پاکستان کی موجودہ صورتحال اور
سیاسی جماعتوں کی ”کاروائیوں“ کو دیکھتے ہوئے صاف محسوس ہورہا ہے کہ آئندہ
الیکشن میں بھی سابقہ الیکشن کی طرح نئی صف بندیوں میں عدلیہ کا ایک
انتہائی اہم کردار ہوگا۔ سابقہ الیکشن میں وکلاء کی عدلیہ بحالی تحریک جاری
تھی اور مسلم لیگ (ن) نے اس سے فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کی، اپنے
امیدواروں سے عدلیہ بحالی کا حلف اٹھوانا بھی اسی سلسلہ کی کڑی تھی تاکہ
عوام جو عدلیہ بحالی تحریک کے شانہ بشانہ تھے، ان کی ہمدردیاں حاصل کی
جاسکیں، یہ علیحدہ بات ہے کہ مسلم لیگ بعض معروضی حالات اور میاں برادران
کی دیر سے پاکستان آمد کی وجہ سے اتنے اہم مسئلہ کو بھی کما حقہ ”کیش“ نہ
کراسکی لیکن مسلم لیگ (ن) کی پارلیمنٹ میں موجودہ حیثیت بھی عدلیہ تحریک کی
بدولت ہی ہے۔اس وقت چند انتہائی اہم مقدمات سپریم کورٹ میں موجود ہیں جن
میں این آر او نظر ثانی کیس، ذوالفقار علی بھٹو ”ری ٹرائل“ ریفرنس اور
اٹھارویں ترمیم کا کیس بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ جبکہ اس کے علاوہ بینظیر قتل
کیس خصوصی عدالت میں زیر سماعت ہے جس میں جنرل مشرف کے وارنٹ بھی جاری
ہوچکے ہیں اور برطانیہ نے اس کی حوالگی کا عندیہ بھی دیدیا ہے لیکن صاحب
بصیرت لوگ جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوگا کیونکہ ایسی صورت میں موجودہ حکومت
کے بعض ”اہم لوگ“ بھی بچ نہیں پائیں گے۔
اول الذکر دونوں مقدمات سے پیپلز پارٹی اپنے حساب سے اور باقی جماعتیں اپنے
اپنے حساب سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہی ہیں۔ اس بات کا کس کو پتہ نہیں کہ
اگر این آر او نظر ثانی کیس کا فیصلہ حکومت کے خلاف آیا ( جس کے امکانات
کافی سے بھی زیادہ ہیں ) تو اس کے قائدین کہاں کھڑے ہوں گے، قمر کائرہ صاحب
نے ایک بار پھر یہ کہا ہے کہ ”بینظیر کی قبر کے ٹرائل کی کوششیں ہورہی
ہیں“۔ پہلے این آر او کیس کی بات کرلی جائے تو حکومت نے ایک بار پھر دلائل
دینے سے بچنے کے لئے سپریم کورٹ میں وکیل کی تبدیلی کی درخواست کی جو سپریم
کورٹ نے مسترد کردی اور کہا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے کے آغا تیاری کر کے
دلائل دیں لیکن انہوں نے وکیل کی تبدیلی پر اصرار جاری رکھا ، بعد ازاں ایک
نئی بات یہ ہوئی کہ وفاق کے وکیل کمال اظفر کو اس بناء پر کیس سے علیحدہ
کردیا گیا کیونکہ انہیں ایک اور ”زرداری“ کی جانب سے دھمکیاں موصول ہورہی
ہیں، جب سپریم کورٹ نے ابوبکر زرداری ایڈووکیٹ سے استفسار کیا تو انہوں نے
دھمکیاں دینے سے صاف انکار کردیا، ظاہر ہے کوئی عام آدمی بھی دھمکیاں دینے
والی بات نہیں مان سکتا اور وہ تو وکیل بھی ہیں اور پھر زرداری بھی، وہ
کیسے مان سکتے تھے۔ کمال اظفر کو کیس سے علیحدگی کی اجازت کے باوجود قوانین
اور رولز کے مطابق نئے وکیل کی اجازت نہیں دی گئی ہے اور نہ ہی ایڈیشنل
اٹارنی جنرل نے دلائل دئے ہیں جبکہ کیس کی کاروائی 18 اپریل تک ملتوی کردی
گئی ہے۔ سپریم کورٹ کے سترہ رکنی بنچ نے قبل ازیں قوانین اور سپریم کورٹ
رولز کا حوالہ دیکر یہ کہا تھا کہ وہ نظر ثانی کیس میں وکیل کی تبدیلی کی
اجازت نہیں دے سکتے کیونکہ پہلے والے وکیل حکومت کو اب بھی میسر ہیں اور
اگر ایک کیس میں وکیل تبدیل کرنے کی اجازت دے دی گئی تو وکلاء کی تبدیلی کا
ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہوجائے گا اور کوئی بھی کیس کبھی ختم نہیں ہوگا۔
وفاق یا دوسرے لفظوں میں پیپلز پارٹی کیوں وکیل تبدیل کرنا چاہتی ہے، اس
سوال سے وفاق کے سابق وکیل اور سابق مشیر نے پردہ اٹھا دیا ہے۔ کمال اظفر
کا کہنا ہے کہ ”پہلے بھی ان کو وفاق کی وکالت سے ہٹا کر مشیر اسی لئے مقرر
کیا گیا تھا کہ وفاقی حکومت کو خوف ہے کہ وہ یہ کیس ہار جائے گی حالانکہ یہ
کیس ایسا ہے جو جیتا جاسکتا ہے اور اگر مجھے دلائل دینے کا موقع دیا جائے
تو میں یہ کیس جیت سکتا ہوں“ مزید یہ کہ مشیر مقرر کرنے کے بعد ان کو نہ تو
گاڑی دی گئی، نہ عملہ اور نہ ہی سرکاری رہائش جبکہ سیلاب زدہ علاقوں کا
دورہ کرنے کے لئے جب وزیر اعظم کو خط لکھا تو اس کا کوئی جواب بھی نہ ملا۔
کمال اظفر کی باتوں ، ان کو ایک وکیل ”زرداری“ کی جانب سے مبینہ دھمکیوں
اور وفاقی حکومت کے طرز عمل سے صاف نظر آرہا ہے کہ ایک خاص مقصد کے لئے
عدالت کو بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کیونکہ کوئی بھی ذی شعور یہ ماننے
کو تیار نہیں کہ حکومت یا اس کے وکلاء کو قوانین اور سپریم کورٹ رولز کا
علم نہ ہو۔یہ بات بھی یقیناً حکومت اور وکلاء کو معلوم ہوگی کہ وکیل نہ
بدلنے کے قوانین اور سپریم کورٹ رولز کی موجودگی میں سپریم کورٹ وکیل بدلنے
کی اجازت بھی نہیں دے گی تو کیوں اس طرح کی درخواست دی گئی، وجہ ایک ہی ہے
کہ چونکہ اب این آر او نظر ثانی کیس کا فیصلہ عنقریب متوقع ہے اور حکومت کو
اپنی ناکامی کا بھی یقین ہے تو کیوں نہ اس سارے معاملے کو عدالت سے نکال کر
عوام میں لے جایا جائے تاکہ وہاں اس مرتبہ عدلیہ کے ہاتھوں ”شہادت“ کا رتبہ
حاصل کیا جائے؟ چنانچہ میرے خیال میں حکومت کی جانب سے اب عدالت میں اس طرح
کا طرز عمل اختیار کیا جائے گا جس سے ججوں کو بدنام بھی کیا جاسکے اور ان
کو بھی دھمکایا بھی جاسکے تاکہ اپنے خلاف فیصلہ آنے کے بعد عوام کے پاس
جانے میں جو مشکلات درپیش ہیں ان کو کسی حد تک کم کیا جاسکے، اسی سلسلے کو
آگے بڑھانے کے لئے اس نازک موقع پر بھٹو کیس بھی مردہ خانہ سے نکال کر
سپریم کورٹ میں ریفرنس کی صورت داخل کرا دیا گیا ہے، حالانکہ اس سے قبل
بھٹو کی پھانسی کے بعد دو مرتبہ پیپلز پارٹی برسر اقتدار آچکی ہے لیکن اس
وقت ایسا کوئی ریفرنس دائر نہیں کیا گیا تھا۔ سابقہ دونوں حکومتوں کی کمان
بھٹو کی وارث محترمہ بینظیر بھٹو کے ہاتھ میں تھی جبکہ داماد کسی بھی حوالہ
سے وارثان میں شامل نہیں ہوتا۔
اگر موجودہ پاکستان کی حالت کو دیکھیں تو آج سارے پاکستانی ہی کم و بیش یہ
سمجھتے ہیں کہ شائد بھٹو کو ایک غلط فیصلہ کی وجہ سے پھانسی دی گئی تھی
لیکن اس ریفرنس کے بعد سیاسی حریف اسی مقام پر پہنچ گئے ہیں جس مقام پر وہ
بھٹو دور میں موجود تھے۔ ایک طرف بھٹو کے شیدائی تھے تو دوسری طرف ان کے
شدید ترین ناقدین، ایک طرف غلام مصطفیٰ کھر جیسے گورنر تھے تو دوسری طرف
تحریک نظام مصطفیٰ میں بھٹو صاحب کی فسطائیت کا شکار لوگ، اگر ایک جانب
بھٹو کی پرائیویٹ فوج پیپلز گارڈ تھی تو دوسری جانب اپنی جانوں کو ہتھیلیوں
پر رکھ کر جام شہادت نوش کرنے والے سیاسی کارکن تھے، کونسا ظلم تھا جو اس
وقت روا نہیں رکھا جاتا تھا لیکن اس کے باوجود وہی لوگ جو بھٹو دور کے ظلم
و تشدد کا شکار رہے وہی لوگ یہ ماننا شروع ہوگئے تھے کہ بھٹو کی پھانسی غلط
تھی لیکن اب میڈیا پر اور گلی گلی میں اس پھانسی کے حق اور مخالفت میں
باتیں ہونا شروع ہوگئی ہیں، پیپلز پارٹی نے بھٹو ریفرنس کی بدولت ایک تیر
سے دو شکار کھیلنے کی کوشش کی ہے، اگر عدلیہ ریفرنس کا جواب ہاں میں دے
دیتی ہے تو بھی سرخروئی اور اگر ناں میں دیتی ہے تو بھی ایک بار پھر
”شہادت“۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی اور خصوصاً زرداری کے مخالفین ہرگز یہ
نہیں چاہیں گے کہ پیپلز پارٹی اپنی انتہائی گری ہوئی ساکھ کو عدلیہ کی مدد
سے بحال کرانے میں کامیاب ہوجائے، اس لئے اب انتظار کیجئے ایک نئے پنڈورا
باکس کا، ایک نئی اور طویل بحث کا آئندہ الیکشن تک....!
میرا ایک دوست کہتا ہے کہ مارشل لاء ضیاءالحق نے لگایا، پیپلز پارٹی کے
بقول عدلیہ پر دباﺅ فوجی آمر اور امریکہ کا تھا لیکن نشانہ بنی ہے تو صرف
عدلیہ، ضیاءالحق دور کے وزیر آج وزیر اعظم ہیں، پھانسی پر مٹھائیاں بانٹنے
والے آج اس کے وکیل ہیں، ضیاءالحق کے خلاف کوئی بات نہیں کی جاتی لیکن
عدلیہ کے خلاف زبانیں کھلی ہوئی ہیں، ایسا ہی طرز عمل رہا تو ایک دن وہ بھی
آئے گا کہ پیپلز پارٹی والے کہیں گے کہ تارا مسیح تھا جس نے بھٹو کو
”پھانسی“ دی تھی، اس کو قبر سے نکالا جائے اور اس کا بھی ٹرائل کیا جائے
کیونکہ بھٹو کا اصل مجرم تو وہی تھا! |