کبھی بھی عوام کے
ساتھ کھڑے نہیں ہوتے فقط استعمال کرتے ہیں مال بنانے اورپھربچانے کیلئے ،عوام
کوطاقت کاسرچشمہ کہنے والے جمہوریت کے نام نہادٹھیکیدارعوام کے ووٹ سے
منتخب ہونے کی بجائے ہمیشہ سلیکٹرزکی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش میں رہتے
ہیں
|