دہلی کا دلدل اور مرجھاتا کمل

دہلی ہندوستان کے ۶ بڑے شہروں میں سے ایک ہے۔ ان شہروں میں سے ہر ایک کی اپنی انفرادیت ہے جیسے بنگلورو کو آئی ٹی شہر ہونے پر فخر ہے ۔ کولکاتہ کو فنونِ لطیفہ کے میدان میں اونچا مقام حاصل ہے۔ حیدرآباد جدید ذرائع ابلاغ کی دنیا میں بڑا نام ہے۔ چنئی علمی و فکری بلندیوں کے لیے منفرد ہے۔ ممبئی کو ملک کی معاشی راجدھانی اور دہلی کو سیاسی دارالخلافہ ہونے کا شرف حاصل ہے۔ ان شہروں کی آبادی اور وسعت بھی تقریباً یکساں ہے۔ ان میں عوام کی فلاح و بہبود کے لیے بلدیہ( میونسپلٹی) ہے جس کو شہر کے باشندے منتخب کرتے ہیں ۔ یہ تعلیم و صحت اور بجلی پانی جیسی سہولیات فراہم کرتی ہے۔ دہلی چونکہ کسی صوبے کا حصہ نہیں بلکہ یونین ٹریری تھا اس لیے وہاں ریاست کا مطالبہ کیا گیا اور جب وہ پورا ہوا تو بلدیہ کی حیثیت صوبائی حکومت جیسی ہوگئی۔ وہاں کے میئر کو وزیراعلیٰ کہا جانے لگا۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی زمانے میں کشمیر کے وزیر اعلیٰ کو وزیر اعظم اور گورنر کو صدر ریاست کہا جاتا تھا لیکن حقیقت حال اس سے مختلف تھی۔

دہلی وزیر اعلیٰ پر شہر کے نظم و نسق کی ذمہ داری نہیں ہے اور نہ پولس فورس پر اس کا کوئی اختیار ہے ۔ جو بیچارہ خود اپنے تحفظ کی خاطر مرکزی حکومت کے تحت کام کرنے والی پولس کا محتاج ہو وہ بھلا دوسروں کی حفاظت کیسے کرسکتا ہے؟یہی وجہ ہے کہ شاہین باغ کی سڑک کھولنے سے متعلق جب اروند کیجریوال سے پوچھا گیا کہ تو انہوں نے کہاو چونکہ لاء اینڈ آرڈر ان کے دائرۂ اختیار سے باہر ہے اس لیے میں امیت شاہ کو مظاہرین سے گفت و شنید کرکے راہ نکالنی چاہیے ۔ بی جے پی دن رات اس کوشش میں لگی ہوئی ہے کہ کسی طرح اروند کیجریوال کو شاہین باغ سے جوڑ کر انہیں ہندووں کا دشمن قرار دیا جائے لیکن وہ ہر بار مچھلی کی طرح اس کے ہاتھ سے پھسل جاتے ہیں ۔ ۶ سال تجربے نے اروندکیجریوال کو گھاگ سیاستداں بنا دیا ہے۔ اس میدان میں اب وہ نئے کھلاڑی نہیں ہیں جو آسانی سے بولڈ ہوجائے یا کیچ کرنے کے لیے گیند ہوا میں اچھا ل دے۔

بی جے پی کے احمق رہنماوں نے جب مایوسی کے عالم میں اروند کیجریوال پر دہشت گردی، شہری نکسلوادی اور انارکی کے علمبردار ہونے کابہتان تراشا تو انہوں نے جواب میں کہہ دیا کہ میں دہشت گرد نہیں ہوں ۔ میں دہلی کا بیٹا ہوں ۔ دہشت گرد خدمت نہیں کرتا لیکن بیٹا کرتا ہے۔ اس کو کہتے ہیں ’نہلے پر دہلا ‘، دہلی کا ہر ووٹر جانتا ہے کہ اروند کیجریوال دہشت گرد نہیں ہے اور کوئی نہیں چاہتا کہ اس کے بیٹے کو غدارِ وطن کہاجائے ۔ سچ تو یہ ہے کہ وزیراعلیٰ اروند کیجریوال نے زعفرانی جذبات کے کھلواڑ کواپنے نفسیاتی استحصال کے وارسے ڈھیر کردیا اور اس کی حالت ’ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن‘ ہوگئی ہے یعنی اس کے پاس نہ کہیں رُکنے کی جگہ باقی رہی اور نہ کہیں جانے کو ٹھکانہ بچا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دہلی کے اندر کمل دن بہ دن دلدل میں دھنستا جارہا ہے۔

ہندوستانی سیاست میں گزشتہ ۶ سالوں کے اندر جو بنیادی تبدیلی واقع ہوئی ہے اس کا اندازہ دہلی کی انتخابی مہم سے کیا جاسکتا ہے۔ ایک زمانہ ایسا بھی تھا جب مودی جی گجرات کے اور اروند کیجریوال دہلی کے وزیرا علیٰ ہوا کرتے تھے ۔ اس کے بعد کیجریوال نے استعفیٰ دے دیا اور نریندر مودی کے خلاف وارانسی سے پارلیمانی انتخاب لڑا۔ مودی الیکشن جیت کر وزیراعظم بن گئے لوگوں نے سوچا کہ اس شکست کے بعد کیجریوال کی سیاسی موت ہوگئی ہے ۔ ۹ ماہ کے بعد دہلی میں صوبائی انتخابات کا انعقاد ہوا توکیجریوال نے بی جے پی کا انتم سنسکار کر کے اپنے زندہ ہونے کا احساس دلادیا۔ اس کے بعد دونوں نے دہلی میں اپنے اپنے دائرۂ کار میں حکومت کی لیکن فرق یہ ہے کہ پانچ سال بعد کیجریوال اپنے کام کے نام پر عوام سے ووٹ مانگ رہے ہیں اور مودی پھر ایک بار ائیر اسٹرائیک ،سی اے اے ، شاہین باغ جیسے جذباتی نعروں سے عوام کو ورغلا رہے ہیں حالانکہ اس کا دہلی سرکار سے کوئی سروکارنہیں ہے۔

بی جے پی نے شاہین باغ کو انتخابی مہم کا موضوع بنادیا جبکہ اس کا الیکشن سے کوئی دور کا بھی واسطہ نہیں ہے لیکن اسے خاطر خواہ کامیابی نہیں مل رہی ہے۔ اس کا ایک ثبوت شاہین باغ سے بدظن کرنے والے بی جے پی کے نغمہ کی ویڈیو کی حالتِ زار ہےجسے انتخابی تشہیر کے لئے استعمال کیا جا رہاہے ۔ اس میں شاہین باغ کےمظاہرین کو ’ٹکڑے ٹکڑے گینگ، اربن نکسل اور دیش کو توڑنے والے‘ جیسے ناموں سے پکار نے کے بعد دہلی کے رائے دہندگان سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ بی جے پی کو ووٹ دے کر ملک کو مضبوط کریں ۔ بی جے پی کے پاس ویڈیو سینانیوں کی ایک فوج ہے اس کے باوجودتادمِ تحریر مذکورہ ویڈیو کو پسند کرنے والوں کی تعداد صرف 3000 اور اسے ناپسند کرنے والے 128000ہیں ۔ اس سے بی جے پی کی عدم مقبولیت کا بہ آسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

’دیش بدلا اب دلی بدلو‘ نامی اس ویڈیو کے نیچے ناظرین نے بڑے دلچسپ تبصرے لکھے ہیں مثلاً اپوروا سنگھ نے لکھا ’’یہ ہمارے ملک ہندستان کا دہلی شہر ہے۔ ہم بی جے پی جیسی اینٹی نیشنل پارٹی نہیں چاہتے۔ بی جے پی اپنے نظریات سے اختلاف رکھنے والوں کو غدار کہنا چھوڑ دے۔‘‘راجہ آرین اس کے عنوان دیش بدلا اب دلی بدلو کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے سوال کرتے ہیں ’’دہلی دیش سے باہر ہے کیا؟ جب ملک بدل گیا تو دہلی کیوں نہیں بدلی؟ جو بھی بی جے پی کے لئے ووٹ مانگنے آئے اسے جوتے مارو۔‘‘ یوا یگ نامی ناظر نے لکھا ’’تم نے ایک ہندو بھائی کو مسلم بھائی سے دور کرنے کی کوشش کی ہے۔8 فروری کو ہم تمہیں بتائیں گے۔ بٹن دبائیں گے، کرنٹ بھی لگائیں گے۔‘‘ اس بار تو بی جے پی کو توانتخاب سے پہلے ہی بجلی کےجھٹکے لگنے لگے ہیں ۔ شاہین باغ کی تحریک نے حکومت کو مدافعت پر مجبور کردیا ہے ۔ ایک انچ بھی پیچھے سرکنے سے انکار کرنے والی بی جے پی کے وزیر مملکت نے پہلے تو این پی آر کو اختیاری قرار دے دیا اور اب ایوانِ پارلیمان میں یقین دلایا کہ این آر سی کو ملک بھر میں نافذ کرنے کا کوئی فیصلہ ہنوز نہیں ہوا ہے۔ بہت ممکن ہے دہلی کے بعد آسام میں ہار کا مزہ چکھنے کے بعد بی جے پی این آر سی کو نوٹ بندی کی طرح بھول جائے۔

دہلی اسمبلی انتخابات میں شکست کی دستک محسوس کر کے بی جے پی نے اپنی پوری طاقت دے دی ہے۔ بی جے پی صدر جے پرکاش نڈّا نے کہا کہ دہلی کے الیکشن میں 240 اراکین پارلیمنٹ کی ڈیوٹی لگائی جائے گی۔ یہ اراکین پارلیمنٹ آئندہ 4 دن تک جھگیوں میں رہیں گے اور وہیں کھائیں گے۔ سبھی اراکین پارلیمنٹ کو یہ فرمان پارلیمانی پارٹی میٹنگ میں بی جے پی قومی صدر جے پی نڈّا نے سنا دیا ہے۔

میڈیا ذرائع کے مطابق بی جے پی صدر جے پی نڈّا نے 240 اراکین پارلیمنٹ کو حکم دیا ہے کہ وہ سبھی جھگی جھونپڑی والے ایریا میں رہیں اور وہیں لوگوں کے ساتھ کھانا کھائیں۔ قابل ذکر ہے کہ ان دنوں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ اور پارٹی صدر جے پی نڈا سمیت بی جے پی کے سبھی سرکردہ لیڈران دہلی میں خوب عوامی جلسے اور روڈ شو کر رہے ہیں۔ لوگوں سے عوامی رابطہ کرنے کے لیے ڈور ٹو ڈور مہم بھی جاری ہے۔

امت شاہ سے لے کر خود پی ایم نریندر مودی دہلی میں جیت کا مزہ چکھنے کے لیے جی جان سے مصروف ہیں۔ پی ایم مودی نے جہاں پیر کے روز دہلی واقع کڑکڑڈوما میں عوامی جلسہ سے خطاب کیا، وہیں مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی نے تری نگر، مادی پور اور پٹیل نگر میں پارٹی امیدوار کے لیے ووٹ مانگے۔ اس کے ساتھ ہی روہنی پہنچے مرکزی وزیر پیوش گویل نے بھی بی جے پی امیدوار کے لیے لوگوں سے ووٹ مانگے۔

واضح رہے کہ دہلی میں اسمبلی کی کل 70 سیٹیں ہیں جن پر 8 فروری کو ووٹنگ ہونی ہے۔ 11 فروری کو سبھی سیٹوں کے نتیجہ آئیں گے۔ سال 2000 کے بعد دہلی میں چار اسمبلی انتخاب ہوئے ہیں۔ سال 2015 کے الیکشن میں عام آدمی پارٹی کو 70 میں سے 67 سیٹیں ملی تھیں جب کہ بی جے پی نے بقیہ 3 سیٹوں پر قبضہ کیا تھا۔

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1221446 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.