وزیر اعظم نریندر مودی آج کل مونی بابا بنے ہوئے ہیں ۔
جامعہ ملیہ پر پولس کارروائی ہوئی تو وہ خاموش رہے ۔ بہت دیر کے بعد بولے
تو یہ بولے کہ ہم فسادیوں کو لباس سے پہچانتے ہیں ۔ اس کے بعد جے این یو پر
نقاب پوش دہشت گردوں نے حملہ کیا تب بھی وہ چپی ّسادھے رہے ۔ اب ایک رام
بھکت نے دن دہاڑے جامعہ میں مظاہرین پرگولی چلادی پھر بھی نیوزی لینڈ کے
حملے پر ٹویٹ کرنے والا وزیر اعظم کمبھ کرن کی نیند سوتارہا ہے۔ کیا یہ
شرمناک بات نہیں ہے؟ مودی جی نے ملک کے سلگتے مسائل کو سلگائے رکھنے کا
ٹھیکہ فی الحال امیت شاہ کو دے رکھا ہے اور خود پروچن سنا رہے ہیں ۔ یہ کا
پرانا شوق ہے جس میں مہارت حاصل کرنے کےلیے وہ لڑکپن میں گھر سے بھاگ کھڑے
ہوئے تھے ۔ اس کے بعد سنسار سے سنیاس لینے کے بجائے انہوں نےسنگھنیا س لے
لیا اور بالآخر سنگھاسن تک پہنچ گئے مگر پروچن کا شوق نہیں گیا ۔ اس لیے
جب بھی انہیں موقع ملتا ہے اسے نہیں گنواتے اور موقع بموقع بھاشن داغتے
رہتے ہیں ۔
مودی جی کو کسی احمق بھکت نے انہیں یہ بتا دیا کہ عنقریب طلباء کے امتحانات
ہونے والے ہیں تو وہ فوراً ’’پریکشا پر چرچا ۲۰۲۰‘‘ کرنے بیٹھ گئے۔ اس
پروگرام کے تحت انہوں نے اساتذہ، طلباء اور ان کے والدین کو جی بھر کے
نصیحتیں کرڈالیں حالانکہ امتحان کو ابھی دوماہ باقی ہیں اور ویسے بھی یہ ان
کا کام نہیں ہے۔پریکشا پر چرچا کرتے ہوئے مودی جی نے یہ انکشاف کیا کہ ۲۰۲۰
نہ صرف ایک نیا سال بلکہ نئی دہائی کی ابتداء ہے ۔ اس حقیقت کا علم تو کے
جی کلاس میں پڑھنے والوں بچوں کو بھی ہے لیکن اس کے آگے انہوں نے جوبات
کہی اسے سن کر اساتذہ کے ساتھ بچوں کے والدین بھی کھکھلا کر ہنس دیئے ہوں
گے۔وزیراعظم نے کہا اس دہائی میں دیش کے وکاس(ترقی) میں سب سے زیادہ ۱۰ ویں
اور ۱۲ویں کے طلباء کا کردار ہوگا۔
وزیراعظم کی زبان سے بہت طویل عرصے کے بعد وکاس کا لفظ سن کر ایسا لگا کہ
وہ کسی طالب علم کو مخاطب کررہے ہیں ۔ اس کے بعد یاد آیا اس بیچارے کی تو
پلوامہ کے دھماکے میں موت ہوگئی کون جانے اس میں دیویندر سنگھ نے کیا کردار
ادا کیا تھا؟ اس لیے کہ وہی پلوامہ پولس تھانے کا انچارج تھا۔ وزیراعظم کے
ذریعہ وکاس کی تعزیت کا شکریہ ادا کرنے سے قبل اچانک احساس ہوا کہ انہوں نے
کمال ہوشیاری سے قومی ترقی کی اپنی ذمہ داری ان معصوم طلباء کے سرمنڈھ دی
جو اس کا مفہوم تک نہیں جانتے اور ایک امتحان سے گزرنے والے ہیں ۔ اس میں
کامیاب ہونے کے باوجود ان کی آزمائش ختم نہیں ہوگی بلکہ بڑھ جائے گی
کیونکہ ملک کے اندر ملازمت حاصل کرنا فی الحال جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
اس طرح وزیراعظم نے اپنی سرکار اور جماعت کو اس اہم ذمہ داری سے فارغ
کردیا۔ اسے کہتے ہیں ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ آئے چوکھا۔ اب اگر ملک
میں وکاس نہیں ہوا تو اس کے لیے سرکار نہیں بلکہ طلباء قصوروار ہوں گے۔
ملک میں بیروزگاری کی شرح فی الحال آزادی کے بعد سب سے زیادہ ہے لیکن
وزیراعظم اور وزیرداخلہ کو انتخابی مہم سے فرصت نہیں ملتی ۔ طلباء کے
والدین اور اساتذہ کو مخاطب کرتے ہوے معیشت کی زبوں حالی پر گفتگو کرنے
بجائے وزیراعظم نے چندرا یان کی ناکامی کو یاد کرتے ہوئے فرمایا کہ’ناکامی
بتاتی ہے کہ آپ کامیابی کی سمت بڑھ گئے‘۔ کاش کہ مودی جی پچھلے قومی
انتخاب میں ناکام ہو کرکامیابی کی جانب بڑھ جاتے تو ملک ترقی کی جانب قدم
بڑھا تا لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوا۔ مودی جی کی کامیابی پوری قوم کو
ناکامی کی گہری کھائی میں لے گئی ۔مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے اور اس کے
غم میں وزیرخزانہ نرملا سیتا رامن نے پیاز اور لہسن کھانا چھوڑ دیا ہے لیکن
اب اس طرح کی ناٹک بازی سے کام نہیں چلے گا۔ عوام کو نہ تو سی اے اے سے
بہلایا جاسکے گا اور این آر سی میں الجھایا جاسکے گا۔ وہ ان پاکھنڈیوں کی
سبق سکھا کر رہیں گے اور اس کی ابتداءیونیورسٹی کے طلباء نے کردی ہے۔
ملک بھر کی دانشگاہوں میں یکے بعد دیگرے آر ایس ایس کی طلبا تنظیم اکھل
بھارتیہ ودیارتھی پریشد کو شکستِ فاش سے دوچار ہونا پڑرہا ہے۔ بدقسمتی سے
حکمراں بی جے پی کی نااہلی و ناکامی کی قیمت اس کی سرپرستی میں چلنے والی
اے بی وی پی چکا رہی ہے۔ حال میں گجرات کی مرکزی یونیورسٹی میں طلبا یونین
کے انتخابات ہوئے اور اس میں اے بی وی پی کو تمام پانچ نشستوں پر ہار کا
سامنا کرنا۔یہ ذلت آمیز شکستاگرآدرش گجرات میں ہورہی ہے تو ملک دیگر
علاقوں میں طلباء برادری کے اندر پائی جانے والی بے چینی کا اندازہ لگانا
مشکل ہے۔ اس تبدیلی کو دیکھ کر وزیراعظم کا وہ جملہ یاد آتا ہے کہ اس
دہائی میں سب سے اہم کردار طلباء کا ہوگا یعنی نئی نسل وکاس کے قاتلوں کو
ضرور کیفرِ کردار تک پہنچائے گی۔
گجرات یونیورسٹی کے انتخاب میں تمام بی جے پی مخالف طلباء تنظیموں کو ایک
ایک نشست پر کامیابی ملی بلکہ ایک آزاد امیدوار بھی جیت گیا لیکن زعفرانی
ہاتھ ملتے رہ گئے۔ کانگریس کی طلبا تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس یونین آف انڈیا
(این ایس یو آئی) ، دلتوں کی برسا امبیڈکر پھولے اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن (بی
اے پی ایس اے)، سی پی آئی کی اسٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا (ایس ایف آئی) اور
لیفٹ ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن (ایل ڈی ایس ایف) کے اتحاد نے چار نشستوں
پر قبضہ کیا جبکہ ایک نشست پر آزاد امیدوار کے حصے میں آئی ۔بی اے پی ایس
اے کے امیدوار اشرف نے سوشل سائنس میں کل 167 ووٹوں میں سے 114، ایل ڈی ایس
ایف کی پراچی لوکھنڈے نے بین الاقوامی تعلقات میں کل 38 ووٹوں میں سے 30
اور ایس ایف آئی سے چترنجن نے کل 166 میں سے 94 ووٹ حاصل کیے۔ دوسرے دو
جیتنے والے امیدواروں میں ماحولیاتی سائنس سے ترون کمار اہیروار اور
لائبریری سائنس سے این ایس یو آئی کے وجیندر کمار شامل تھے۔
اس انتخاب میں کامیابی کے لیے طلباء کو ڈرانے دھمکانے کی خاطر اکھل بھارتیہ
ودھارتی پریشد (اے بی وی پی) ممبران نیشنل اسٹوڈنٹس یونین آف انڈیا (این
ایسیو آئی) کےجواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے اینیو) کے طلبا پر حملہ کے
خلاف پر امن احتجاج کرنے والے طلباءپر لوہے کی سلاخوں سے حملہ کرکے 12
افرادکو زخمی کردیا تھا جن میں سے چار کی حالت نازک تھی ۔ ریاست سرکار کی
سرپرستی میں کی جانے والی اس غنصہ گردی کا انتقام طلباء برادری نے اے بی وی
پی کو سبق سکھا کر لے لیا ۔ اس سے قبل مودی جی کے اپنے حلقۂ انتخاب
وارانسی کے سمپورنند سنسکرت وشو ودیالیہ کی طلبا یونین کے انتخابات میں بھی
چاروں نشستوں پر اے بی وی پی کو شکست سے دوچار ہونا پڑا اور اب اپنے صوبے
گجرات میں یہی حالت ہوئی اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے نوجوان نسل ان کے
بارے میں کیا سوچتی ہے؟ اور بی جے پی کا مستقبل کس قدر تاریک ہے؟
بی جے پی کے خلاف طلباء کی بے چینی کا اظہار صرف یونین کے انتخاب میں
کامیابی تک محدود نہیں ہے۔ کوچی شہر کی سری شنکر آچاریہ یونیورسٹی آف
سنسکرت ( ایس ایس یو ایس ) نے شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف
قرارداد منظور کرکے اپنی صوبائی سرکار کی مانند پیش رفت کرکے ایسا کرنے
والی پہلی یونیورسٹی بن جانے کا اعزاز حاصل کرلیا ۔ اس کالے قانون کے خلاف
قرارداد منظور کرنے کے ساتھ یونیورسٹی کے 15ارکان پر مشتمل یونین کےرہنماوں
نے کہا کہ طلبہ ، اساتذہ اور اسکالرس کے خلاف تشدد کو برداشت نہیں کیا جائے
گا ۔ اس قرارداد میں مزید کہا گیا ہے کہ بی جے پی حکومت ہر اُس آواز کو
دبانے کیلئے تشدد کا راستہ اختیار کررہی ہے اور خاص کر ملک کے نوجوانوں پر
حملہ کیا جارہا ہے ۔
جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں طلبہ نے جب فیس میں اضافہ کے خلاف احتجاج کیا
تھا تو ان پر حملہ کیا گیا تھا جب کہ ملک کی دیگر جامعات کے کیمپس میں
شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبہ کو بھی تشدد کا نشانہ
بنایا جارہا ہے ۔ بی جے پی حکومت پولیس اور غنڈوں کا استعمال کرتے ہوئے
طلبہ پر ظلم کررہی ہے اور ان کی آواز دبانے کی کوشش کررہی ہے ۔ یونیورسٹی
نے دیگر اکادمی سے تعلق رکھنے والے مراکز سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ طلبہ
اور اساتذہ پر ہونے والے خوفناک ظلم کے خلاف سخت احتجاج کریں ۔ بی جے پی
نےاپنے خلاف ہونے والے احتجاج کو جب بھی بزورِ قوت دبانے کی کوشش کی تو اسے
خسارہ اٹھانا پڑا۔ گجرات سے کر آسام اور دہلی سے کیرالہ تک یہی ہوتا رہا
ہے لیکن وہ اس سے عبرت نہیں لے رہی ہے۔ جامعہ میں رام بھکت کے ذریعہ کی گئی
حالیہ حماقت اسے دہلی کے انتخاب میں لے ڈوبے گی ۔ بی جے پی کی بھلائی اس
میں ہے کہ وہ اپنے جابرانہ رویہ سے باز آجائے ورنہ طلباء اور نوجوانوں کی
آندھی اسے اڑا کر لے جائے گی ۔ مودی جی کی اصل اگنی پریکشا طلباء کو اپنا
ہمنوا بنانے کے امتحان میں کامیاب ہونے کی ہے۔وہ اگر اس میں فیل ہو گئے تو
پریکشا پر چرچا ان کے کسی کام نہیں آئے گی۔
|