دہلی کے وزیراعلی اروند کیجریوال نے ایک ہفتہ قبل ایودھیا
میں رام مندر کی تعمیر کے لئےایوانِ پارلیمان میں وزیراعظم نریندر مودی کے
ذریعہ’ٹرسٹ ‘ بنانے کے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے انہیں مبارکباد دی تھی
اور کہا تھا کہ اچھے فیصلوں کا کوئی وقت نہیں ہوتا ہے۔ اس کے ٹھیک ایک ہفتہ
بعد وزیراعظم نریندر مودی نے دہلی اسمبلی میں عام آدمی پارٹی کی زبردست
جیت پر وزیراعلی اروند کیجریوال کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ ’’آپ پارٹی
اور مسٹر اروند کیجریوال کو دہلی اسمبلی انتخابات میں جیت کی مبارک باد۔
دہلی کےلوگوں کی امیدوں کو پورا کرنےکےلئےانہیں بہت بہت نیک خواہشات‘‘۔
دونوں کا حساب برابر ہوگیا لیکن اسی کے ساتھ مبارکباد کا ایک سلسلہ چل پڑا۔
راہل گاندھی، ممتا بنرجی، وائی ایس جگن موہن ریڈی، این چندربابو نائیڈو،
شرد پوار، ادھو ٹھاکرے، ہیمنت سورین، سیتا رام یچوری، اتل انجان، تجیسوی
یادو، ایم کےاسٹالن اور پنارئی وجیئن نےبھی کیجریوال کو مبادک دی اور انہوں
نے سب کا شکریہ اداکیا ۔
اس طویل فہرست میں وزیراعظم کے علاوہ وزیردفاع راجناتھ سنگھ ، بی جےپی کے
نئے نویلے صدر جگت پرکاش نڈا اور بی جے پی دہلی کے نیم پاگل صدر منوج
تیواری تک کا نام شامل تھا لیکن دو مہاپاگل امیت شاہ اور یوگی ادیتیہ ناتھ
کے اسمائے گرامی غائب تھے ۔ ایسا اس لیے ہوا کہ دہلی کے انتخابی مہم میں سب
سے زیادہ قہر برسا نے والی راہو کیتو کی جوڑی اب باولی ہوگئی ہے۔ وارانسی
میں نامہ نگار یوگی کا ردعمل جاننے کے لیے ان کےپیچھے بھاگتے رہے لیکن وہ
منہ چھپا کر بھاگ گئے۔ منوج تیواری کی طرح جئے شری رام کا نعرہ تک نہیں
لگاسکے ۔تین سطر کی وہپ(ہنٹر) چلاکر سارے ارکان پارلیمان کو ایوان میں حاضر
رہنے کی تلقین کرنےوالے وزیر داخلہ بھی نہ جانے کس عقوبت خانہ (detention
center) میں روپوش ہوگئے۔ اخبار اور ٹیلی ویژن والے ان کا سراغ لگا تے رہے
مگروہ گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہوگئے تھے۔ بی جے پی نے ایوان بالا
کے وقفۂ طعام کو منسوخ کرکے ایسی تشویش پھیلائی کہ شاہ جیکے ترکش کا آخری
تیر یکساں سول کوڈکی قیاس آرائی ہونے لگی لیکن بقول غالب ’’دیکھنے ہم بھی
گئے پر یہ تماشا نہ ہوا‘‘
یوگی اور شاہ کی نیند مسلمانوں نے اڑا رکھی ہے۔ عآپ نے اس بار ۵ مسلمانوں
کو ٹکٹ دیا اور پانچوں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگئے۔ ان کو ہرانے کے لیے
شاہ اور یوگی کی نے جو نفرت کی آگ لگائی اس میں کیجریوال تک جھلس گئے اور
رام مندرٹرسٹ کا ابھینندن کرنے کے بعد ہنومان چالیسا کا پاٹھ کرنے لگے لیکن
مسلمان ٹس سے مس نہیں ہوے ۔ انہیں پتہ تھا کہ اس بار ہاتھ کمل کو اکھاڑ
نہیں سکتا لیکن اس لیے زعفرانی جھاڑو سے اسے صاف کردیا ۔ مسلمانوں کی سیاسی
دانشمندی نے سنگھ پریوارکو حیرت زدہ کردیا ہوگا۔ ہندوسماج کو متحد کرکے کسی
کی مخالفت کرانے کے لیے اسے نہ جانے کیا کیا جتن کرنے پڑتے ہیں ۔ جھوٹ سے
کام نہیں چلتا تو فساد کروانے کی نوبت آجاتی ہے لیکن مسلمان اپنی عقل عام
سے نہ صرف اولین دشمن کو پہچان لیتاہے بلکہ اس کو زیر کرنے والے کا بھی پتہ
لگا لیتا ہے۔ اس کے بعد دہلی جیسا چمتکار رونما ہوجاتا ہے ۔
یہ حسن اتفاق ہے شاہ جی نے ۱۱ دسمبر کو قومی شہریت کے قانون میں ترمیم کی
تجویزایوانِ پارلیمان میںپیش کی۔ اس کے ٹھیک دوماہ بعد ان کو اس کی بھاری
قیمت چکانی پڑی۔ ۱۱فروری کو انتخابی رحجانات کے بعد پہلا حتمی نتیجہ سیلم
پور سے آیا۔ اس میں عآپ کے امیدوار عبد الرحمن نے بی جے پی کے کوشل کمار
مشرا کو 36 ہزار سے زیادہ ووٹوں سے ہرانے کی خوشخبری تھی۔ اس طرح ابتداء ہی
ایک مسلمان کی فتح سے ہوئی۔ یہاں پر کانگریس کے امیدوار متین احمد کو بھی
بیس ہزار ووٹ ملے لیکن اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔ شعیب اقبال نے مٹیا
محل سے67ہزار ووٹ حاصل کرکے بی جے پی کے رویندر گپتا کوہرایا ۔ ان کوصرف 17
ہزاراور کانگریس کےمرزا علی جاوید کو تین ہزارووٹ ملے تھے۔بلیماران میں عآپ
کے ایم ایل اے عمران حسین نے 64 فیصد یعنی 66 ہزار ووٹ حاصل کیےجبکہ بی جے
پی کی لتا کو صرف 29 ہزار ووٹملے ۔ کانگریس کے ہارون یوسف کو ۴ ہزار پر
اکتفاء کرنا پڑا۔
مصطفی ٰآباد وہ حلقۂ انتخاب ہے جہاں سے ۲۰۱۵ میں بی جے پی کے تین میں سے
ایک امیدوار کامیاب ہوگیا تھا۔ امیت شاہ نے یہیں جاکر ووٹنگ مشین کے ذریعہ
شاہین باغ تک کرنٹ پہنچانے کی کوشش کی تھی لیکن عآپ کے حاجی یونس نے بی جے
پی کے جگدیش پردھان کو سے ہرادیا لیکن یہ کہانی خاصی دلچسپ ہے۔ ووٹوں کی
گنتی کے کل ۲۶ راونڈ ہوتے ہیں ۱۱ ویں راونڈ کے بعد بی جے پی کے جگدیش
پردھان نے بتیس ہزار ووٹ آگے چل رہے تھے اور زعفرانی خیمہ میں جشن شروع
ہوچکا تھا ۔ پندرہویں راونڈ کے بعد ہی حاجی یونس نے جگدیش پردھان سے زیادہ
ووٹ حاصل کرنے شروع کیے۔۲۱ ویں راونڈ کے بعد حاجی یونس کو پانچ ہزار ووٹوں
کی بڑھت مل گئی اور چھبیسویں راونڈ میں گنتی ختم ہونے کے بعد وہ بیس ہزار ۸
سو ووٹ کے فرق سے بی جے پی کے رکن اسمبلی کو شکست فاش دے دیتے ہیں ۔ یہ تھا
وہ بٹن جسے دبانے کی امیت شاہ نے تلقین کی تھی ’’زور کا جھٹکا دھیمے سے
لگا‘‘ ۔ مصطفیٰ آباد تو خاصہ دور ہے لیکن شاہین باغ کے حلقۂ انتخاب
اوکھلا (جہاں یوگی نے آکر منہ زوری کی تھی ) سے جب صبح سویرے یہ رحجان
آیا کہ عآپ کے امیدوار امانت اللہ خان بی جے پی سے پیچھے چل رہے ہیں تو
واقعی بجلی کا جھٹکا لگا لیکن شام تک مطلع صاف ہوگیا۔
اوکھلا سے مجموعی طور پر 67 فیصد ووٹ حاصل کرنے والے امانت اللہ نے بی جے
پی کے برہم سنگھ کو 70 ہزار سے زیادہ ووٹوں سے کراری شکست دے دی۔ کانگریس
کے پرویز ہاشمی کو صرف ۵ ہزار ووٹ ملے۔ اسی حلقۂ انتخاب سے ایس ڈی پی آئی
کے نہایت قابل اور مخلص امیدوار ڈاکٹر تسلیم رحمانی کو صرف ۱۴۱ووٹ ملے جبکہ
ایک لاکھ اٹھائیس ہزار رائے دہندگان نے امانت اللہ کی تائید کی ۔ ایسا اس
لیے ہوا کہ مسلمانوں نے بی جے پی کو دھول چٹا نے کا ارادہ کرلیا
تھا۔مہابھارت میں سوئمبر کے بعدارجن سے پوچھا گیا کہ تم نے تیل کڑھائی میں
دیکھ کر اوپر گھومنے والی مچھلی کی آنکھ کا نشانہ کیسے سادھ لیا تو اس کا
جواب تھا ’مجھے تو اس وقت صرف مچھلی کی آنکھ دکھائی دے رہی تھی سو میں نے
اس میں تیر چلا دیا‘۔ امیت شاہ اور یوگی مہاراج کو ان نتائج کے بعد
مہابھارت کا یہ واقعہ ضرور یاد آیا ہوگاکیونکہ مسلمانوں کو بھی اس بار صرف
کمل نظر آرہا تھا ۔ اروند کیجریوال کے جملہ’’آپ نے تو غضب کردیا‘‘ اس کے
اصلی مستحق تو صد فیصد کامیاب ہونے والے مسلمان امیدوار اور انہیں کامیاب
کرنے والی امے مسلمہ ہے اس لیے کہ یہ اعزاز نہ توعآپ کو ملا اور نہ بی جے
پی کو حاصل ہوا۔
|