خانہ شماری متنازع کیوں؟

دنیا بھر میں 2011ء کو مردم شماری کا سال قرار دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے بیشتر ممالک میں مردم شماری کا سلسلہ جاری ہے۔ پڑوسی ملک بھارت میں بھی اس سلسلے کا ابتدائی مرحلہ حال ہی میں مکمل ہوا ہے۔ پاکستان میں چھٹی مردم شماری 2008ء میں ہونا تھی مگر بوجوہ ایسا نہ ہوسکا حالانکہ ابتدائی کام بھی ہوچکا تھا۔ مردم شماری کا بنیادی مقصد ہر حوالے سے حقیقی اعداد و شمار تیار کر کے ان کے مطابق مستقبل کے لیے منصوبہ بندی کرنا ہوتا ہے۔کیونکہ وسائل کی تقسیم، انتخابی حلقوں کی نئی حد بندیاں، انتظامی اضلاع میں اضافے سمیت تقریباً تمام ہی بنیادی مسائل کے حل اور وسائل کی تقسیم کا تعلق مردم شماری سے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں تمام ممالک جنگ کے بعد سب سے اہم فریضہ اور ہدف مردم شماری کو قرار دیتے ہیں۔ تقریباً پوری دنیا میں ہر ملک ہر 10 سال بعد ہی نئی مردم شماری کراتا ہے تاکہ گزشتہ 10سالوں کو مدنظر رکھتے ہوئے آئندہ 10سالوں کے لیے منصوبہ بندی کی جاسکے تاہم قدرتی آفات، ہنگامی صورت حال یا کسی اور بڑے مسئلے کی وجہ سے اس عمل کو جزوی طور پر موخر بھی کیا جاتا ہے۔

پاکستان میں پہلی مردم شماری 1951ء(آبادی 33740167)، دوسری1961ء(آبادی 42880378)، تیسری 1972ء(آبادی 65309340)، چوتھی1981ﺀ(آبادی84253644)اور پانچویں مردم شماری1998ﺀ(آبادی 132352279) میں فوج کی نگرانی میں ہوئی۔ چھٹی مردم شماری کے ابتدائی مرحلے، خانہ شماری کا آغاز 5 اپریل 2011ء سے ہوچکا ہے۔ پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں سے ایک ہے جہاں مردم شماری کا عمل اکثر اوقات متنازعہ رہا ہے، کبھی حکومتوں پر مداخلت کا الزام لگایا گیا تو کبھی اداروں کو نشانہ بنایا گیا۔ کبھی عوامی عدم دلچسپی وجہ بنی تو کبھی کوئی اور تنازع کا سبب ہوئی، صوبوں کے درمیان بھی اس حوالے سے کافی اختلافات رہے ہیں مگر مجموعی طور پر تمام طبقوں نے تحفظات کے باوجود ہر مردم شماری کو تسلیم کیا ہے۔چھٹی مردم شمار کی خانہ شماری کے لیے ملک بھر میں 84ہزار سے زائد شمار کنندہ گان کو ذمہ داری دی گئی ہے، جنہوں نے 19 اپریل تک خانہ شماری کے عمل کو مکمل کرنا ہے۔پاکستان میں مردم شماری کو متنازع قرار دینے کی اصل وجہ اداروں، افراد اور قیادت پر عدم اعتماد کے علاوہ استحصالی سوچ ہے۔ کچھ اسی طرح کی صورت حال 5 اپریل 2011ء سے شروع ہونے والے خانہ شماری کے عمل کو بھی درپیش ہے۔ کم از کم سندھ کی حد تک خانہ شماری کا عمل انتہائی متنازع قرار دیا جا رہا ہے۔ حکومتی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی، عوامی نیشنل پارٹی،مسلم لیگ(ف) اور تمام قوم پرستوں نے کراچی اور حیدر آباد میں سیاسی مداخلت کا الزام لگایا ہے۔ مسلم لیگ (ف) جماعت اسلامی، سندھ کے قوم پرستوں اور دیگر نے پاکستان پیپلزپارٹی اور دیگر اتحادی جماعتوں پر صوبہ بھر میں خانہ شماری کے من پسند نتائج حاصل کرنے کے لیے سیاسی مداخلت کا الزام لگایا ہے۔ اس وقت صوبے میں مجموعی طور پر دیکھا جائے تو خانہ شماری کے عمل کے حوالے سے بڑے پیمانے پر احتجاج کا سلسلہ جاری ہے جس میں دن بدن شدت آرہی ہے۔ کمشنر صوبائی مردم شماری نور محمد لغاری نے بھی پریس کانفرنس کے ذریعے عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کی مگر بعد میں ان کا اپنا ہی بیان شائع ہوا کہ خانہ شماری میں ان کا اپنا گھر بھی رہ گیا ہے۔

سندھ میں خانہ شماری کے متنازعہ ہونے کی ایک وجہ سیاسی قوتوں کے مابین عدم اعتماد اور عدم تحفظ کا احساس ہے۔ بدقسمتی سے حکومت نے بھی اتنے بڑے آپریشن کے لیے کسی منصوبہ بندی سے کام نہیں لیا بلکہ انتہائی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا گیا جس کی وجہ سے اب کم از کم سندھ کی حد تک خانہ شماری کا عمل انتہائی متنازعہ ہوچکا ہے۔ جس کا اعتراف مختلف حکومتی شخصیات کر رہی ہیں اور اسی کو بنیاد بناکر اکثر جماعتیں مہم چلا رہی ہیں، اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ آئندہ چند ہفتوں میں خانہ شماری کا عمل ملکی سیاست کا سب سے اہم ایشو بن کر سامنے آئے گا۔ سیاسی جماعتوں اور قوم پرستوں کی جانب سے جس انداز میں عدم اعتماد کا اظہار کیا جارہا ہے اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت نے بروقت مناسب اقدام نہ کیے تو فسادات کی آگ میں جلنے والے صوبے میں ایک اور طوفان کھڑا ہوگا،کیونکہ سیاسی جماعتوں نے جس انداز میں الزام تراشی کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ کم از کم اب ہونے والی خانہ شماری کے عمل کو کسی صورت تسلیم نہیں کیا جائے گا۔

سندھ میں خانہ شماری کے عمل کو متنازع قرار دینے میں پیپلزپارٹی سندھ کے رہنماﺅں کے بیانات بھی بڑا سبب بنے ہیں ،جن میں انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ خانہ شماری کا عمل انتہائی متنازع ہے، اس حوالے سے پی پی پی سندھ کی قیادت مختلف سیاسی جماعتوں سے رابطے بھی کر رہی ہے۔ قوم پرستوں کا الزام ہے کہ صوبے میں سندھیوں کو اقلیت میں تبدیل اور کراچی و حیدرآباد کو سندھ سے الگ کرنے کی سازش ہورہی ہے جبکہ مسلم لیگ (ف) کا الزام ہے کہ پیپلزپارٹی انتخابات میں من پسند نتائج کے حصول کے لیے سندھ کے مختلف اضلاع میں غلط اندراج کروا رہی ہے اور تقریباً تمام سیاسی، مذہبی اور قوم پرست جماعتیں کراچی اور حیدرآباد کے حوالے سے صوبے کی دوسری بڑی جماعت متحدہ قومی موومنٹ پر الزام لگا رہی ہیں کہ وہ کراچی اور حیدرآباد میں اپنی گرفت مزید مضبوط کرنے کے لیے خانہ شماری میں من پسند اندراج کروا رہی ہے۔ تاہم متحدہ کی جانب سے فی الحال خانہ شماری کے حوالے سے کوئی واضح بیان نہیں آیا ہے لیکن متحدہ کی مقامی قیادت خانہ شماری کے عمل میں خاصی متحرک ہے۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ مختلف سیاسی جماعتوں کے الزام تراشی کی اصل وجہ بھی متحدہ کا ضرورت سے زیادہ متحرک ہونا ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی مستقبل کی سیاست میں نئی مردم شماری کا بڑا اہم کردار ہو گا اور اگر پیپلزپارٹی نے عوامی تحفظات کو سنجیدگی سے محسوس نہ کیا تو کم از کم سندھ کی حد تک پیپلزپارٹی کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس لیے حکومت میں شامل جماعتوں کے علاوہ تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں ،قوم پرست تنظیموں اور سماجی قوتوں کو اعتماد میں لے کر حکومت خانہ شماری و مردم شماری کے عمل کو شفاف بنانے کے لیے ہر ممکن اقدام کرے تاکہ ایک حقیقی دستاویز تیار ہوسکے، کہیں ایسا نہ ہو کہ جعلی ووٹروں کی طرح ملک کی آبادی میں کروڑوں جعلی افراد کا اندراج ہو اور اصل افراد رہ جائیں ۔اگر ایسا ہوا تو مختلف طبقات میں احساس محرومی جنم لے گی۔ ایک عجیب بات یہ بھی ہے کہ حکومت میں شامل جماعتوں سمیت تمام قوتیں خانہ شماری پر عدم اعتماد کا اظہار کررہی ہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر اس عمل میں مداخلت کون؟ اور کیوں ؟کر رہا ہے۔دراصل خانہ شماری کے متنازعہ ہونے کے بنیادی اسباب حکومتی عدم دلچسپی، لوگوں کا ایک دوسرے پر عدم اعتماد،عدم تحفظ کا احساس،مفاد پرستی،موقع پرستی، استحصالی سوچ،نفرتوں میں اضافہ، ناقص انتظامات، ملک بھر میں عملے کی ناقص تربیت وغیرہ ہیں۔ اکثر عملے کو خانہ شماری کے اغراض و مقاصد اور طریقہ کا علم ہی نہیں ہے جس کی وجہ سے اگر ایک جگہ ایک شمار کنندہ ہر خاندان کو ایک گھر قرار دے رہا ہے تو دوسری جگہ ایک عمارت کو صرف ایک گھر قرار دیا جا رہا ہے چاہے وہاں متعدد گھرانے ہی آباد کیوں نہ ہوں۔

تنازع کی وجوہ متاثرین سیلاب اور متاثرین فوجی آپریشن کے علاوہ برف سے ڈھکے ہوئے دور دراز کے علاقوں (بالخصوص گلگت بلتستان ) میں عملے کی عدم موجودگی اور ضروری سامان کی عدم فراہمی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت خانہ شماری کے عمل میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرے اور جلد بازی کی بجائے مدت میں توسیع کرنے کے علاوہ اس کو شفاف بنانے کی کوشش کرے۔ اس کے علاوہ تمام سیاسی، مذہبی اور قوم پرست جماعتوں سے مشاورت کر کے کوئی مناسب حل تلاش کیا جائے جو سب کو قابل قبول ہو یہی سب کے لیے بہتر ہے۔
Abdul Jabbar Nasir
About the Author: Abdul Jabbar Nasir Read More Articles by Abdul Jabbar Nasir: 136 Articles with 106806 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.