اسلام کی تاریخ ایسی عظیم شخصیات سے بھری پڑی ہے جنہوں نے
اعلائے کلمۃ الحق اور خدمت خلق کے جذبے سے ہم کنار ہو کر کارہائے نمایاں
سرانجام دیے۔ اللہ تعالی جس کی قسمت میں دین اسلام کی خدمت لکھ دیتا ہے پھر
اس کے راستے میں ظاہری اسباب کے فقدان اور حالات کی سختی یا کسی بھی قسم کی
رکاوٹیں حائل نہیں ہو سکتیں۔ محمد بن قاسم بھی ایسی شخصیات میں سے ایک ہیں
جنہیں اللہ تعالی نے اپنے دین کی سربلندی کے لیے چن لیا تھا۔وہ ایسی قوم
میں سے تھے جو بستر پر مرنے کو عار محسوس کرتے تھے ۔کم عمری میں ہی بڑی بڑی
مہمات سے ٹکراگئے۔ جب اللہ تعالی نے سندھ کو مسلمانوں کے لئے اس کے ہاتھوں
فتح دلوائی تو اس کی عمر سترہ برس سے زیادہ نہیں تھی۔
آپ 695ء میں طائف کے مشہور قبیلے بنو ثقیف میں پیدا ہوئے۔ آپ بچپن کی عمر
میں ہی تھے کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ آپ فولادی جگر رکھنے والے، بلند
خیالات، مستحکم ارادے اور بہادری کے جوہر سے مالا مال تھے۔ خلیفہ وقت حجاج
بن یوسف آپ کے چچا زادبھائی تھے۔ اس نےآپ کی ذہانت اور جوش و جذبے کو دیکھ
کرآپکو بصرہ کے عسکری سکول میں تعلیم دلوائی۔پھر میدان جنگ میں عملی تربیت
کے لیے انہیں مختلف محاذوں پر بھیجا۔آپ نے قتیبہ بن مسلم کے نائب کی حیثیت
سے خراسان اور ترکستان جانے والے جہادی قافلوں میں شرکت کی۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے دور میں مسلمان تاجر ہندوستان میں
آچکے تھے۔ سندھ کے علاقوں میں ابھرنے والی نئی اسلامی ریاست روز بروز وسیع
سے وسیع تر ہوتی گئی۔ ان میں ایک چھوٹا سا جزیرہ یاقوت (موجودہ نام سری
لنکا) بھی تھا۔ اس جزیرہ میں کچھ بےیار و مددگار اور بیوہ مسلمان عورتیں
بھی تھیں جن کے آباؤ اجداد مختلف جنگوں میں وفات پا چکے تھے۔جزیرہ کے
مسلمان بادشاہ نے انہیں واپس حجاج کے ہاں بھیجا تاکہ اپنے خاندان کے ساتھ
جا ملیں۔ان کا قافلہ جب دیبل کے مقام پر پہنچا تو ڈاکوؤں کا ایک چاق و
چوبند گروہ ان پر آ نکلا۔ انہوں نے سامان لوٹ لیا اور خواتین کو قید کرلیا۔
ان بےبس عورتوں کی آہ و فغاں وقت کے بادشاہ حجاج بن یوسف کے کانوں سے جا
ٹکرائی۔حجاج نے ان کی فریاد پر لبیک کہا اور راجہ داہرکو خط لکھ کرپیغام
بھجوایا کہ آپ کے علاقے دیبل کے ڈاکوؤں نے ہماری عورتوں کو پکڑ لیا ہے وہ
انہیں چھوڑ دیں۔ راجہ داہر نے اس طرف کوئی توجہ نہ کی اور کہا:”یہ کام
سمندری ڈاکوؤں نے کیا ہے۔میں اس معاملے میں بے بس ہوں۔“
اس جواب کے بعد حجاج بن یوسف نے سندھ پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔اس نے ابن
نبہان اور بدیل کی قیادت میں یکے بعد دیگرے جنگی دستے بھیجے لیکن کامیابی
حاصل نہ ہو سکی۔ بالآخر حجاج بن یوسف نے محمد بن قاسم کے جذبے اور شجاعت کو
دیکھتے ہوئے سترہ سال کی عمر میں چھ ہزار جنگجو دے کر راجہ داہرکو سبق
سکھانے کےلیے بھیجا۔وہ مکران کے راستے قندوز اور امائیل شہروں کو فتح کرتے
ہوئے دیبل شہر میں آن پہنچا۔ یہاں بری و بحری فوجیں آمنے سامنے ہوئیں۔
اسلامی لشکر نے راجہ داہر کی اپنے سےکئی گنا بڑی فوج کا سامنا کیا جس میں
پہلے ہاتھیوں کی صف تھی، پھر دس ہزار سوار اور تیس ہزار پیدل سپاہ تھی۔
جواں سال سپہ سالار نے شاندار جنگی حکمت عملی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خندق
کھدوائی۔ ایک بھاری بھرکم منجنیق نصب کروائی۔ دیبل کا صنم بہت بلندی پر نصب
تھا، اسلامی فوج نے اس مجسمے کو ہر طرف سے گھیرے میں لے لیا ۔ منجنیق کی
سنگ باری سے دیبل کے صنم کدہ کا پرچم گرگیا۔ جس سے اسکی فوج کی ہمت ٹوٹ گئی
اور مسلمانوں کے حوصلے بلند ہوگئے۔ قاسم بن ثعلبہ نے راجہ داہر کا کام تمام
کیا۔مسلماں قلعے کے اندر داخل ہوئے۔ اس کے لشکر نے جنگ بندی کے لیے ہتھیار
ڈال دیے۔
مسلم فاتحین نے سنگین جنگوں میں بھی اسلام کی عظیم اقدار اور روایات کو
قائم رکھا اور انسانی حقوق کا ہمیشہ خیال رکھا۔ خواتین کی حفاظت کی، عزتوں
کو محفوظ رکھا۔ فتح کے بعد محمد بن قاسم نے بھی اس روایت کو قائم رکھتے
ہوئے تقریر کی اور اعلان کیا کہ کسی کو جنگی قیدی نہیں بنایا جائے گا۔غیر
مسلموں کے ساتھ رواداری کا سلوک کیا جائے گا۔کوئی شخص مندر کی بے حرمتی
نہیں کرے گا۔ ان کے حسنِ سلوک کی وجہ سے بہت سے لوگ مسلمان ہوگئے۔ آپ نے
دیبل میں ایک مسجد تعمیر کی جو پورے سندھ میں پہلی مسجد تھی۔
اس کے بعد وہ قدیم برہمن آباد پہنچا اسے فتح کیا، پھر ساوندی شہر پہنچا
لیکن ان کو اسلامی لشکر کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔ انہوں نے امان طلب
کی تو انہیں امان دے دی۔سندھ پر حملہ کرنے کے بعد عظیم اہداف میں سے ایک
اہم ہدف ملتان بھی تھا۔ اہل سندھ کے ہاں اس شہر کا تقدس دیبل سے بھی زیادہ
تھا۔ یہاں بھی ایک بڑا بت نصب تھا جس کی پوجا ہوتی، چڑھاوے چڑھائے جاتے،
قربانی کے جانور ذبح ہوتے اور ہر وقت زائرین کا ہجوم ہوتا۔طویل مزاحمت کے
بعد اسے بھی فتح کرلیا گیا۔سقوط ملتان کے بعد وہ تمام سندھ کا امیر مقرر
ہوا۔
محمدبن قاسم نے سندھ میں دار الامارات کے دروازے کھلے رکھے۔ آنے والے وفود
کا استقبال ہوتا، مہمانوں کی ضیافت ہوتی، بنو ثقیف قوم کے لوگ فطری پر طور
پر مہمان نواز ثابت ہوئے ہیں۔ محمد بن قاسم نے اپنی اس خاندانی روایت کو
قائم رکھا۔انہوں نے سندھ میں تقریبا چھ سال گزارے۔زیادہ وقت جہاد اور جنگی
محاذوں پر گزارا۔ نئے خلیفہ سلیمان بن عبد الملک نے ان کو معزول کرکے یزید
بن ابی کبشہ کو نیا عامل مقرر کیا۔ انکی رحمدلی، معاملہ فہمی اور انصاف
پسندی کایہ عالم تھا کہ جب سندھ سے واپس جارہے تھے تو مسلمانوں کے ساتھ
ساتھ ہندو بھی زارو قطار رو رہے تھے۔
96ھ میں یزید بن ابی کبشہ نے ایک سازش کے تحت بڑی سنگدلی سے اس بطل جلیل کو
گرفتار کیا اور قید خانے میں رکھا۔وہیں بائیس سال کی عمر میں آپکی وفات
ہوئی۔
مآخذ و مراجع
1. فتوح البلدا ن للبلاذری
2. تاريخ طبرى، ابو جعفر طبری
3. فاتح سندھ ، محمد عبد الغنی حسن(ترجمہ:مولانا عبد اللہ دانش)
4. تاريخ سندھ، اعجاز الحق قدوسى
|