باپو ہم شرمندہ ہیں ، تیرے قاتل زندہ ہیں

30 جنوری 1948 کے دن شام کے وقت دعائیہ جلسہ کے لیے جاتے ہوئے مہاتما گاندھی کو دہلی کے بڑلا بھون میں ناتھو رام گوڈسے نے اپنی نیم خودکار پستول سے تین گولیاں مار کر قتل کر دیا ۔ اس سانحہ کے ۷۲ سال بعد ناتھورام گوڈسے کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے رام بھکت گوپال نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلباء پر یہ کہہ کر گولی چلادی کہ ’’ آزادی چاہیے ۔ یہ لو آزادی ‘‘۔ اس گولی باری میں شاداب فاروق نامی طالبعلم زخمی ہوگیا۔ آزادی کے علمبرداروں پر گولی چلانے کی روایت کو آگے بڑھانے والے رام بھکت گوپال کو بھی اسی طرح فوراًگرفتار کرلیا گیا جس طرح گاندھی جی کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ان دونوں قاتلوں کے درمیان نظریہ اور اغراض و مقاصد کے علاوہ نام میں بھی غضب کی مشابہت پائی جاتی ہے۔ رام کا نام دونوں جگہ مشترک ہے ۔ ایک نتھو رام اور دوسرا رام بھکت ۔ 15 ا نومبر 1949 کے دن گوڈسے کو تو پھانسی پر لٹکا دیا مگر کیا وہ مبارک ساعت پھر سے آئے گی کہ جب گوپال کو سزا سنائی جائے گی۔ آثار بتا رہے ہیں کہ وہ دن کبھی نہیں آئے گا۔

جمہوریت میں اقتدار کی خاطر حکمراں رائے عامہ کا غلام ہوتا ہے۔ وہ عوام کی ناراضگی سے بچنے کے لیے عدل و انصاف کو پامال کرکے اپنا اقتدار بچا لیتے ہیں ۔ فی الحال اس جمہوی ملک کی رائے عامہ مسلمانوں کے قاتلوں کو سزا دینے کے حق میں نہیں ہے اس لیے جمہوری نظام کی سیڑھیوں پر چڑھ کر اقتدار پر فائز ہونے والوں سے یہ توقع فضول ہے کہ وہ رام بھکت گوپال کو کیفرِ کردار تک پہنچائیں گے ۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ بی جے پی اقتدار میں رہے یا نہ رہے اور کانگریس کی حکومت بن جائے یا کوئی اور سرکار بنائے ،رام بھکت گوپال کی حفاظت کے لیے جمہوری نظام حکومت کافی ہے۔۷۰ سال قبل اس سیاسی نظام کے تحت گوڈسے کو تو سزا ہوئی مگر یہ ساورکر کو سزا نہیں دے سکا ۔ آج ساورکر کے ماننے والے اقتدار پر فائز ہوکر اس کے نظریات کو فروغ دے رہے ہیں اور انوراگ ٹھاکور جیسے لوگ اپنے مخالفین کو دیش کا غدار ٹھہرا کر کھلم کھلا گولی مارنے کی ترغیب دے رہے ہیں ۔ جمہوری نظام کی یہ فیوض و برکات ہیں کہ ملک میں قاتلوں کو بچانے والے تو بے شمار ہیں لیکن ان کا بال بیکا کرنے والا کوئی نہیں ہے۔

ہندو فرقہ پرست تنظیموں نے اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے رام بھکت گوپال کو اعزاز دینے اور اس کی وکالت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے قبل افرازالاسلام کو زندہ جلانے والے شمبھو ناتھ کو بچانے کے لیےان لوگوں نے جودھپور میں عدالت کے سامنے احتجاج کیا تھا ۔ جموں میں آسیہ جیسی معصوم پری کی عصمت دری کرنے والے درندوں کی خاطر ان لوگوں نے عدالت میں ہنگامہ برپا کردیا تھا ۔ اکھل بھارتیہ ہندو مہا سبھا کے نائب صدر گجیندر پال سنگھ آریہ نے علی گڈھ میں اعلان کیا ہے کہ ان کی تنظیم 30 جون کو یوم شجاعت (شوریہ دیوس ) کے طور پر مناتی ہے اور گاندھی جی کے قتل کی خوشی میں مٹھائی تقسیم کرتی ہے ۔ اسی کے ساتھ پنڈت ناتھورام گوڈسے اور اور نا نا آپٹے کی تصاویر کے آگے خراج تحسین پیش کرنے کے لیے دیپ جلائے جاتے ہیں ۔ ان لوگوں نے گزشتہ سال گاندھی جی کا پتلا بناکر اس پر گولی چلائی تھی اور ناتھو رام گوڈسے زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے ویڈیو بھی بنائی تھی۔ اس کے بعد انہیں دکھاوے کے لیے گرفتار کیا گیا اور پھر چھوڑ دیا گیا۔

اس سال رام بھکت گوپال نے عملاًمسلمان طالب علم پر گولی چلا کر ان کی من مراد پوری کردی ۔ اس موقع پر گجیندر پال نے اپنا موقف دوہراتے ہوئے کہا کہ موہن داس کرم چند گاندھی کے سبب یہ ملک ہندو راشٹر نہ بن کر دھرم شالا بن گیا ۔ اس احمق نے یہ بہتان بھی تراشا کہ شاہین باغ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں گاندھی کے نام پر ملک کی تقسیم کا منصوبہ بنایا جارہا ہے۔ گجیندر کو اس بات کا افسوس ہے کہ اگر ملک مذہب کی بنیاد پر تقسیم ہوا ہوتا تو ہندوستان ہندو راشٹر ہوتا ۔ اس کے برعکس بی جے پی والے گاندھی اور نہرو پر مذہب کی بنیاد پر ملک تقسیم کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔ اس بنیادی اختلاف کے باوجود وہ دونوں ہندو دہشت گردوں کی حمایت کرتے ہیں اور انہیں تحفظ فراہم کرتے ہیں ۔ اسی اخلاقی و عملی حمایت کے بل بوتے پر یہ زعفرانی تشدد پھل پھول رہا ہے لیکن اس کےمتوازی ایک پاکھنڈی ناٹک بھی چلتا رہتا ہے ۔

رام بھکت گوپال نے جس شام جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اندر گولی چلائی اسی صبح مہاتما گاندھی کی 72ویں برسی منانے کے لیے صدر مملکت رام ناتھ كووند، نائب صدر ایم وینکیا نائیڈو، وزیر اعظم نریندر مودی، لوک سبھا اسپیکر اوم برلا، وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ، سابق نائب وزیر اعظم لال کرشن اڈوانی، مختلف وزارتوں کے مرکزی وزراء، چیف آف ڈیفنس اسٹاف اور تینوں افواج کے سربراہان نے راج گھاٹ پر جاکر بابائے قوم کی سمادھی پر گلہائے عقیدت پیش کیے۔ حکمراں جماعت کے ان رہنماوں کے علاوہ سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ،کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے بھی یہی رسم ادا کی ۔بعید نہیں کہ اس پاکھنڈ کو دیکھ کر رام بھکت گوپال کا خون کھول گیا ہو لیکن اپنے آپ کو ان رہنماوں کے خلاف کچھ کرنے سے قاصر پاکر اس نے اپنا غصہ جامعہ کے نہتے طلباء پر اتار دیا ہو۔ جامعہ کے اندر احتجاج تو ڈیڑھ ماہ سے چل رہا ہے۔ ارنب کے مطابق اگر گوپال اس سے ناراض ہوتا تو پہلے بھی وہاں آکر حملہ کرسکتا تھا لیکن گاندھی جی کے موت کا دن انتخاب کرنے کی کوئی خاص وجہ یقیناً ہوگی۔

جامعہ ملیہ کے مظاہرین پر حملے کی وزیراعظم نریندر مودی کے علاوہ سارے اہم رہنماوں نے مذمت کی ہے ۔ ان میں امیت شاہ بھی شامل ہیں ۔ انہوں نے اپنا پرانا جے این یو پر حملے والا ٹویٹ کاپی پیسٹ کردیا ۔’’میں نے پولس کمشنر سے بات کی ہے۔ تفتیش چل رہی ہے ۔ حکومت اسے برداشت نہیں کرے گی‘‘ وغیرہ ۔ دبنگ سمجھے جانے والے وزیرداخلہ کا معاملہ اس جملہ بازی سے آگے نہیں جاتا ۔ وہ اسے برداشت تو نہیں کریں گے لیکن کیا کریں گے؟ یہ نہیں بتاتے۔ اس کے ردعمل میں عآپ کے رہنما سنجے سنگھ نے کہا ہےکہ ’’دہلی الیکشن جیتنے کے لیے بی جے پی کے پاس نہ کوئی لیڈر ہے اور نہ کوئی ایشو، اس لیے امیت شاہ دہلی کا ماحول خراب کرکےالیکشن ٹالنا چاہتے ہیں ۔ مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ پر تنقید کرتے ہوئے سنجے سنگھ نے انہیں ملک کے سب سے ناکارہ وزیر داخلہ قرار دے دیا ہے۔ کسی کا ناکارہ ہونا اس قدر نقصان دہ نہیں ہے جتنا کہ مجرمانہ سوچ کا حامل ہونا ہوتا ہے۔ جامعہ میں پہلی بار پولس کارروائی اور اس کے بعد سنگھی دہشت پسندوں کے ذریعہ جے این یو اور جامعہ پر حملہ کروا کر امیت شاہ نے وزارت داخلہ کے منہ پر کالک پوت کر ملک کے پہلے وزیرداخلہ ولبھ بھائی پٹیل کو شرمندہ کردیا ہے۔ پٹیل نے سختی کے ساتھ گاندھی جی کے قاتلوں کو کیفرِ کردار تک پہنچایا تھا اور شاہ گاندھی جی کے قاتلوں کی پشت پناہی کررہے ہیں ۔ دنیا کے کسی ملک میں اپنے بابائے قوم کے ساتھ ایسا سلوک نہ ہوتا ہوگا جیسا کہ مودی راج میں ہورہا ہے۔

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449831 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.