امریکہ کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا ہوگا۔؟

کویت پارلیمنٹ کے سربراہ مرزوق الغانم نے ایک ایسا عمل کردیا جس کے بعد امریکہ کے غصہ کی انتہاء نہ رہی ہوگی۔ مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے امریکہ نے فلسطین اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدہ کے نام پر اسرائیل کی مکمل طرفداری کرتے ہوئے فلسطین کے ساتھ ناانصافی کی ہے ۔ جن کے شعور بیدار ہیں اور جو فلسطینی بھائیوں پر ہونیو الے مظالم کا درد سمجھتے ہیں وہی بہتر جانتے ہیں کہ فلسطین کے ساتھ امریکی صدر نے کس قسم کا انصاف کیا ہے۔ مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے پیش کئے گئے امریکہ کے امن پلان کو کویت کی پارلیمنٹ کے سربراہ مرزوق الغانم نے ردّی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ اور کہا کہ میں عرب اور مسلم عوام کی طرف سے کہتا ہوں کہ اس سوسالہ امن سمجھوتے کی دستاویزات اور کاغذات کی اصل جگہ تاریخ کا کوڑے دان ہے۔ مرزوق الغانم ’’فلسطینی بھائیوں کے حق بجانب دعوے میں تعاون ، مدد اور مسئلہ فلسطین پورے عالم اسلام کا مسئلہ ہے‘‘ کے عنوان سے اردن میں منعقد ہونے والی کانفرنس کے دوران یہ عمل کرکے امریکہ اور دنیا کے دیگر سربراہان کو سوچنے پر مجبور کردیا۔ کانفرنس کے دوران اپنے خطاب میں مرزوق نے کہا کہ ٹرمپ کا پیش کردہ نام نہاد امن پلان مردہ پیدا ہوا ہے، ہزاروں حکومتیں بھی آئیں تو ہم اس پلان پر بات نہیں کریں گے، مسئلہ فلسطین کاپرامن حل چاہتے ہیں اور اس کیلئے مذاکرات کا ماحول بنانا پڑے گا۔انہوں نے اس یقین کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ وقت دور نہیں جب فلسطین اور بیت المقدس اپنے اصل مالکوں کے پاس لوٹ آئے گا۔

فلسطینی صدر محمود عباس کا سلامتی کونسل سے خطاب
فلسطینی صدر محمود عباس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ فلسطینی عوام امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کے امن منصوبے کو مسترد کرچکے ہیں ، مسئلہ فلسطین کو زندہ درگور کرنے کے لئے لائے جانے وامریکی امن منصوبہ’’صدی کے سودے‘‘ کا ڈٹ کا مقابلہ کریں گے۔ انہوں نے اسرائیلی عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ناجائز قبضہ تمہیں امن اور سلامتی نہیں دے سکتا‘‘۔ محمود عباس کے مطابق فلسطینی اور اسرائیلی عوام کے درمیان اب بھی امن قائم ہوسکتا ہے ، فلسطینی اتھارٹی نے قیام امن کا کوئی موقع کبھی نہیں گنوایا ہے امن کے ہر موقع کو سنجیدگی سے لیا گیا ہے کیونکہ امن کا قیام فلسطینیوں کے حق میں ہے۔ صدر فلسطین نے کہاکہ کہ امریکی امن منصوبہ بین الاقومی قانون کے خلاف ہے، یہ یکطرفہ فیصلوں کا نتیجہ ہے جس سے امن قائم نہیں ہوسکتا۔ انکا کہنا تھاکہ پتہ نہیں امریکی صدر ٹرمپ کو کون سا ادارہ فلسطینیوں کے خلاف یکطرفہ کارروائی کے مشورے دے رہا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ امریکہ کے امن منصوبے کو کئی مسلم سربراہان کی جانب سے مسترد کئے جانے کے بعد امریکی صدر کس قسم کا اظہار کرتے ہیں۔

ترک صدر رجب طیب اردغان پاکستان میں۰۰۰
ترکی صدر رجب طیب اردغان دو روزہ دورہ پر 13؍ فروری کو پاکستان پہنچے جہاں انکا استقبال وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے ایئرپورٹ پہنچ کر کیا۔ دوسرے روز یعنی آج 14؍ فروری کو ترکی صدررجب طیب اردغان پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انہیں جو موقع دیا گیا ہے یہ انکے لئے باعث فخر ہے۔ اور انہوں نے والہانہ استقبال اور مہمان نواز ی پرشکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ ترک تحریک آزادی میں پاکستانی خواتین نے اپنے کنگن دیئے، پاکستانی عوام نے پیٹ کاٹ کر ترکی کی مدد کی ہم اسے کبھی نہیں بھول سکتے، سڑکوں پر گڑگڑاکر دعائیں کرنے والوں کو ہم کیسے بھول سکتے ہیں۔ ترک قوم کی جدوجہد کے وقت لاہور میں حماتیوں کے جلسوں کو نہیں بھول سکتے، دھمکیوں کے باوجود ہمیں نہ چھوڑنے والوں کو کس طرح بھول سکتے ہیں،پاکستانی بہن بھائیو آپ سے محبت نہیں کریں گے تو کس سے کریں گے۔یہ تھے پاکستانیوں کے لئے رجب طیب اردغان کے الفاظ جو انہوں نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے موقع کئے۔ فینانشیل ایکشن ٹاسک فورس(ایف اے ٹی ایف) کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ تمام تر دباؤ کے باوجود پاکستان کو ایف اے ٹی ایف میں بھرپور حمایت کا یقین دلایا۔ انہوں نے کشمیر کے مسئلہ پر کہاکہ کشمیر ہمارے لئے بھی وہی ہے جو آپ کیلئے ہے۔ پاکستان نے دہشت گردی ختم کرنے کیلئے ترکی کا بھرپور ساتھ دیا، دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے ساتھ تعاون جاری رکھنے کا بھی انہوں نے تیقن دیا۔صدر ترکی نے کہا کہ پاکستان کے اقدامات سے تجارت اورسرمایہ کاری کیلئے ماحول بہتر ہورہا ہے لیکن معاشی خوشحالی چند دن میں نہیں ملتی، یہ ایک مسلسل جدوجہد ہے۔ رجب طیب اردغان نے کہا کہ پاک ترک دوستی مفاد نہیں محبت سے پروان چڑھی ہے ۔ انکا کہنا تھا کہ پاکستان آکر وہ خود کو کبھی اجنتی محسوس نہیں کرتے، پاکستان انکے لئے دوسرا گھر ہے۔ دیکھنا ہیکہ ترک صدر کے اس دورے کے بعد عالمی سطح پر کس قسم کا ردّعمل ظاہر ہوتا ہے ۔ ترک صدر نے جہاں دہشت گردی کے خلاف پاکستانی اقدامات کو سراہا وہیں فلسطین، قبرص اور کشمیرکے مسلمانو ں کے لئے دعا کرتے ہوئے کہاکہ مظلوم مسلمانوں کا ساتھ دینا ہمارا مذہبی اور اخلاقی فرض ہے۔انکا کہنا تھاکہ سرحد اور فاصلہ مسلمانوں کے درمیان فاصلہ پیدانہیں کرسکتے۔اﷲ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہیکہ مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں۔صدر ترک نے شام کی صورتحال پر کہا کہ شام میں ہماری موجود گی کا مقصد مظلوم مسلمانوں کو جابرانہ اقدامات سے بچانا ہے۔

دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان پھر ایک مرتبہ مذاکرات
افغانستان میں جنگ بندی اور قیام امن کیلئے کوششیں جاری ہیں۔ افغان صدر اشرف غنی ملک میں امن و سلامتی کے لئے کئی مرتبہ کوششیں کرچکے ہیں ، طالبان امریکہ کے ساتھ بات چیت کو اہمیت دیتے ہیں لیکن افغان صدر اشرف غنی کی حکومت کو کٹھ پتلی حکومت قرار دیتے ہوئے ان سے مذاکرات کرنے کو اہمیت نہیں دیتے۔ دوحہ میں کئی مرتبہ امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات ہوتے رہے ہیں، نتیجہ ہمیشہ مثبت پیشرفت بتایا جاتا رہا ہے لیکن پھر چند روز کے اندر ہی طالبان یا کسی اور کی جانب سے حملوں کردیئے جاتے ہیں ۔ کبھی افغان سیکوریٹی فورسز تو کبھی طالبان ایک دوسرے پر حملے کرتے رہے ہیں۔طالبان چاہتے ہیں کہ افغانستان سے امریکی فوج کا تخلیہ کردیا جائے۔ امریکی صدر بھی چاہتے ہیں افغانستان سے امریکی فوج کو نکال لیا جائے۔اس سلسلہ میں افغان صدر نے اپنی ٹوئٹ میں طالبان کی پیشکش کی تفصیلات نہیں بتائی تاہم انکا کہنا تھا کہ امن پرہمارے اصولی موقف دورس ثمر آور نتائج برآمد ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کے مطابق دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان جاری مذاکرات کا دائرہ تشدد میں کمی تک محدود ہے۔ماضی میں بھی جنگ بندی کے معاہدے ہوچکے ہیں ۔ افغان عوام جنگ سے بیزار ہوچکے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ ملک میں امن سلامتی رہے لیکن ایسا محسوس ہوتاہیکہ طالبان نہیں چاہتے کہ افغانستان میں امن وسلامتی قائم ہو۔امریکہ کے سکریٹری خارجہ مائیک پومپیو نے حالیہ دنوں میں افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات میں اہم پیشرفت کا دعویٰ کیا ہے۔ جبکہ اس سے قبل امریکی سکریٹری دفاع مارک اسپیر نے کہا ہیکہ انہوں نے ہفتے بھر کیلئے پرتشدد کارروائیوں میں کمی سے متعلق ایک تجویز پر بات چیت کی ہے۔واضح رہے کہ دونوں فریقین ایک لمبے عرصے سے افغانستان میں 18برس سے جاری جنگ کے خاتمے کے لئے مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس عرصے کے دوران کئی چیلنجز کا سامنا بھی کرنا پڑا ۔ گذشتہ برس ستمبر میں امریکی صدر ڈونلڈ رمپ نے کہا تھا کہ مذاکرات اپنی موت مرچکے ہیں۔ اس کے باوجود ان دنوں پھر دوحہ میں طالبان اور امریکیو ں کے درمیان مذاکرات کا عمل جاری ہے اور اس بارامریکی صدر ٹرمپ کا کہنا ہیکہ ان کی انتظامیہ افغان طالبان کے ساتھ امن ڈیل کے قریب پہنچ چکی ہے ، طالبان اُس امریکی تجویز سے متفق ہوگئے ہیں جس میں سات روز کیلئے کوئی پرتشدد کارروائی نہیں کی جائے گی۔ٹرمپ کے مطابق آئندہ دو ہفتوں کے دوران تما م صورتحال واضح ہوجائے گی۔

قازقستان کی لڑکیوں کے ساتھ دھوکہ دیہی
بحرین پولیس نے قازقستان کی 21لڑکیوں کو انسانی اسمگلروں کے چنگل سے آزاد کرالیا ہے۔ جسم فروشی کا دھندہ کرانے والے ایک گروہ نے انہیں انجام میں پھنسالیا تھا۔ قازقستان کی وزارت خارجہ کو یہ اطلاع ملنے پر کہ قازقستان کی لڑکیاں ایک غیر قانونی گروہ کے چنگل میں پھنس گئی ہیں بحرینی پولیس کو مطلع کرکے مدد طلب کی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک دھوکہ باز گروہ نے قازقستان کی ان لڑکیوں کو ہوٹل میں ملازمت کے بہانے بحرین بلایا تھا ، منامہ پہنچنے پر ان کے پاسپورٹ چھین لئے اور انہیں جسم فروشی پر مجبور کیا گیا اور انکار پر تشددبھی کیا گیا۔تمام انسانی اسمگلروں کے گروہ میں شامل افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے ۔اور لڑکیوں کو نفسیاتی مسائل سے نکالنے کیلئے اسپیشلسٹ سینٹر میں منتقل کیا گیا ہے جلد ہی انہیں انکے وطن واپس بھیج دیا جائے گا۔

حافظ سعید کو انسداد دہشت گرد عدالت کی جانب سے سزا
جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعیدکو لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدات نے دو مقدمات میں مجموعی طور پر 11سال قید کی سزا سنائی ہے۔ چہارشنبہ کو جج ارشد حسین بھٹہ نے فنڈریزنگ اور منی لانڈرنگ کے علاوہ کالعدم تنظیم چلانے اور اجلاسوں میں شرکت کرنے کے الزام ثابت ہونے پر مزید چھ مہینے کی قید کی سزا سنائی اور 15ہزار روپیے جرمانہ بھی عائد کیا ہے۔ بتایا جاتا ہیکہ حافظ سعید سمیت ان کی تنطیم کے دیگر افراد پر غیر قانونی فنڈنگ کے الزام میں ڈسمبر 2019ء میں فرد جرم عائد کی گئی تھی اور اس موقع پر ملزمان ان پر لگائے گئے جرم سے انکار کرتے ہوئے اپنے خلاف الزامات کو بے بنیاد قرار دیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ یہ الزام عالمی دباؤں کی وجہ سے لگایا گیا ہے۔ ہندوستان نے نومبر2008میں ہونے والے ممبئی حملوں کے لئے حافظ سعید اور ان کی جماعت کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ ان حملوں کے بعد ڈسمبر2008میں انہیں نظر بند کیا گیا تھا جبکہ انکی جماعت کے دفاتر کو بند کردیا گیا تھا۔حافظ سعید اس سے قبل سنہ2006میں بھی نظر بند رہے ۔ حافظ سعید کو کئی مرتبہ مختلف الزامات کیلئے انکے گھر پر نظر بند کیا گیا ۔بتایا جاتا ہیکہ حافظ سعید کو دی جانے والی دونوں سزائیں ایک ساتھ چلیں گی یعنی انہیں ساڑھے پانچ برس کا عرصہ ہی جیل میں کاٹنا ہوگا۔

شامی فوج پر کبھی بھی حملہ کیا جاسکتا ہے اگر۰۰۰۰
ترک صدر رجب طیب اردغان نے شام کو ترک فوج پر حملے کی صورت میں شام کو کارروائی سے متنبہ کیا ہے۔ اردغان پارلیمنٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے شام کو خبردار کیا کہ اگر مزید ایک ترک فوجی بھی زخمی ہوا تو ترکی شام میں کہیں بھی حملہ کرے گا اور ضرورت پڑنے پر فضائی کارروائی بھی کی جاسکتی ہے۔ رواں ماہ شامی شہر ادلب میں شامی افواج کے حملوں میں 13ترکی فوجی ہلاک ہوگئے جبکہ ترکی کا کہنا ہیکہ اس نے دونوں حملوں پر انتقامی کارروائی اور شام میں کئی اہداف کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ترکی 2018ء میں روس کے ساتھ معاہدے کے تحت شام میں باغیوں کے زیر کنٹرول علاقے میں 12آبزرویشن پوسٹیں قائم کرچکا ہے جب کہ اس معاہدے کو شامی صدر بشارالاسد کی حمایت حاصل تھی۔ ستمبر 2018ء میں ایک معاہدے کے تحت ترکی اور روس ادلب کو پر امن علاقے میں تبدیل کرنے پر رضا مند تھے۔ جہاں کسی بھی قسم کی جارحیت پر پابندی عائد کی گئی تھی لیکن شامی حکومت اور اس کے اتحادیوں نے جنگ بندی کی خلاف ورزی کی اور گذشتہ ماہ جنوری میں ادلب میں متعدد حملے کئے گئے ۔ ترکی صدر کا کہنا ہیکہ ترکی رواں ماہ کے آخر تک ادلب کے شمالی مغربی علاقے میں آبزرویشن پوسٹوں سے شامی فورسز کو نکالنے کے لئے پرعزم ہے اور ہم یہ فضائی یا زمینی کارروائی کسی بھی ضرورت کے تحت کریں گے۔ادھر روسی حکومت نے ترکی پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ شامی علاقے ادلب میں باغیوں کو بے اثر کرنے سے متعلق معاہدے پر عمل نہیں کررہا ہے کریملن کے ترجمان کے مطابق ترکی نے ایک دو طرفہ معاہدے میں ادلب میں سرگرم دہشت گرد گروپوں کو بے اثر کرنے کی ذمہ داری لی تھی مگر یہ تمام گروہ ادلب سے نہ صرف شامی فورسز کے خلاف حملے کررہے ہیں بلکہ وہ روسی فوج کے خلاف بھی کارروائیاں کررہے ہیں۔ روس کا کہنا ہے کہ شامی فورسز ادلب میں باغیوں کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہیں جو کہ یہ ان کا آخری گڑھ ہے۔ اب دیکھنا ہیکہ اگر شامی فورسز کا نشانہ ترکی کے فوجی بنتے ہیں تو ایسی صورت میں رجب اردغان کیا واقعی شامی فوج کو سخت دیں گے یا نہیں۰۰۰

مصر کے ایک شاگرد کا انتقام
مصر میں ایک پرائمری کلاس کے طالب علم نے انگلش مضمون میں فیل ہونے پر انتقام کیلئے استاد کو رکشے سے کچل کر شدید زخمی کردیا۔ پولیس نے ٹیچر کو شدید زخمی حالت میں ہاسپتل پہنچایا جبکہ مفرور طالب علم کی تلاش جاری ہے جو واقعہ کے بعد گھر بھی نہیں پہنچا۔
***

 

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 209434 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.