پہچان کی معرفت

پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیاکاساتواں سب سے بڑاملک ہے۔یہ سرزمین طرح طرح کے رنگوں اورنعمتوں سے مالا مال ہے۔ اس کے شمال میں9سے 28ہزارفٹ کی بلندپہاڑی چوٹیاں میلوں میں پھیلے ہوئے گلیشیروں کی یخ چاندی میں چھپی ہوئی ہیں۔گلیشیرجوپاکستان کے زرخیز میدانوں کوبل کھاتے دریاؤں کوسیراب کرتے ہیں اوران سحرانگیزپہاڑوں میں گھری ہوئی مخمورکردینے والی حسین وجمیل وادیاں بھی ہماری ہیں۔جنوب میں پاکستان کی7سوکلومیٹرطویل سرحد کے ساتھ ساتھ بحیرۂ عرب کے گہرے پانیوں میں دنیاکی بہترین سمندری مچھلی اورعمدہ پروٹین کی سی فوڈکانہ ختم ہونے والاذخیرہ ہے جو ہم سے سنبھل نہیں پارہاکہ یہاں سے کچھ نکل نہیں پارہا۔ہماری اس وسیع سمندری حد کے نیچے تیل کی رواں دواں گزر گاہوں کی موجودگی کے اشارے ملتے ہیں۔پاکستان کی 2300کلومیٹرطویل مغربی سرحدکے اس پادوعظیم اسلامی ہمسائے ہیں۔غزنوی کی سرزمین،شیروں کاافغانستان اورسعدی وشیرازی کا وطن ،ایک باذوق ایرانی معاشرہ۔

ہماری1700کلومیٹرمشرقی سرحدپرہمارے نیزے بھالے تلواریں اورگھوڑے ہردم تیاررکھوانے والابھارت ہے جس کی ازلی دشمنی سے ہماری سرزمین کبھی میجرطفیل،کبھی میجرعزیزبھٹی اورلانس نائیک محفوظ کے بہتے خون سے اورکبھی راشد منہاس اورکیپٹن شیراورحوالدارلالک جان جیسے شہیدسپوتوں کےلہوسےپاک رہتی ہے،یوں ہماری بالائی اورنیچے کی بداعمالیاں دھلتی رہتی ہیں۔پھرہماری ماؤں نے شفقت بلوچ اور ایم ایم عالم جیسے غازی بھی پیداکئے۔ہمارے گھرکاایک کونہ ہمارے بااعتماداورآزمودہ دوست چین سے ملتاہے۔پاکستان چالیس سال تک سوویت یونین کی وسعت پذیری کی راہ میں دیواربنارہا،پھرافغان جہادکابیس کیمپ بنااوراب ایک سپرطاقت کوشکست دیکردوسری سپرطاقت کے مظالم کابھرپورمقابلہ کررہاہے۔

ان سرحدوں میں گھرے ہوئے پنجاب اورسرحد کے سرسبزاورشاداب میدان گندم کاسونااورچاول وکپاس کی چاندی اگلے چلے جارہے ہیں اور سرحد وبلوچستان کی وادیاں شیریں پھل، میوے اورہرہرعلاقے کے کھیتوں سے سکون اورصحت بخشنے والی طرح طرح کی سبزیاں نکلی چلی آتی ہیں اورہمارے پاس دودھ اورگوشت دینے والوں مویشیوں کی بھی کوئی کمی نہیں۔ سرسبزمیدانوں میں سکون بخش جھیلیں سجی ہیں جن پرہر سال سائبیریااوردوسرے سردملکوں سے آنے والی لاکھوں مرغابیاں اورپرندے مہمان ہوتے ہیں۔پاکستان کے صحراؤں کاحسن بھی بے مثال ہے،ایسا کہ بحیرۂ عرب کے اس پار سے صحرا نشینوں کے شہزادے چولستان چلے آتے ہیں۔بلوچستان کے ویرانے کے نیچے دفن گیس کاذخیرہ ہماری توانائی کی ضرورتیں پوری کررہاہے۔ہمارے وطن کو مہکانے کیلئے اللہ تعالیٰ نے اس کی جھولیوں اورجیبوں کوگلاب،گیندوں،چنبیلی اورموتیے سے بھر نہیں دیا؟

پاکستان تودنیامیں قدیم ترین ترقی یافتہ انسانی تہذیب موہنجوداڑو،ہڑپہ اورگندھاراجیسی اثرپذیرتہذیبوں کی سرزمین ہے۔ پاکستانی آخرربِّ کریم کی کس کس نعمت کوجھٹلاسکتے ہیں؟ہماراتوسماجی،مذہبی ارتقاءبھی محمدبن قاسم جیسے کمسن فاتح اورحضرت عثمان علی ہجویری المعروف داتاگنج بخش ، شاہ رکن عالم،نظام الدین اولیا،بہاؤالدین ذکریا،بابافریدگنج شکر اومیاں میر(اوراسے مرتبے کے دسیوں)اولیائے کرام کی تعلیمات سے ہوا، اورہماری دانش کومجددالف ثانی،بابا بلھے شاہ، شاہ عبدالطیف بھٹائی،شاہ حسین اورخوشحال خٹک جیسے دانشوروں نے پروان چڑھایا۔ہم نے حریت وآزادی کا سبق ٹیپو سلطان، سراج الدولہ،تیتومیراورمعرکۂ بالاکوٹ کے شہداء کے لہوسے رقم ہونے والی تاریخ سے سیکھااورہمارے ملی و سیاسی شعور کی آبیاری اقبال اورمحمد علی جوہرکی حکمت ،فراست اورزورِ قلم سے ہوئی۔

قیامِ پاکستان کی تحریک کاآغازعلی گڑھ کی علمی تحریک اورجداگانہ انتخابات کے مطالبے سے ہوا،جسے اقبال جیسے عظیم المرتبت فلسفی شاعرنے اپنی آفاقی فکراورانقلاب آفریں شاعری سے فکری ونظری بلوغت عطاکی۔ذراغورکریں اپنے اوپراللہ کی بے پایاں رحمتوں کا،جب اقبال نے برصغیر کے مسلمانوں کیلئے الگ گھر کی تجویزاس کے نقشے کے ساتھ پیش کی تواسے عمل میں ڈھالنے کیلئے محمد علی جناح جیساعزم وعمل کاپیکر،جدید تاریخ ِ اسلام میں حکمت وجرأت واستقلال کابے مثال رول ماڈل ایک راست بازاٹل قیادت کے طورپرموجودتھا،جس نے تاریخ کادھارابدل دیااور پاکستان بن گیاجوآج ڈاکٹر عبدالقدیرجیسے عظیم اورمحب وطن سائنسدانوں کی حب الوطنی سے ناقابل تسخیرہے۔یہ ہے ہماراپاکستان جس کی قدیم تاریخ بھی اتنی مالدارہے جتنی جدید۔اتنی کہ حال کی بڑی بڑی تاریخ سازقومیں اس کی تاریخ کے مطالعے پراحساسِ کمتری میں مبتلاہوجاتی ہیں۔

لیکن کیاوجہ ہے کہ ایسی تاریخ کاحامل ملک پچھلے چندبرسوں سے قدرتی عذابوں،طوفانوں،سیلابوں اوردوسری افتاد کے علاوہ قحط الرجال کاشکار ہے؟غوروفکرکا مقام ہے کیاپاکستان کاہر شہری اپنی سابقہ سنہری تاریخ کے ساتھ ساتھ ہزاروں ڈالر کا مقروض نہیں ہے؟کیا ہر ہوش سنبھالتے بچے کی پرورش”پریشرز”میں نہیں ہورہی؟سپرپاورکاپریشر،دشمن کاپریشر، عالمی پریشر،مہنگائی، دہشتگردی کااور فرقہ واریت کاپریشر،پاکستان جو 1988ء میں 16 بلین ڈالر کا مقروض تھا،1999 ءمیں38بلین،26جنوری 2009ءکو43.5بلین ڈالر،2013 ءمیں53.4بلین ڈالر،2018ء میں95بلین ڈالراورآج 105.841بلین ڈالرکا مقروض کیسے ہوگیا؟لیکن یہ کوئی نہیں بتاتاکہ یہ قرضے کہاں گئے؟آج یہی غریب ملک سالانہ4/ارب ڈالر قرضہ کی واپسی اورسود کی مدمیں اداکررہاہے ۔منتخب مگر خاموش اسمبلیوں میں یہ سوال کیوں نہیں اٹھائے جاتے ؟ملک کاوزیر اعظم میڈیاکے سامنے اس بات کا اعتراف کرتاہے کہ اگرکالاباغ ڈیم بن گیاہوتاتوملک اس تباہی سے بچ جاتا۔ کوئی ان سے پوچھے کہ آپ کی حکومت میں بھاشاڈیم کافنڈاکٹھاکرنے کی مہم اعلیِ عدلیہ کے چیف جسٹس ثاقب نثارنے شروع کیاتھا،اس کاکیابنا؟

دوسری سب سے بڑی بدقسمتی عالمی برادری کاکرپشن کی وجہ سے اعتمادکافقدان ہے۔عمران خان تو90دنوں میں کرپشن ختم کرنے کابارہادعویٰ کرتے رہے مگرڈیڑھ سال کے بعدعالمی ادارے نے پہلے سے زیادہ کرپشن کی رپورٹ جاری کردی ہے۔ عمران خان حکومت سنبھالنے سے پہلے مختصرکابینہ سے ملک کوچلانے کادعویٰ بھی کرتے رہے ،آج حکومت کی بھاری بھرکم کابینہ اوردوسرے ذمہ دارافرادجن پر ملک کے کروڑوں روپے ماہانہ خرچ اٹھتاہے اوربدنصیبی سےموجودہ حکمرانوں نے مہنگائی کاطوفان برپاکرکے عوام کوقحط سے دوچارکردیاہے۔

اے اللہ!ہم پرتیری نعمتوں کاکوئی حساب نہیں،ہم نکمے اورگناہ گارتیری رحمتوں اورنعمتوں کاشکراداکرنے کے بھی اہل نہیں، بس ہمیں پہچان کی ایک اورنعمت سے نوازدے کہ”مسلمان محض قرآن میں تفکر کرکے بہت جلد اُس مقام پر پہنچ سکتے ہیں کہ جہاں انتہائی ترقی یافتہ اقوام،سالہا سال کی ریسرچ اورکھربوں ڈالرخرچ کرکے پہنچے ہیں لیکن ہم نے قرآن کوپسِ پشت ڈال کرخودکومصائب میں غرق کررکھاہے”۔ میرے رب تجھے شرک بالکل پسند نہیں حالانکہ ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ توجودنیااورآخرت کے تمام خزائن کامالک ہے اورہم اس کادن رات اقرار بھی کرتے ہیں لیکن جب مانگنے کی باری آتی ہے تواپناکشکول آئی ایم ایف اوردیگر تمام سودی اداروں کے قدموں میں رکھ کرگڑگڑاکربھیک مانگتے ہیں!اے میرے پروردگار! اس کی پہچان ہمیں نصیب فرمادے کہ نفع ونقصان سب تیرے ہاتھ میں ہے۔ہمیں ایسی توفیق نصیب فرما کہ ہم تیرا یہ ملک پاکستان تیرے حوالے کرسکیں۔دنیاوآخرت کے مزیدخسارے کی ہم میں تاب نہیں،اے میرےرب،اے میرے رب…… .. ہمیں پہچان کی معرفت عطاکر،بے شک توبڑارحم کرنے والااوربڑامہربان ہے۔
کریم ہے تومری لغزشوں کوپیارسے دیکھ
رحیم ہے توسزا و جزاکی حدسے نکل
بہت عزیزہے مجھ کویہ خاکداں میرا
یہ کوہساریہ قلزم یہ دشت یہ دلدل
کیٹاگری میں : آج کاکالم، پاکستان
 

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 314929 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.