مشرقی وسطیٰ کشیدگی کے عالمی اثرات
(Prof Shoukat Ullah, Banu)
تین جنوری 2020 ء کو پاک ایران جوائنٹ
بارڈر کمیشن کا تیئس واں اجلاس چیف سیکرٹری بلوچستان اور ڈپٹی گورنر سیستان
بلوچستان کی سربراہی میں منعقد ہوا جس میں دونوں ملکوں کے سول و عسکری حکام
نے بھی شرکت کی۔ اجلاس اس اتفاق پر اختتام پذیر ہوا کہ پاکستان اور ایران
دو اچھے اور بہترین ہمسائیہ ممالک ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی و
معاشی سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے گا جس سے مقامی لوگ اور کاروباری حلقے
معاشی طور پر مستحکم ہوں گے۔اس دن جہاں پاک ایران سرحدوں پر مسائل کے حل
اور امن کی فضا قائم کرنے کے معاہدے طے پارہے تھے تو وہاں دوسری جانب عراق
میں امریکی ڈرون حملہ ہوا جس میں ایرانی پاسداران انقلاب کی القدس فورس کے
سربراہ جنرل قاسم سلیمانی اور ان کے متعدد ساتھیوں کی ہلاکت واقع ہوئی۔ اس
واقعہ سے مشرق وسطیٰ میں جاری کئی دہائیوں سے بے یقینی اور عدم استحکام کی
صورت حال کو ہزاروں وولٹ بجلی کا جھٹکا لگا اور حالات کی سنگینی میں کئی
گنا اضافہ ہوا۔ اس کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نیوز کانفرنس کرتے ہوئے
کہا کہ جنرل سلیمانی نئی دہلی سے لندن تک معصوم لوگوں کو مارنے میں ملوث
تھے، انہیں مارنے کا فیصلہ جنگ روکنے کے لئے کیا گیا ہے اور امریکہ مشرق
وسطیٰ میں مزید 3500 فوجی بھیج رہا ہے۔مزید برآں یہ کہ جب امریکی محکمہ
دفاع کی جانب سے یہ تصدیق کی گئی کہ جنرل قاسم سلیمانی کو صدارتی حکم پر
ہلاک کیا گیاہے تو ایران کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا۔ ایران کے رہبر
آیت اﷲ خامنائی ، صدر حسن روحانی ، وزیر خارجہ جواد ظریف اور سپریم کونسل
نے انتہائی سخت الفاظ میں کہا کہ جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت میں ملوث ذمہ
داروں سے سخت انتقام لیا جائے گا۔ یاد رہے کہ بغداد میں امریکی سفارت خانے
پر حملے کا الزام ٹرمپ حکومت کی جانب سے ایران پر لگایا گیا تھا اور اُن کا
کہنا تھا کہ اس حملے میں ایران کا ہاتھ ہے اور یہ کہ اسے پوری طرح ذمہ دار
ٹھہرایا جائے گا۔ امریکی سینیٹر مارکو روبیو نے اپنی ٹویٹ میں اس واقعہ کا
براہ راست ذمہ دار ایران کو ٹھہرایا تھا۔ مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کی اس نئی
لہر پر عالمی برادری کی جانب سے مذمتی بیانات کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس ساری
تشویش ناک صورت حال کے تناظر میں پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے دو ٹوک
الفاظ میں پاک سر زمین کو کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کا عزم
ظاہر کیا کیوں کہ نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی عالمی
جنگ میں حصہ لینے پر پاکستان کی معیشت ، معاشرت ، سیاست ، قومی سلامتی اور
داخلی امن کڑی آزمائشوں سے گزرا۔ امریکی کانگریس کی سپیکر نینسی پلوسی نے
کھلے الفاظ میں ڈونلڈ ٹرمپ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ انہوں نے
جنرل سلیمانی کو نشانہ بنانے سے پہلے کانگریس سے کوئی مشورہ نہیں کیا۔ اس
کے علاوہ صدارتی امیدوار برنی سینڈر ، جوبائیڈن اور الزبتھ وارن سمیت متعدد
سیاست دانوں نے عراق میں جنرل سلیمانی کی ہلاکت پر صدر ٹرمپ کے احکامات کی
مذمت کی۔
امریکہ اور ایران کے مابین مخاصمت اگرچہ کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن صدر
ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات نہایت تناؤ کا
شکار رہے ہیں۔ خیال رہے کہ سعودی عرب کے دارالخلافہ ریاض میں منعقد ہونے
والی امریکہ عرب اسلامی کانفرنس میں ایران کو مدعو نہیں کیا گیا تھا جس میں
امریکہ اور سعودی عرب سمیت 55 اسلامی ملکوں کے سربراہوں اور مندوبین نے
شرکت کی تھی۔ موجودہ مشرق وسطیٰ کی تشویش ناک صورت حال میں اس بات سے فرار
ممکن نہیں ہے کہ اگر خطے میں کوئی غیر معمولی صورت حال پیدا ہوتی ہے تو اس
سے عالمی دنیا کا درجہ حرارت خطرناک حد تک بڑھ سکتا ہے ، یعنی عالمی سیاست
، معیشت اور معاشرت سب متاثر ہوں گی جس کی بنیادی وجہ پیٹرولیم کی مصنوعات
ہیں۔ ان مصنوعات کی ترسیل و فراہمی اسی خطے سے دوسرے ممالک کو کی جاتی ہے
اور یہ سب عملی طور نظر بھی آیا، یعنی کشیدگی میں اضافے سے تیل عالمی
منڈیوں میں مہنگا ہو گیا۔ لندن میں بینٹ کروڈ 2.14 ڈالر اضافے کے ساتھ
68.35 ڈالر فی بیرل اور جب کہ یو ایس کروڈ 1.87 ڈالر اضافے کے ساتھ 63.05
ڈالر فی بیرل پہنچ گیا۔ یو ایس ویسٹ ٹیکساس انٹرمیڈیٹ میں خام تیل 1.68
ڈالر یا 2.8 فیصد اضافے کے ساتھ 62.86 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئی جو یکم مئی
2019 ء کے بعد سب سے زیادہ اضافہ ہے۔امریکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے
مطابق سرمایہ کاروں میں بڑے پیمانے پر جغرافیائی و سیاسی غیر یقینی کیفیت
کی بناء پر شنگھائی اور ہانگ کانگ میں بینچ مارکس میں کمی اور جب کہ جاپانی
مارکیٹوں میں کام ٹھپ ہوگیا۔ پس اس تناؤ کی کیفیت سے پیدا ہونے والے عالمی
اثرات میں اعتدال لانا پڑے گا جس میں پاکستان اور اسلامی ممالک کا مصالحت و
مفاہمت کی بنیادوں پر کردار و عمل نہایت اہم ہوگا تا کہ خطے میں امن و
سلامتی کے ماحول کو یقینی بنایا جاسکے۔ اس سلسلے میں اقوام عالم کی تنظیم
اقوام متحدہ سے تناؤ میں کمی لانے کی اُمید رکھنا بے کار ہے۔ علامہ محمد
اقبال ؒ اُمت مسلمہ کی موجودہ حالات کا ذمہ دار غیر مسلم قوتوں کے سیاسی ،
سماجی اور جارحیت کے دباؤ کو قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں۔
ہوگئی رسوا زمانے میں کُلاہِ لالہ رنگ
جو سراپا ناز تھے، ہیں آج مجبورِ نیاز
حکمت مغرب سے ملت کی یہ کیفیت ہوئی
ٹکڑے ٹکڑے جس طرح سونے کو کر دیتا ہے گاز
|
|