پارلیمنٹ سے بزم سعید تک ۔

دودن قبل پوری قوم نے پارلیمنٹ میں ایک منظردیکھاکہ سیاستدان نفرت انگیزتقاریرکررہے تھے ،ایک دوسرے پرسطحی قسم کے الزامات عائدکررہے تھے اپنی جماعت اورقائدکی اندھی محبت میں گرفتارسیاسی رہنماء مخالفین پرحملہ آورتھے، آکسفورڈاورایچ ای سن کے پڑھے لکھے رہنماء تہذیب ،اخلاق ،تحمل ،برداشت ،تہذیب ،مشرقی روایات کوبھول گئے ،اسلامی اقداراورایوان کے تقدس کوپامال کررہے تھے،سپیکراوردیگرممبران اسمبلی بے بسی کی تصویربنے ہوئے تھے قوم کے منتخب نمائندے ایک دوسرے پرنازیباجملے اچھال رہے تھے بلاول بھٹو،مرادسعید،عبدالقادرپٹیل نے دل کی بھڑاس نکالی اوررہی سہی کسراگلے دن عمرایوب ،آغارفیع اورشہریارآفریدی نے نکال دی اورپوری قوم لائیویہ منظردیکھ رہی تھی
میں نے بھی یہ منظردیکھا اورافسوس سے کہناپڑاکہ سیاستدان خوداپنے آپ کوبدنام کررہے ہیں قوم کے مسائل حل کرنے کی بجائے پارلیمنٹ کو،،تماشاگاہ ،،بنادیاگیاہے گوناگوں مسائل میں گری قوم کی پارلیمنٹ ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنے ،دشنام طرازی ،الزام بازیوں ، گالم گلوچ اور ہیجان انگیزی،بہتان بازی کامرکربن گئی ہے ، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی رسہ کشی جاری ہے ،ملکی سیاست اپنی تاریخ کے انتہائی نازک دور سے گزر رہی ہے اور یہ سب کچھ محض غیر ملکی کارستانی کا نتیجہ نہیں، خود ہمارے سیاستدانون کی ناتدبیریوں، جذباتیت، جارحانہ طرزعمل اور سیاسی منشور اور سیاسی ضابطہ اخلاق کو پس پست ڈالنے کا شاخسانہ ہے ،جب سے پاکستان تحریک انصاف کے غبارے میں ہوابھری گئی ہے اوراس کے بعد ان ناہنجاروں کوحکومت کی مسندپربٹھایاگیاہے اس وقت سے ملکی سالمیت، معاشی و سیاسی استحکام کے بغیر سیاست گالیوں سے آگے نہیں بڑھ سکی ہے ،کردار کشی، دشنام طرازی اور اشتعال انگیز بیان بازی کا سلسلہ نہیں رک سکاہے حالت تویہ ہے کہ قومی سیاسی حلقوں میں زمینی حقائق اور خطے کو درپیش بحرانون اور چیلنجز سے نمٹنے کے لیے کوئی ٹھوس روڈ میپ نہیں ہے۔

میں پارلیمنٹ سے باہرنکلاتوجمعیت علماء اسلام پنچاب کے امیرمولاناڈاکٹرعتیق الرحمن کافون آیااورانہوں نے کہاکہ ہمارے مدرسہ جامعہ اسلامیہ صدرراولپنڈی میں طلباء کے درمیان تقریری مقابلہ ہورہاہے آپ نے اس میں شرکت کرنی ہے میں نے دل ہی دل میں سوچاجوتقریری مقابلہ میں نے پارلیمنٹ میں دیکھا ہے اس کے بعدمزیدکوئی مقابلہ دیکھنے کی گنجائش نہیں رہتی مگرپھرخیال آیاکہ یہ پڑھے لکھے لوگوں کی تقریریں تھیں جوہم نے سنیں چلوہم ان کی تقریریں بھی سن لیں توکوئی حرج نہیں جن کویہ سیاستدان ،جاہلت کی فیکٹریاں،کہنے سے بھی نہیں کتراتے ،حکومت کے وزیرشہریارآفریدی ایوان میں کھڑے ہوکرکہتے ہیں کہ ایک عالم نے اپنے اپنے طلباء کومنشیات استعمال کرنے کی ترغیب دی ،شہریارآفریدی جب سے وزیربنے ہیں انہیں ہرجگہ منشیات ہی نظرآتی ہے اسی لیے وہ جھوٹاکیس اورجھوٹاالزام لگانے سے بھی گریزنہیں کرتے ۔
جامعہ اسلامیہ کی بنیاد1958میں بزرگ عالم دین شیخ الحدیث مولاناقاری سعیدالرحمن نے رکھی تھی جامعہ اسلامیہ 1977کی تحریک نظام مصطفی کابھی مرکزرہایہ مدرسہ آج بھی پوری آب وتاب کے ساتھ جگمگارہاہے قاری سعیدالرحمن کاتعلق اٹک کے مردم خیز خطہ چھچھ سے تھا جس کی مٹی سے بہت سے نامور اہل علم نے جنم لیا ہے۔ اس خطہ سے تعلق رکھنے والے بعض بزرگوں نے اندرون وبیرون ملک شہرت پائی انہی میں ایک بزرگ علمی شخصیت مولانا عبد الرحمن کامل پوری کی تھی جو حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے خلیفہ مجاز بھی تھے اور دینی علوم بالخصوص حدیث نبوی کی تدریس میں ملک گیر شہرت و مقبولیت رکھتے تھے۔ ان کے تین فرزندوں حضرت مولانا عبید الرحمن، حضرت مولانا مفتی احمد الرحمن، اور حضرت مولانا قاری سعید الرحمن نے علمی، دینی اورسیاسی حلقوں میں شہرت پائی ۔
مولاناقاری سعیدالرحمن کا2009میں انتقال ہوگیاتھا جس کے بعد ان کے ہونہارفرزندڈاکٹرعتیق الرحمن اورقاری محمدانس والدکی علمی وسیاسی وراثت کوسنبھالے ہوئے ہیں مدرسہ کے طلباء نے قاری سعیدالرحمن کے نام سے بزم سعیدقائم کررکھی ہے جس کے تحت طلباء کی صلاحیتوں کواجاگرکرنے کے لیے مختلف مقابلہ جات منعقدکرتے ہیں جس میں مقابلہ حسن قرات ،حمدونعت ،تقریروخطاطی سمیت دیگرشعبے شامل ہیں ،انہی محافل کانتیجہ ہے کہ مدرسہ کافارغ التحصیل جب منبرومحراب اورپارلیمنٹ وسیاسی مجلسوں میں بات کرتاہے توگالم گلوچ اورالزام تراشیوں کی بجائے دلائل وبراہین سے مخالفین کوزچ کرتاہے،انہی مدارس کے فیض یافتہ خطباء کاکمال ہے کہ وہ لوگوں کی زندگیوں کوبدل ڈالتے ہیں مگربرق گرتی ہے توبے چارے علماء پر۔

بزم سعیدکے عنوان سے یہ ایک شاندارتقریب تھی جس میں طلباء نے نہایت سلیقے وطریقے سے بتایاکہ ریاست مدینہ کیسی ہوتی ہے ،اسلام کامعاشی نظام کیاہے ،اسلام میں ریاست کاکیاتصورہے ، ہمارے دوست ومعروف کالم نگارپروفیسرعبدالواحدسجاد،ایس ایچ اوتھانہ کینٹ محمداحسن ودیگربطورمہمان شریک ہوئے مولاناعبدالرحمن ،مفتی مسرت اقبال،،مولانااسامہ،مولاناعمر،مولاناوکیل شاہ ودیگرحضرات کی کاوشوں سے یہ پروقارتقریب منعقدہوئی تھی ،تقریب کے اختتام سے قبل مدرسے کے طلباء نے خلیفہ ہارون الرشیداوربہلول کے تاریخی مکالمے کاخاکہ بھی پیش کیامدرسہ انتظامیہ یہ تقریب کسی ہوٹل یاعوامی جگہ پرمنعقدکرتی تویقینا اس کے نہایت مثبت اوروسیع اثرات مرتب ہوتے ۔

دینی جماعتوں کے کارکن اوردینی مدارس کے طلباء نے ہمیشہ ایک ذمے دارشہری ہونے کاثبوت دیاہے انہوں نے اپنے عمل سے ثابت کیاہے کہ وہ تربیت یافتہ ہیں آج وہ حکومت سوشل میڈیاپرپابندی کے حوالے سے قانون سازی کررہی ہے کہ جس کے کارکنوں نے سب سے زیادہ سوشل میڈیاکامنفی استعمال کیاہے اس کے کارکنوں نے سیاسی مخالفین کی کردارکشی کے لیے اس فورم کواستعمال کیا اورگزشتہ چندسالوں میں انہو ں نے ملکی سیاست میں جوگندگھولاہے وہ اب ان کے گھروں میں داخل ہواہے توانہیں اندازہ ہوااس پرپابندی لگنی چاہیے حالانکہ پابندی کسی مسئلے کاحل نہیں ہم پہلے دن سے یہ کہہ رہے ہیں کہ کارکنوں کی تربیت کی جائے بندرکے ہاتھ میں ماچس دی جائے گی تووہ جنگل میں آگ ہی لگائے گا ۔

اس مسئلے پربھی دینی جماعتوں اورمدارس نے پہل کی ہے اورسوشل میڈیاکے استعمال پرتربیت کااہتمام کیاہے چنددن قبل جمعیت علماء اسلام جموں وکشمیرکے سیکرٹری جنرل مولاناامتیازعباسی کی دعوت پرجامع مسجدخاتم النبین راولپنڈی میں ایسی ہی ایک تقریب میں شریک ہواجہاں انہوں نے اپنے کارکنوں کی تربیت کے لیے سوشل میڈیاسیمینارمنعقدکیاتھا اس سیمینارمیں معروف کالم نگارعلامہ زاہدالراشدی ،جے یوآئی خیبرپختونخواہ کے سیکرٹری اطلاعات حاجی عبدالجلیل جان ،قاری محمدجہانگیرنقشبندی ،قاری محمدزاہد،قاری عبدالواجدودیگربھی شریک تھے مولاناامتیازعباسی مجھے بتارہے تھے کہ پاکستان تحریک انصاف نے بڑاسرمایہ لگاکرسوشل میڈیاٹیم بنائی ہے جوصرف سیاسی مخالفین کی کردارکشی میں مصروف ہے کاش کہ یہ سوشل میڈیاٹیم کچھ وقت مقبوضہ کشمیرکے لیے وقف کردے توان مظلوموں کی کچھ دادرسی ہوسکتی ہے ۔ان کاعزم تھا کہ وہ جلدسوشل میڈیاکے حوالے سے مظفرآبادمیں ایک بڑاکنونشن منعقدکریں گے تاکہ کارکنو ں اورعوام کوتربیت کرکے ان کی صلاحیتیں مسئلہ کشمیرکے لیے وقف کرسکیں ۔

ان دونوں پروگراموں میں جوگفتگوکی اس کاخلاصہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کی وجہ سے معاشرے میں بہت سی اخلاقی و سماجی خرابیوں نے فروغ پایا اور ایسی سرگرمیاں بھی عروج پر ہیں جو معاشرے کے مختلف طبقات اورمکاتب فکر میں ایک دوسرے سے نفرت کو پروان چڑھانے اور باہمی انتشار اور خلفشار کا سبب بن رہی ہیں۔مختلف شخصیات کو بدنام کرنے کیلئے بے بنیاد خبروں کو پھیلانے، تصاویر اور خاکوں میں ردوبدل جیسے طریقوں کے ذریعے غلط استعمال کیاجارہاہے۔ کوئی شخص بلاروک ٹوک کسی بھی مذہبی شخصیت اور مذہبی نظریات کو مطعون کرسکتا ہے اور مخالف مذہبی سوچ کی محترم شخصیات پرکیچڑ اچھال سکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر مخالفین کیخلاف پروپیگنڈے کی مکمل آزادی کی وجہ سے معاشرے میں انتہا پسندی میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس رجحان کے باعث نہ صرف سوشل میڈیاپر بلکہ عملی زندگی میں بھی معاشرے میں کدورتیں اور دوریاں بڑھ رہی ہیں جس کی روک تھام اشد ضروری ہے۔ایسے میں دینی مدارس کے طلباء ومذہبی جماعتوں کے کارکنوں کوسوشل میڈیاپراپناکرداراداکرناچاہیے تاکہ جولوگ اس فورم کو استعمال کرکے اسلام اورپاکستان کی غلط تصویرپیش کررہے ہیں ان کاراستہ روکاجاسکے اوراسلام ،پاکستان ،دینی مدارس کی حقیقی تصویرعوام کے سامنے پیش کی جاسکے۔

Umer Farooq
About the Author: Umer Farooq Read More Articles by Umer Farooq: 129 Articles with 81749 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.