۱۲ ا پر یل ۸۳۹۱ ایک ایسا دن ہے
دنیا ئے ادب کی عظیم ترین شخصیت اس دارِفانی سے کوچ کر کے اس دنیا میں چلی
گئی جہاں سے کوئی لوٹ کر کو ئی بھی واپس نہیں آتا لیکن اپنے پیچھے خیالات
کا جو ورثہ چھوڑ گیا موت کا بے رحم ہاتھ بھی ان نظریات کو ختم نہیں کر سکا۔
۰۳۹۱ میں برِ صغیر پاک و ہند پر تاجِ برطا نیہ کے اقتدار کا سورج پوری رعنا
ئیوں سے چمک رہا تھا اور ان کے اقتدار پر سورج کبھی غروب نہیں ہو تا تھا۔
مسلمانانِ ہند غلامی کی چکی میں بری طرح سے پس رہے تھے اور کو ئی ان کا
پرسانِ حال نہیں تھا کیا ان حالات میں یہ بات کسی کے حیطہِ ادراک میں آسکتی
تھی کہ برِ صغیر پاک وہند میں ایک علیحدہ اسلا می ریا ست جلد قائم ہو کر
رہے گی جسے روکنا اور دبانا کسی کے بس میں نہیں ہو گا۔ آنے والے زمانوں میں
وقوع پذیر ہو نے والے ایسے محیرا لعقو ل واقعات کے بارے میں سوچنا اور نگاہِ
بینا سے ان کے وقوع پذیر ہونے کے بارے میں اظہارِ خیال کرنا معدودے چند
لوگوں کا مقدر ہوا کرتا ہے اور اس انداز میں سوچنے والی آواز عظیم فلسفی
شاعر اور دانا ئے راز ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی تھی جس نے ۰۳۹۱ میں ا لہ
آباد کے جلسے میں واشگاف الفاظ میں اعلان فرما دیا تھا کہ میں ایک نئی
اسلامی ریا ست کو قائم ہو تے ہو ئے دیکھ رہا ہوں۔ میری آنکھیں اسے قائم ہو
تے ہو ئے دیکھ رہی ہیں۔یہ سلطنت قائم ہو کر رہے گی اور کو ئی اس کے قیام کو
کو ئی روک نہیں پا ئے گا۔علامہ اقبال کے ویژ ن اور دور نگاہی پر سوچتے
جائیے اور ورطہِ حیرت میں گم ہوتے جائیے کہ وہ کونسی آنکھ تھی جس سے وہ آنے
والے حا لات و اقعات کو دیکھ کر مسلمانوں پر اسرار کو منکشف کر رہے تھے اور
انھیں آنے والے واقعات کے لئے ذہنی طور پر تیار کر رہے تھے۔
حادثہ وہ جو ابھی پردہِ افلاک میں ہے۔ عکس اس کا میرے آئینہِ ادراک میں ہے
نے ستارے میں نے گردشِ افلاک میں ہے۔ تیری تقدیر میرے نالہِ بے باک میں ہے۔
َٓعلا مہ اقبال دنیا ئے ادب کی ایک ایسی نابغہ روزگار شخصیت ہیں جنکی شاعری
آفاقی قدروں کو اپنے دامن میں سمیٹے ہو ئے ہے۔انکی شاعری کی اتنی جہتیں ہیں
کہ ان سب کا احاطہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ انتہا ئی اختصار سے اگر میں بیان
کرنا چا ہوں تو یہ کہہ سکتا ہوں کہ انھوں نے اپنی شاعری کی بنیاد عشق اور
تصورِ خودی پر رکھی تھی ۔ یہ انکے اشعار کا کمال تھا کہ قوم کے تنِ مردہ
میں زندگی کے ا ثار نمو دار ہو ئے اور دیکھتے ہی دیکھتے اس قوم نے قائدِ
اعظم محمد علی جنا ح کی قیادت میں تخلیقِ پاکستان کی جنگ اس شان سے لڑی کہ
پوری دنیا ششدر رہ گئی۔ تخلیقِ پاکستان کا معجزہ اقبال کی شاعری کے بغیر نا
ممکن تھا۔ اور اگر میں یہ کہوں کہ تخلیقِ پاکستان کی بنیادوں میں اقبال کی
شاعری کی گونج نے سرفروشوں کی ایسی جماعت تیار کی جس نے نا ممکن کو ممکن
بنا کر رکھ دیا تو بے جا نہ ہو گا۔
اے طائرِ لاہوتی اس رزق سے موت اچھی ۔۔ جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کو تاہی
آئینِ جوانمرداں حق گو ئی و بے باکی ۔۔۔ اللہ کے شیروں کو آتی نہیں رو باہی
خودی کا تذ کرہ علامہ اقبال کی شاعری میں جا بجا بکھرا ہوا ملتا ہے در اصل
خودی ہی وہ قوت تھی جس نے مسلمانانِ برِ صغیر کو وہ قوت عطا کی تھی جس نے
اس خطے کی تقدیر بدل کر رکھی دی۔اگر یک قطرہِ خون داری، اگر مشتِ پر ے
داری۔۔ بیا ہ من با تو آموزم اندازِ شا ھبا زی را ۔۔ کی للکار سے حریت
پسندوں کی جماعت تشکیل ہو رہی تھی جسے آنے وال دنوں میں آزادی کی صبح کو
اپنے لہو سے روشن کرنا تھا۔
یہ موجِ نفس کیا ہے تلوار ہے۔خودی کیا ہے تلوار کی دھار ہے
خودی کیا ہے رازِ درو نِ حیات۔ خودی کیا ہے بیداریِ کائنات
خودی جلوہ بد مست و خلوت پسند۔۔ سمندر ہو اک بوند پانی میں بند
علامہ اقبال عشق کا ا ظہار اس خوبصورت انداز میں کرتے ہیں کہ اس میں ڈوب
جانے کو جی چاہتا ہے۔ قوتِ عشق سے پست کو بالا کرتے ہیں اور نئے جہانوں سے
متعارف کرواتے ہیں۔۔۔
عشق دمِ جبرئیل عشق دلِ مصطفے ۔۔عشق خدا کا رسول عشق خدا کا کلام
عشق فقیہِ حرم عشق امیرِ جنود۔۔عشق ہے ابن السبیل اس کے ہزاروں مقام
علا مہ کے ہاں مکاں اور لا مکاں کا تذکرہ بھی بڑی اہمیت کا حا مل ہے وہ
انسان کو لا مکاں تک رسا ئی کا پیغام دیتے ہیں اور اسے وہاں تک جانے کے
راستے کی نشاند ہی کرتے ہیں۔
تو اے اسیرِ مکاں لا مکاں سے دور نہیں۔وہ جلو ہ گاہ تیرے خاکدا ں سے دور
نہیں
منزل ہے تیری ماہ و پرویں سے ذرا آگے۔ قدم اٹھا یہ مقام آسماں سے دور نہیں
اس دنیا کی صورت گری کے لئے وہ نئے افکار اور خیا لات کی حوصلہ افزا ئی
کرتے تھے وہ انسانی عزم و حوصلہ سے اس دنیا کی تسخیر کا پیغام دیتے تھے۔ وہ
تحقیق، دلیل، منطق، عقل و دانش اور بصیرت پر یقین رکھتے تھے۔
افکارِ تازہ سے ہے جہانِ تازہ کی نمود۔ کہ سنگ و خشت سے ہو تے نہیں جہاں
پیدا
خودی میں ڈوبنے والوں کی عزم و ہمت نے۔ اس آبجو سے کئے ہیں بحرِ بے کراں
پیدا
نوجوانوں سے انھیں خاص محبت تھی وہ انھیں اپنے خیالات کی ترو یج کا ذریعہ
تصور کرتے تھے۔ وہ انھیں ستاروں پہ کمند ڈالنے کا عزم عطا کر رہے تھے
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں کی نویدِ عظیم سنا رہے تھے اور نئی دنیا
تعمیر کرنے کا حوصلہ عطا کر رہے تھے ، وہ ماضی کی درخشندہ روایات سے
خوبصورت مستقبل کے خواب دیکھ رہے تھے اور نوجوان نسل کو ان درخشندہ روایات
سے قوت حاصل کرنے کا درس دے رہے تھے
کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے۔ وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک
ٹوٹا ہوا تارا
تجھے اس قوم نے پا لا ہے آغوشِ محبت میں۔۔ کچل ڈا لا تھا جس نے پاﺅں میں
تاجِ سرِ دارا
علامہ اقبال کو ملا ئیت سے سخت نفرت تھی و ہ اسے مذہبی غلامی ایک شکل تصور
کرتے تھے لہذا وہ مسلمانوں کو مذہبی پیشوا ئیت کے چنگل سے بچنے کی تلقین
کرتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ ملا ئیت رجعت پسندانہ سوچ کی وجہ سے ترقی کی
راہ میں رکاوٹ ہے لہٰذا وہ ساری عمر اس سے بر سرِ پیکار رہے۔ یہ مذہبی
پیشوا ئیت ہی تھی جس نے انکی ترقی پسندانہ سوچ کی وجہ سے ان پر کفر کے فتوے
لگا ئے لیکن یہ فتوے بھی اقبال کی فکر کو مقبولیت سے روکنے میں ناکام
رہے۔۔اقبال کی فکر عام ہو تی چلی گئی اور مذہبی پیشوائیت اس کے خلاف زہر
اگلتی رہی لیکن عوام کے دلوں سے اس کی محبت کو کم کرنے میں ناکام رہی۔
مکتب و ملا و اسرارِ کتاب؟ کورِ مادر زاد و نورِ آفتاب
د ینِ کافر فکر و تدبیرِ جہاد۔ دینِ ملا فی سبیلِ ا للہ فساد
علامہ اقبال دورِ غلامی کی ا بتلا ﺅں کے باوجود امید کا دامن تھا مے رکھتے
تھے انھیں یقینِ کامل تھا کہ اگر ان بے سرو سا مان، کمزور اور غلام
مسلمانوں کو اپنی توانائیاں دکھا نے کا موقعہ دیا گیا تو یہ اپنی عظمت کا
لوہا ضرور منوائیں گے۔خدا نے انھیں بے شمار خوبیوں سے متصف کیا ہوا ہے جو
اس وقت اپنا رنگ دکھا سکتی ہیں جب وہ علیحدہ مملکت میں اپنے مذہب اور کلچر
کے مطابق ایک انصاف پسند معاشرہ قائم کریں گے۔
دگر گوں ہے جہاں تا روں کی گردش تیز ہے ساقی۔ دلِ ہر ذ رہ میں غو غا ئے
رستہ خیز ہے ساقی
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے۔ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زر خیز
ہے ساقی
علامہ اقبال وحیِ خدا وندی کی روشنی میں قائم شدہ نظامِ حکو مت میں ہی دنیا
کا امن اس کا سکون اس کی ترقی اس کی فلاح و بہبود اور اس کی اعلی قدرو ں کی
بقا کو پنہا ں دیکھ رہے تھے جنھیں سرکارِ دو علم ﷺ نے اپنی حیاتِ طیبہ میں
قائم کر کے دکھایا تھا ۔ زمانے کی بے راہ روی اور انسانی قدروں کی موت محض
اس وجہ سے کہ ہم نے وحی کی رو سے عطا کردہ اقدار کو فراموش کر دیا ہے۔
اک دانشِ نو رانی ، اک دانشِ بر ھا نی۔۔ ہے دانشِ بر ھا نی حیرت کی فراوانی
اس پیکرِ خاکی میں اک شہ ہے سو وہ تیری۔۔ میرے لئے مشکل ہے اس شہ کی نگہبا
نی
علامہ اقبال کو یقین تھا کہ کائنات اور اسکی سای قوتیں انسان کے لئے مسخر
کر دی گئی ہیں۔کوشش، عملِ پیہم اور سعی و کاو ش ہی اسے کامیا بیوں سے
ہمکنار کر سکتی ہے لہٰذا جو قوم بھی پیکرِ عمل میں ڈھلے گی کامیا بی و
کامرا نی اسی کا مقدر بنے گی۔ خونِ جگر کامیابی کی ضمانت ہے جب تک مسلمان
عمل کا پیکر تھے اور کارِ جہاں میں خونِ جگر سے کا ئنات کی صورت گری کرتے
تھے کائنات ان کے سامنے سرنگوں تھی لیکن افسوس صد افسوس کہ ہم نے اس روش کو
چھوڑ کر تن آسانی کو اپنا مسلک بنا لیا ہے جس کا منطقی نتیجہ ذلت و رسوا ئی
تھی ۔۔
وہ حرفِ راز کہ مجھ کو سکھا گیا ہے جنوں۔۔خدا مجھے نفسِ جبرا ئیل دے تو
کہوں
سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفٰے سے مجھے۔۔ کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گر دوں
علامہ اقبال اپنی حیات میں زندگی کے بہت سے رموز سے پردہ اٹھا نا چاہتے تھے
لیکن اس وقت کے حا لات اور سخت گیر مذہبی فضا کے پیشِ نظر انھوں نے صرف بہت
سے سوالات اٹھا نے پر ہی اکتفا کیا تا کہ اہلِ دانش ان پر غور و فکر کر یں۔
وہ سوالات کے جوابات جانتے تھے لیکن ان کی خوا ہش تھی کہ آنے والی نسلیں
اپنی فہم و فراست اور ادراک سے اجتہاد کا سفر طے کریں اور اپنے مسائل کا حل
تلاش کریں۔
نہ تو زمیں کے لئے ہے نہ آسماں کے لئے۔ ۔جہاں ہے تیرے لئے تو نہیں جہاں کے
لئے
میرے گلو میں ہے اک نغمہِ جریل آشوب۔۔سنبھال کر رکھا ہے جسے لا مکاں کے لئے
علامہ اقبال جدید دور کے سب سے بڑے عاشقِ رسول تھے اور یہ عشق علامہ اقبال
کی کی شاعری میں انمول موتیوں کی طرح جا بجا بکھرا ہوا نظر آتا ہے۔ کچھ
ناقدین کا خیال ہے کہ اقبال کی شاعری کی مقبولیت در حقیقت اسی عشق کی رہینِ
منت ہے جو انھیں سرکارِ دو عالم ﷺ سے تھا ۔ ان کی شاعری کی عظمتیں سرکارِ
دو عالم ﷺ کی عنائت کرہ ہیں وگرنہ شاعری اس طرح روحوں میں رچ بس کر تحرک
پیدا نہیں کیا کرتی، ا نقلاب کی راہ ہموار نہیں کرتی اور جذب و مستی میں
ڈوب کر زمین و آسمانِ مستعار کو پھونک نہیں دیا کرتی۔۔ ۔
لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب۔۔گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں
حباب
شوق تیرا گر نہ ہو میری نماز کا امام۔۔ میرا قیام بھی حجاب میرا سجود بھی
حجاب |