مہنگائی کا عفریت

پاکستان کی عوام نے گزشتہ انتخابات میں ’’تبدیلی سرکار‘‘ کو ووٹ محض اس لئے دیئے کہ انہوں نے عوام کو جو سہانے اور سبز باغ دکھائے تھے بے چاری عوام چونکہ ہمیشہ سے دھوکہ کھانے کی عادی رہی ہے اس لئے ’’تبدیلی سرکار‘‘ کی چکنی چپڑی باتوں میں آگئی اور اپنے بہتر مستقبل کے لئے نئی حکومت کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچا دیا حکومت بنتے ہی عوام کو اپنی امنگوں اورامیدوں کے بر آنے کے جو خواب تھے وہ پورے ہونے کے منتظر رہے نئی حکومت کو اقتدار میں آنے کے لئے بیساکیوں کی ضرورت پڑی جو انہیں با آسانی مہیا کر دی گئیں جن بیساکھیوں سے حکومت چل رہی ہے بیساکھیوں کے مالکان اپنے جثے سے زیادہ حصہ لینے کے لئے حکومت کو وعدوں کی پاسداری پوری نہ ہونے پہ اپنی بیساکھیاں حکومت سے واپس لینے کا ایشو بنارہے ہیں جبکہ حکومت ایک کے بعد دوسرے بحران میں دھنستی چلی جا رہی ہے کپتان نے اپوزیشن کے ایک راہنما پہ پھبتی کستے ہوئے ایک موقع پہ کہا تھا ’’مجھے پتا ہے یہ واحد حکومت جو ڈیزل کے بغیر چل رہی ہے ‘‘اور اب یوں لگتا ہے جیسے کپتان نے درست ہی کہا تھا کیونکہ حکومت’’ڈیزل‘‘ سے نہیں بلکہ بجلی پٹرول اور گیس کے سہارے چل رہی ہے ہر مہینے بجلی،پٹرول اور گیس کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ کیا جا رہا ہے پریشانی اس بات پہ لاحق ہے کہ بجلی ،پٹرول اور گیس کی قیمتوں میں جو اضافہ ہوا ہے اس میں استحکام نہیں بلکہ تواتر سے اضافہ کرنے کی نوید سنا دی جاتی ہے کبھی ہمارے ذخائر میں گندم بہت زیادہ ہوتی ہے جو ہم کم نرخوں پہ دیگر ممالک کے فروخت کردیتے ہیں جب پاکستان کی عوام کو گندم کی ضرورت پڑتی ہے تو پھر دیگر ممالک سے مہنگی گندم خریدنے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں اور جو گندم ملک کے لئے منگوائی جا رہی ہے وہ پندرہ فروری کے بعد پہنچے گی یہ ہے تبدیلی سرکار کی پھرتیاں ،وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے ملک میں آٹے کے بحران کے پیش نظر 3 لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کی منظوری دے دی ہے جس میں ملک میں جاری گندم کے بحران پر تبادلہ خیال ہواکمیٹی کو دی گئی بریفنگ میں بتایا کہ پاسکو اور پنجاب کے پاس 41 لاکھ ٹن گندم کے ذخائر موجود ہیں، کمیٹی نے آٹے کی قلت پر قابو پانے کے لئے پنجاب اور پاسکو کو فوری طور پر گندم جاری کرنے کی ہدایت کی۔کمیٹی نے 3 لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کی بھی منظوری دے دی، گندم درآمد کرنے کی اجازت 31 مارچ تک کیلئے دی گئی ہے جب کہ درآمدی گندم کی پہلی کھیپ 15 فروری تک پاکستان پہنچے گی واضح رہے کہ چند ماہ قبل ای سی سی نے ہی گندم برآمد کرنے کی منظوری دی تھی جس کے بعد 6 لاکھ ٹن گندم دیگر ملکوں کو برآمد کی گئی تھی ملک میں آٹا کی قلت کا بحران سنگین سے سنگین ہوتا جا رہا ہے نوٹس لیتے ہوئے آٹا مافیا کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کا حکم دیا جاتا ہے جو بعد میں ہوا میں اڑا دیاگیا ایک کلو آٹے کی قیمت بلند ترین سطح کو چھورہی ہے حکومت کے قائم کردہ یوٹیلٹی اسٹورز سے آٹا دوکانداروں کو محض 50روپے فی تھیلہ مہنگا فروخت کر کے عوام کومہنگا آٹا خریدنے پہ مجبور کیا جا رہا ہے آٹا مہنگا ہونے سے نانبائی روٹی کی قیمت بڑھا رہے ہیں نانبائیوں سے کہا جا رہا ہے پیڑے کا وزن کم کر دیں قیمت نہ بڑھائیں نانبائی بھی ہڑتال پہ جا چکے ہیں ایک وفاقی وزیر نے آٹے بحران پہ یوں تبصرہ کیا’’نومبر دسمبر‘‘میں عوام روٹی زیادہ کھاتے ہیں اس بے ڈھنگے تبصرے سے خود کو مذاق کا نشانہ بنوایا نومبر دسمبر والی بات کے وزیر سے کوئی پوچھے کیا ’’نومبر دسمبر‘‘ پہلی مرتبہ آئے ہیں ارے بھئی نومبر دسمبر ہرسال ہربار آتے ہیں پہلے تو کبھی نومبر دسمبرمیں آٹے کا بحران پیدا نہیں ہوا ، ملک بھرمیں آٹا کا بحران سنگین صورتحال اختیار کرچکا ہے منافع خوروں کی چاندی 20کلو آٹا کا تھیلہ 1200سے1300روپے تک فروخت ہونے لگا ہے جبکہ مختلف مقامات پر فی کلو آٹا 60سے 65 روپے میں فروخت ہورہا ہے جسکی وجہ سے شہریوں کو سخت مشکلات کا سامنا ہے ابھی آٹا بحران ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا چینی کے نرخوں نے پر نکالنے شروع کر دیئے ہیں لگتا ہے چینی کا بھی بحران آنے کو تیا ہے ملک میں ایک کلو چینی کی قیمت 80روپے تک پہنچ چکی ہے موجودہ بحرانوں کا جائزہ لیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ان بحرانوں کے پیچھے غیروں سے زیادہ حکومت کے اپنے ہیں حکومت وقت کو چاہئے کہ عوام کو مہنگائی کے عفریت سے جتنی جلد ممکن ہو نجات دلائی جائے ۔
 

Dr B.A Khurram
About the Author: Dr B.A Khurram Read More Articles by Dr B.A Khurram: 606 Articles with 470028 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.