پکاسو ایک بہت بڑا آرٹسٹ تھا۔ ایک عورت اس کے پاس گئی اور
اس سے کچھ مدد مانگی کہ مجھے کچھ رقم دے دو۔ اس نے کہا کہ کتنی رقم چاہیے ؟
اس نے اپنی ضرورت کے مطابق چند پیسوں کی التجا کی۔ وہ عورت پکاسو کے بارے
میں نہیں جانتی تھی کہ وہ دنیا کا ایک بہت بڑا آرٹسٹ ہے۔ پکاسو نے کہا کہ
یہ تو بہت کم رقم ہے میں تمہیں اس سے زیادہ رقم دے سکتا ہوں ۔ اس نے چند
ہزار کی فرمائش کردی ۔ پکاسونے پھر کہا کہ یہ رقم بھی بہت کم ہے۔ اس عورت
نے سوچا کہ یہ کوئی پاگل لگتا ہے۔ لیکن اس نے یہ بھی سوچا کہ ہوسکتا ہے کہ
اس کے پاس واقعی بہت سارا پیسہ ہو تو اس نے لاکھوں کی فرمائش کر ڈالی۔ تب
پکاسونے کہا کہ میں تمہیں ہزاروں لاکھوں نہیں بلکہ ملین ڈالر دے سکتا ہوں ۔
اس عورت نے حیرت سے پوچھا کہ وہ کیسے تو پکاسو نے اس سے کہا کہ کوئی قلم
اور کاغذ میرے پاس لے کر آؤ۔ وہ عورت قلم اور کا غذ لے کر آگئی۔ پکاسو نے
اس کاغذ پر چند لکیریں کھینچیں اور اس کے نیچے اپنے دستخط کیئے اور اس کے
ساتھ ساتھ اس پینٹگ کی قیمت بھی لکھ دی ۔ پانچ ملین ڈالر۔ اس کے بعد اس نے
وہ کاغذ اس عورت کو دے دیااور عورت سے یہ کہا کہ یہ پینٹنگ ابھی مت بیچنا،
کچھ عرصہ ٹھہر کر بیچنا اور وہاں سے چلا گیا۔ عورت کو پکاسو کی بات پر یقین
نہ آیا۔ وہ باہر ایک دوکاندار کے پاس گئی اور اس کو وہ کاغذ دیکھایا اور
ساری بات کہ دی۔ وہ شخص پکاسوسے واقف تھا۔ اس نے اس عورت کو بتایا کہ وہ
شخص جو کچھ بھی کہہ رہا تھا وہ بالکل درست ہے اور وہ اپنی بنا ئی ہوئی
پینٹگز کو اپنی طے کردہ قیمت پر بیچنے کا اہل ہے۔ اس عورت نے جب یہ سنا تو
پھر وہ پکاسو کی تلاش میں نکل پڑی۔ دوبارہ اس کو تلاش کیا اور اس سے پوچھا
کہ آپ نے یہ فن کس طرح سیکھااور آپ یہ فن مجھے بھی سکھا دیں۔تو پکاسو نے
کہا کہ اس پینٹنگ کو بنانے کے لیئے میں نے اپنی پوری زندگی صرف کی ہے۔
تمہارے سامنے جو کام میں نے چند سیکنڈ میں کیا ہے اس مقام تک پہنچنے میں
مجھے اپنی پوری زندگی قربان کرنی پڑی ہے ۔ اس پینٹنگ کی قیمت میری پوری
زندگی کی محنت اور ریاضت ہے۔ اس کا نچوڑ ہے جو میں نے تمہیں دے دیا۔ پوری
زندگی کی محنت اور ریاضت کے بعد ہی وہ مقام آتا ہے جب بند ہ اپنے وقت اور
کام کی قیمت خود طے کرتا ہے۔
آجکل ہر شخص کامیابی کے حصول کے لیئے شارٹ کٹ کے چکر میں رہتا ہے۔ وہ پیسے
تو بہت ذیادہ کمانا چاہتا ہے لیکن محنت اور توجہ سے کام نہیں کر نا چاہتا ۔
جب بھی کسی کو کوئی کام کرنے کے لیئے کہا جاتا ہے تو اس کا سب سے پہلا سوال
یہی ہوتا ہے کہ یہ کام کرنے سے مجھے کیا فائدہ ہو گا؟؟۔مجھے کیا ملے
گا؟۔دوسرا سوال یہ ہوتا ہے کہ یہ کام میر ی ذمہ داری میں شامل بھی ہے یا
نہیں ۔ اور تیسرا سوال یہ ہوتا ہے کہ اگر میں یہ کام نہ کروں تو پھربھی کیا
فرق پڑے گا؟ یہ کام خو د کرنے کی بجائے کسی دوسرے کے حوالے کر دوں تو کیسا
رہے گا؟۔ اگر میں یہ کام کل کر لوں تو پھر کیا حرج ہے؟۔ یہ کام آج نہ بھی
مکمل ہو تو کوئی مسلۂ نہیں۔ کل ہوجائے گا۔ اگر کام کیا بھی جائے تو گویا
جان چھڑوائی جاتی ہے۔ جتنا کام ذمے لگایا جاتا ہے اس سے بہت ہی کم کام کرنے
کی کوشش کی جاتی ہے۔ سستی اور کاہلی تو سب کے ہڈوں میں رچ بس گئی ہے۔ بس ہر
شخص یہی چاہتا ہے کہ تنخواہ تو ایڈوانس میں مل جائے لیکن میرے حصے کا کام
کوئی اور کر جائے۔ پھر کہا جاتا ہے کہ نوکریاں نہیں ملتیں۔ ہم میں سے ہر
شخص نوکری تلاش کرتا ہے۔ کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو کام تلاش کرتا ہو۔
ہر فرد دفتر میں بیٹھ کر دفتر کا ٹائم ختم ہونے کا انتظار کر رہا ہوتا ہے۔
اور سب پر قیامت تو تب ٹوٹتی ہے جب باس کا حکم آتا ہے کہ چھٹی کے بعد میٹنگ
ہوگی۔ یا باس چھٹی سے چند لمحے پہلے بلا کر کوئی ایسا کام ذمے لگا دیتا ہے
جو ہر صورت میں اسی دن کرنا ہوتو صورت حال یوں ہو جاتی ہے کہ کاٹو تو بدن
میں لہونہیں۔ باس کے دفتر سے گالیاں نکالتے ہوئے برآمد ہوتے ہیں اور سرپر
ہاتھ رکھ کر کسی معجزے کا انتظار شروع کر دیتے ہیں۔ جو لوگ کام کرنا چاہتے
ہیں وہ وقت کی قید سے آذاد ہوجاتے ہیں ۔ ان کے لیئے کام ہی سب کچھ ہوتا ہے۔
وہ معاوضے کی پرواہ کئے بغیر کام کرتے ہیں اور پھر ایسا وقت آتا ہے کہ وہ
لوگ دوسروں کی ضرورت بن جاتے ہیں اور پھر وہ لوگ پکاسو کی طرح اپنے کام کا
معاوضہ خود طے کرتے ہیں اور پھر دنیایہ معاوضہ ان کو دیتی بھی ہے۔ ان کے
کام رہتی دنیا تک ان کی پہچان بن جاتے ہیں۔
|