پاکستان میں انجینئرز کا مستقبل

ملک بھر میں پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کی کل183یونیورسٹیاں ہیں جن میں 112یونیورسٹیز میں انجینئرنگ کے مختلف شعبہ جات کی تعلیم دی جاتی ہے۔پاکستان انجینئرنگ کونسل کے اعدادوشمار کے مطابق ملک میں کل 2لاکھ60 ہزار انجینئرزرجسٹرڈ ہیں ۔جن میں2 لاکھ 39ہزار مرد جبکہ 17ہزار4سو 23خواتین شامل ہیں۔پاکستان کے78ہزار انجینئرز بیرون ملک خدمات انجام دے رہے ہیں۔

پاکستان انجینئرنگ کونسل کا دعویٰ ہے کہ 12ہزار انجینئرز کو سپروائزری سرٹیفیکیٹ کے ذریعے نوکریاں فراہم کی گئی ہیں۔لیکن حقیقت اس
کے برعکس ہے۔ملک بھر میں50ہزار انجینئرز بیروزگار ہیں۔انجینئرز کی بیروزگاری میں جہاں حکومتی ارباب بست و کشاد کی نالائقی اور عدم دلچسپی کارفرما ہے وہاں انجینئرز کی اپنی کوتاہیوں کا بھی عمل دخل ہے۔

انجینئر نگ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد جب میں نے عملی زندگی میں قدم رکھا تو آنکھوں میں روشن مستقبل کے دیے روشن تھے۔دل میں والدین کے سپنوں کو سچ کرنے اور ملک و ملت کی خدمت کی امنگ جاگزین تھی ۔میں انجینئرنگ نگ کی ڈگری اور پاکستان انجینئرنگ کونسل کے رجسٹریشن سرٹیفیکیٹ کو بار بار دیکھ کر خوش ہوتا تھا کہ اب کامیابی چند قدموں کے فاصلے پر ہے۔لیکن جب نوکری کی تلاش میں سرگرداں ہوا تو یہ حقیقت سامنے آئی کہ سفارش کے بغیر نوکری کا حصول جوئے شیر لانا ہے۔

جس کمپنی میں بھی CV لے کر پہنچا کمپنی کے گیٹ پر موجود گارڈز نے راستہ روک لیا اور کہا کہCVہمیں دے دو ، ہم HRوالوں کو دے دیں گے۔کمپنی آفس میں داخل ہونے کی اجازت نہیں۔آخرکار تھک ہار کر اپنے کلاس فیلوز اور سینئرز سے رابطہ کرنا پڑا اور پہلی نوکری ملی، تنخواہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر تھی جس سے میں اپنے ذاتی اخراجات ہی بمشکل پورے کرتا تھا۔پرائیویٹ سیکٹر کے کارزار میں چلتے چلتے آج الحمدو ﷲ تنخواہ اور عہدہ دونوں پرکشش اور قابل ستائش ہیں۔

قارئین ! اپنی رام کتھا سنانے کا مقصدہرگز اپنی تعریف و توصیف مقصود نہیں بلکہ نئے ڈگری ہولڈرز کو یہ باور کروانا ہے کہ زندگی کے سفر کی شروعات ہمیشہ ایک قدم سے ہوتی ہے۔خدارا گونرنمنٹ جاب تلاش کرنے کی ضد اور ہٹ دھرمی کے بت کو توڑ دیں اور اپنی فیلڈ سے متعلق کوئی بھی جاب کر لیں۔انشا اﷲ وقت کے ساتھ ساتھ تنخواہ بھی بڑھ جائے گی اورعہدہ بھی مل جائے گا۔

انجینئرنگ یونیورسٹیاں بھی انجینئرز کی بیروزگاری کی ذمہ دار ہیں۔دنیا بھر کی یونیورسٹیاں طلبہ کو تعلیم کے سا تھ ساتھ کیریر کونسلنگ بھی فراہم کرتی ہیں۔لیکن پاکستان کی یونیورسٹیاں طلبہ کو ڈگری کا پرزا تھما کر اپنے فرض سے سبکدوش ہو جاتی ہیں۔پنجاب یونیورسٹی، نسٹ اور غلام اسحاق خان انسٹیٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی جیسے چند اداروں کو چھوڑ کر کسی یونیورسٹی میں کیریر کونسلنگ پر توجہ نہیں دی جاتی ہیں۔

بدقسمتی سے پاکستان میں پرائیوٹ سیکٹر کی یونیورسٹی کے مالکان کی زیادہ تعداد سیٹھ حضرات پر مشتمل ہے ۔جنہیں طلبہ کے مستقبل کی کوئی فکر نہیں۔پرائیویٹ یونیورسٹیاں بمشکل ہائرایجوکیشن اورپاکستان انجینئرنگ کونسل کی Requirementsپوری کرتی ہیں۔پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں انجینئرنگ کے شعبہ جات میں کم تنخوا پر فریش لیکچرارز کی ایک کھیپ بھرتی کر لی جاتی ہے۔ جو طلبہ کو رٹا بازی کا ماہر بنا کر GPA کی ریٹ ریس پر لگائے رکھتے ہیں۔پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں وزٹنگ فکیلٹی کا رواج فروغ پا چکا ہے۔ جہاں تجربہ کار پروفیسر حضرات طلبہ کو اپنی پروفیشنل لائف کی سٹوریاں سنا کر چلتے بنتے ہیں۔

پروفیسر حضرات سے محض کورس کی بروقت تکمیل کے متعلق پوچھا جاتا ہے، ان سے کوئی اﷲ کا بندہ نہیں پوچھتا کہ حضور آپ نے اپنی فیلڈمیں40سال گزارے، آپ نے طلبہ کو پروفیشنل لائف کی باریکیوں، پروفیشنل پولیٹکس، جاب ڈھونڈنے کے طریقے، پرسنل گرومنگ، پروفیشنل ریلیشن شپ اور ترقی کرنے کے طریقوں میں سے کیا سیکھایا۔

بلاشبہ پاکستان انجینئرنگ کونسل نے کئی انقلابی اقدامات کیے ہیں جن میں انجینئرز کی آن لائن ویریفیکیشن ، پی ای سی کے رجسٹرڈ انجینئر، اور پروفیشنل انجینئرز کارڈ کے حصول میں مشکلات کو دور کرنا، کنٹریکٹنگ کمپنیوں کو انجینئرز ہائر کرنے پر مجبور کرنا اور پی ای سی کی ویب سائیٹ کو اپڈیٹ کرنا قابل ذکر ہیں۔لیکن ہر سال نئے چیئرمین کا انتخاب ایک مضحکہ خیز امر ہے۔

پاکستان انجینئرنگ کونسل کے تقریباً 6 ماہ الیکشن کی کمپین اور انعقاد میں گزر جاتے ہیں۔پاکستان انجینئرنگ کونسل کے چیئرمین کی اولین ترجیح الیکشن ہوتا ہے۔حکومت کو چئیرمین کی تقرری کے معاملے کو خوش اسلوبی سے ہینڈل کرنا چاہیے۔چیئرمین کی تقرری کا دورانیہ کم از کم 5 سال ہونا چاہیے۔تاکہ چئیرمین بلا روک ٹوک انجینئرز کو در پیش مسائل کو حل کر سکے۔

کنٹریکٹنگ کمپنیاں اپنی کمپنی کے Renewl کے وقت انجینئرز کو20 سے30ہزار دے کر سائن کروا لیتی ہیں۔اس ظلم کے ذمہ دار خود انجینئرز ہیں جو سالانہ تنخواہ کے چیک اور اشٹام پیپر پر بھی سائن کر دیتے ہیں۔پاکستان انجینئرنگ کونسل کے قوائد و ضوابط بہت سخت ہیں لیکن کنٹریکٹنگ کمپنیوں کو اس فراڈ کا موقع انجینئرز حضرات خود دیتے ہیں۔

ہائر ایجوکیشن آف پاکستان نے تعلیم کے فروغ کے لیے بے مثال کام کیے ہیں جن میں طلبہ و طالبات کے لیے غیر ملکی سکالرشپ کا اجرا، یونیورسٹی کی رجسٹریشن کے سخت قوانین، درجنوں فیک یونیورسٹیاں بند کرنا اور ڈیجیٹل لائبریری کا قیام سرفہرست ہیں۔ایچ ای سی کوچاہیے کہ ہر یونیورسٹی میں کیریر کونسلنگ کا ڈیپارٹمنٹ لازمی قرار دے۔ جس میں طلبہ و طالبات کو کیریر کے انتخاب، پرسنل گرومنگ، CV اور انٹرویو کی تیاری، سیلف کونفیڈینس، پروفیشنل ڈریسنگ اور کمیونیکیشن سکل جیسے گر سکھائے جائیں۔تاکہ طلبہ و طالبات کو جاب کی تلاش میں دشواریوں کا مداوا کیا جا سکے۔

ملک کے مایہ ناز سائنسدان اور وزیر سائنس و ٹیکنالوجی جناب فواد چوہدری صاحب سے گذارش ہے کہ حضوروالا! پاکستان انجینئرنگ کونسل کی کانفرنس میں 400 محکموں کو ختم کرنے جیسی خوشخبریاں سنانے اور اپوزیشن کو تہس نہس کرنے جیسے عظیم کاموں سے فرصت ملے تو بیروزگار انجینئرز کی نوکریوں کے لیے بھی کوئی لائحہ عمل طے کر دیں۔

Muhammad Abdullah
About the Author: Muhammad Abdullah Read More Articles by Muhammad Abdullah: 3 Articles with 2644 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.