*وزیراعظم عمران خان کا دورہ لاھور اھم قرار دیاجا رھا ھے
/ دورہ لاھور کے دوران عمران خان گورنر ھاؤس لاھور میں تحریک انصاف کے باغی
اراکین پنجاب اسمبلی سے ملاقات کریں گے جبکہ اس کے علاوہ کئی اھم اجلاس
ھونگے جن میں سنجیدگی سے غور کیاجائیگا کہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی
بیوروکریسی سمیت انتظامی امور پر گرفت کیوں نہیں ھے اور تحریک انصاف کے
اراکین اسمبلی سمیت اتحادی جماعتوں کے ان سے کیا تحفظات ہیں؟ باوثوق ذرائع
کیمطابق عمران خان کا دورہ لاھور نہایت اھم ھے جس میں درپیش سیاسی چیلنجز
کے حل کیلئے آخری موقع درکار ھوگا کہ اس پر درست فیصلےکئے جائیں وگرنہ
آئندہ پنجاب میں عثمان بزدار کو ھٹانا ناگزیز ھوگا۔۔ تجزیہ کاروں کیمطابق
موجودہ صورتحال جو پنجاب کیساتھ ساتھ بلوچستان جبکہ سندھ میں تحریک انصاف
کی خراب ترین یکطرفہ منصوبہ بندی و سیاسی حکمت عملی کی ناکامی سے آئندہ
بالخصوص کراچی سے تحریک انصاف کے ووٹ بنک کا صفایا ھوگا۔ دیکھنا یہ ھے کہ
درپیش اندرون ملک خراب اکانومی صورتحال سمیت سیاسی عدم استحکام کے شکار اس
ملک میں سیاسی استحکام کی بحالی اور عوامی بےچینی کو دور کرنے کیلئے بڑی
قومی سیاسی جماعتیں کیا کوئی مثبت کردار ادا کریں گی؟ اور چونکہ سالانہ بجٹ
2019ء میں ٹیکس حصول کے جو اہداف FBR نے IMF کی ایماء پر رکھے تھے وہ پورے
کرنے میں حکومت مکمل ناکام واضح ھورہی ھے بلکہ FBR کے ماھانہ وار ٹیکس حصول
کےاھداف آج آدھے بھی حاصل نہیں ھو رھے جبکہ حکومتی وزراء آئے دن یہ دعوا
کرتے نظر آتے ہیں کہ غیر ملکی قرض کا بڑا حصہ ورلڈ بنک کو ادا کردیاگیاھے
اس دعوے کے نتیجے میں پاکستانی عوام کو ڈالر کی گرانی میں کمی دیکھنے میں
نہیں آئی اور نہ سرمایہ کاروں کا اندرون ملک اعتماد بحال ھوتا نظر آرھاھے
بلکہ پے در پے ٹیکسز کے اضافے سمیت پٹرولیم مصنوعات اور یوٹیلٹی بلز کے
ریٹس و دیگرز میں تسلسل سے اضافہ کیاجارھاھے۔ مقامی انڈسٹریز کا گلا گھونٹ
دیا گیاھے جس باعث سرمایہ کاروں کااعتماد مجروح ھوا جنہوں نے انویسٹمنٹ
کرنے سے ھاتھ کھینچ لیاھے جبکہ ریئل سٹیٹ کاروبار سے منسلک ریت، سیمنٹ،
سریا، سامان ھارڈویئر، لکڑی، اینٹوں کی قیمتیں تقریبا ڈبل ھونے سے کاروبار
ٹھپ ھوچکےہیں جس سے ہنر مند و مزدور طبقہ بڑی تعداد میں بیروزگار ھورھاھے۔
کرپشن کم ھونے کی بجائے اسکے نئے بڑے ریکارڈ بن رھے ہیں جن میں حکومتی
وزراء کے نام سامنے آرھے ہیں۔ آٹا، چینی، اجناس سمیت دیگر بحران ابھی تک
قائم دائم ھے اور نہ رکنے والی بڑھتی قیمتوں نے عوام کی چیخیں نکال دی ہیں۔
آٹو کار انڈسٹری 60 فیصد بند ھوچکی جو پلانٹ چل رھے ہیں انکا معیار یہ ھے
کہ گاڑی کی باڈی کیلئے ھلکے ٹین ڈبے استعمال کررھے ہیں اور ایئر بیگ کے
بغیر ان گاڑیوں کی قیمتیں آسمان تک جا پہنچی ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت میں
ھر شعبہ زندگی متاثر شدید ھورھاھے۔ شعبہ زندگی سے متعلقہ روزمرہ استعمال کی
عام اشیائے خوردونوش و سبزی، پھل اور گوشت کی قیمتوں نے عوام کو بوکھلا کر
رکھ دیاھے۔ ادویات کی قیمتوں میں 400 فیصد اضافہ کردیاگیا۔ ان ادویات کے
معیار کو چیک کرنیوالا بھی کوئی نہیں۔ بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھانا فیشن
بنادیاگیاھے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ بھی معمول بن چکاھے اور
پٹرول پمپس گاڑیوں میں کم پیمائش پٹرول ڈال کر قیمت مکمل وصول کررھے ہیں
اور انہیں کوئی چیک کرنے والا نہیں۔ گراں فروشی انتظامیہ کی ملی بھگت سے
سرعام ھو رھی ھے۔۔ عوام کے بنیادی حقوق سے متعلقہ بلدیاتی ادارے وجود میں
نہیں۔ سرکاری ڈسپنسریاں اور ھسپتال میں مریضوں کا کوئی پرسان حال نہیں ھے
جبکہ تمام بڑے شہروں میں ٹریفک کا نظام اتھل پتھل ھوچکا ھے۔ ہیوی ڈیوٹی
ٹریفک دن کے اوقات میں شہروں میں داخل کرا کے نوجوانوں اور شہریوں کو کچل
کر انکا قتل عام کیا جا رھا ھے ان معاملات میں اعلی ٹریفک انتظامیہ براہ
راست ملوث ھے۔ ایکسیڈنٹ میں ھونیوالی ھلاکتوں کی خوفناک رپورٹس تمام تھانوں
سے طلب کی جاسکتی ہیں اور ان تمام معاملات کو میڈیا سے دانستہ دور رکھا
جارھا ھے۔۔ زرعی زمین کیلئے بننے والے ٹریکٹرز ٹرالیاں سارا دن اینٹوں اور
ریت سے لدی بغیر بریک اور بغیر نمبر پلیٹ شہر کی معروف بڑی شاھراھوں پر
دندناتی پھر رہی ہیں اور انہیں غیر تجربہ کار ڈرائیور جنکے کانوں میں ہینڈ
فری لگی نظر آتی ھے وہ لوگوں کو روندنے میں مصروف ہیں۔ ٹریفک کاسارے بڑے
شہروں میں جام رھنا معمول بن گیاھے اور بالخصوص لاھور جس میں سارا پنجاب
سمٹ رھاھے یہاں ٹریفک وارڈن صرف موٹرسائیکلوں و ھلکی گاڑیوں کے چالان کرتے
و دیہاڑیاں لگاتے نظر آتے ہیں۔ پنجاب کے سارے بڑے شہروں کی بڑی شاھراھوں سے
ملحقہ مارکیٹس کیساتھ ناجائز موٹرسائیکلوں اور گاڑوں کےپارکنگ سٹینڈز الگ
سے ایک بڑے مافیا کا روپ دھار چکے ہیں صرف لاھور شہر میں اسوقت 100 پارکنگ
پلازوں کی اشد ضرورت ھے ۔ ناجائز پارکنگ سٹینڈز ٹریفک میں خلل ڈالے ھوئے
ہیں۔۔ پنجاب حکومت لاھور سمیت بڑے شہروں میں ضروری جگہوں پر ٹریفک بہاؤ
برقرار رکھنے کیلئے یوٹرن بنانے میں ناکام جبکہ پنجاب کے دارالخلافہ لاھور
کے واحد داخلی راستے شاھدرہ کے مقام پر سگنل فری پل بنانے کی بجائے ٹریفک
فرسودہ اشارے لگاکر ٹریفک بہاؤ کا مزید خانہ خراب کردیاھے۔ ورلڈ بنک کے
سروے کیمطابق راوی پل سے روزانہ کی بنیاد پر 40 لاکھ افراد روزگار کےحصول
کیلئے شہر لاھور میں داخل ھوتے ہیں مگر اس اھم مسئلے کیجانب توجہ ہی نہیں
دی گئی۔۔ داتا دربار جہاں انڈر پاس کیضرورت اشد ھے جبکہ لاھور پرانے اندرون
شہر کے چاروں جانب پھیلی تاریخی اھمیت کی حامل سرکلر روڈ پر اندرون شہر کے
ھر دروازے کے سامنے انڈر پاس کے بنائے جانے کی اشد ضرورت ھے جبکہ دریائے
راوی پر پہلے سے بنے پل کی گنجائش بہت کم ھے یہاں ٹریفک ھر وقت جام رھتی ھے
یہاں مزید ایک بڑے کم از کم 4 لائنوں پر مشتمل پل کی ضرورت ھے اور
گوجرانوالہ روڈ مریدکے رچنا ٹاؤن سے پہلے بمقام امامیہ کالونی پر جی ٹی روڈ
پر قائم ریلوے پھاٹک پر پل بنائے جانے کی ضرورت عرصہ 10سال سے ھے جبکہ
لاھور کا مشہور و معروف چوک شاہکام جہاں ٹریفک گھنٹوں بند رہتی ھے یہاں
ٹریفک بہاؤ کی درستگی کیلئے پل بنائے جانے کی اشد ضرورت ھے، کینال روڈ
لاہور IEME سوسائٹی، ڈی ایچ اے اشارے کی جگہ انڈر پاس کی ضرورت کےعلاوہ
ٹھوکر نیاز بیگ کینال روڈ سے بحریہ ٹاؤن کیجانب مڑنے والی سڑک پر ٹریفک
کےاژدھام کے حل کیلئے انڈر پاس کی یہاں بھی ضرورت ھے اور قدیم اندرون شہر
لاھور کی دیوار کیساتھ قائم پبلک تفریحی پارکس کے نیچے ڈبل تہہ خانوں کے
قیام سے اندرون شہر کی تمام تجارتی مارکیٹس کی گاڑیاں، لوڈر تہہ خانوں میں
بآسانی پارک کی جاسکتی ہیں اور اوپر باغ بھی بن سکتے ہیں۔۔ لاھور مال روڈ
پر انڈر پاسز ضرورت، پنجاب سول سیکرٹریٹ کے باھر انڈر پاس کی ضرورت۔ مگر یہ
سب کرے گا کون؟ میٹرو، اورینج لائن کی تعمیر بہترین مگر اسکی تعمیر کے
دوران درمیان گنجان آباد رھائشیوں کی مناسبت اور ٹریفک کے بہاؤ کیلئے یو
ٹرن نہایت کم بنائے گئے جس سے ٹریفک ون وے کا خطرناک کلچر پروان چڑھا جسوجہ
سے ھلاکتوں اور ایکسیڈنٹس میں بےپناہ اضافہ دیکھنے میں آرھا ھے اور رہی سہی
کسر دن کےاوقات میں ہیوی ڈیوٹی ٹریفک کی بندش پر عمل نہ ھونے سے سارے بڑے
شہر جام رھنے لگے اور ڈیوٹی پر موجود وارڈن صرف موٹرسائیکلوں کے چالانوں تک
محدود ھوگئے۔۔ بڑے شہروں کے تمام سی ٹی اوز ٹرانسپورٹر تنظیموں سے ماھانہ
کی بنیاد پر کروڑوں روپے وصول کرکے ھیوی ڈیوٹی وہیکلز داخل کراکے شہریوں کو
کچل کی قتل عام کرانے میں براہ راست ملوث ہیں اور ان تمام مسائل کی نشاندھی
ھر فورم پر گاھے بگاھے کی جارہی ھے اور اسکا علم وزیراعظم عمران خان سمیت
وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو بخوبی ھے مگر دانستہ آنکھیں بند کئے صرف
بیانات سے کام لےرھے ہیں اور اسوقت لاھور کو ٹریفک کے لحاظ سے تین طبقات
میں واضح تقسیم کردیاگیاھے۔ 1- لاھور چھاؤنی میں ایلیٹ کلاس کیلئے الگ
ٹریفک نظام جبکہ 43 کلومیٹر طویل رنگ روڈ پر لاھور کے شہریوں کی 40 لاکھ
موٹر سائیکلز کو گزرنے کی اجازت نہیں اور تیسرے نمبر پر باقی سارے لاھور
میں گدھےگاڑیاں، چنگ چی، پبلک ٹرانسپورٹ، ناکارہ بسیں، سست ٹریفک سمیت
ویگنوں، ٹرالوں، ڈمپروں، 22 ویلروں، پٹرول و کیمیکل ٹینکروں کو دندنانے کی
مکمل 24 گھنٹے اجازت ھے اور یہیں سب سے زیادہ ھلاکتیں ھوتی ہیں حالانہ 40
لاکھ موٹر سائیکل سواروں لاھور کے شہریوں کو رنگ روڈ کی اجازت ملنا انکا
بنیادی حق ھے انہیں اس بنیادی حق سے محروم دانستہ رکھاگیاھے۔ وعدوں کے
باوجود آج تحریک انصاف برسراقتدار آنے کے باوجود اپنی بیان کردہ پالیسیوں
سمیت درپیش گھمبیر مسائل کےحل کیلئے تبدیلیاں نہیں لاسکی جسکی امیدیں عوام
نے ان سے وابستہ کررکھی تھیں جسوجہ سے تحریک انصاف اپنے اقتدار کے پہلے
ڈیڑھ سال میں ہی اپنی مقبولیت کا گراف زیرو پر لے آئی اور ضروری مسائل سمیت
مہنگائی کنٹرول کرنے کی بجائے سارے مافیاز کو کھلی چھٹی دیدی اور سیاسی
انتقام پر اتر آئی حالانکہ ن لیگ کی حکومت کی پرفارمنس ان کے مقابلے میں
ھزاروں گنا بہتر رہی یہی وجہ ھے کہ آج ن لیگ کا ووٹ بنک میاں نوازشریف کی
موجودگی میں مزید مضبوط ھوچکاھےاور وقت نے قوم پر یہ بھی ثابت کردیاھے کہ
نوازشریف سمیت ن لیگی قیادت پر جو کیسز بنائے گئے تھے وہتمام جھوٹے ثابت
ہوئے۔ تحریک انصاف کوئی ایک بھی الزام ثابت نہ کرسکی بلکہ خود بری طرح
بینقاب ھوئی۔ تحریک انصاف کی وعدہ خلافیوں اور جھوٹ کے مہا ریکارڈز اور یو
ٹرنز نے انکی اصلیت کو ابتدائی قلیل عرصے میں ساری قوم کے سامنے بےنقاب
کردیا اور آج یہ مکمل فیل ھوجانے کے باوجود ڈھٹائی کا مظاھرہ کررھے ھیں جس
سے عوام ذھنی مریض اذیت میں مبتلا ہیں۔ درپیش حالات اگر ایسے ہی رھے تو
پبلک آپے سے باھر ھو کر ازخود سڑکوں پر سول نافرمانی کیلئے آسکتی ھے۔ یہاں
اسوقت اپوزیشن کو ملک وقوم کے بہترین مفاد میں ایک نقطے پر جمع ھو کر حکومت
کو باور کرانے کی ضرورت ھے قبل اس کے دیر ھوجائے ابھی بھی وقت ھے اپوزیشن
جماعتیں اپنا قومی کردار ادا کریں ورنہ تحریک انصاف کی بے حس حکومت اپنے
بھیانک کردار سے پاکستان کو ایتھوپیا بنا کر چھوڑے گی۔*
|