گلگت بلتستان کے علمی، تبلیغی، سماجی، سرکاری اور دینی
حلقوں میں یہ خبر غم و افسوس کیساتھ سنی جائے گی کہ ضلع دیامر چلاس کے
معروف عالم دین مولانا ایاز صدیقی 13فروری 2020 کو انتقال کرگئے۔کافی دنوں
سے سوشل میڈیا میں مولانا ایاز صدیقی کی علالت کی خبرگردش کررہی تھی۔
مولانا علاج کی خاطر اسلام آباد گئے تو بالآخر منشائے الہی سے اس دنیا کو
سدھار گئے جہاں ہم سب نے جانا ہے۔مولانا کی تدفین بروزجمع چلاس میں کی گئی
جہاں ہزاروں لوگوں نے نماز جنازہ میں شرکت کی۔ اناللہ واناالیہ راجعون
مولانا ایاز صدیقی کی عمر ساٹھ سال سے زائد تھی۔ شناختی کارڈ کے مطابق یکم
جنوری 1958کو مولانا ایاز نے لومر نیاٹ میں مولوی عبداللہ مرحوم کے گھرانے
میں آنکھ کھولی۔مولانا ایا صدیقی کا پورا گھرانہ دینی تھا۔آپ کے والد مولوی
عبداللہ درس نظامی کے استاد تھے۔ مولانا نصیرالدین غورغشتوی رحمة اللہ سے
دینی علوم کی تکمیل تھی۔ مولانا ایا ز نے نظم و فقہ اور صرف و نحو کی
ابتدائی کتابیں اپنے والد گرامی سے پڑھی تھی۔مولوی عبداللہ نیاٹ لومر میں
مسجد کے پیش امام تھے اور اسی مسجد میں درس نظامی کی ابتدائی کتب کی تدریس
فرمایا کرتے تھے اور اپنی گھریلوی ضروریات کی تکمیل کے لیے کاشت کاری
کرتے۔مولانا ایازصدیقی کا خاندانی پس منظر ملاخیل بھنکڑکوہستان سے ہے لیکن
مولوی عبداللہ بچپن میں نیاٹ میں آکر بسے تھے اور وہی کے ہوکر رہ گئے۔
یہ 1992کی بات ہے۔میں دوسری کلاس کا طالب علم تھا۔ اپنے تایا جان سپرنڈنڈنٹ
عذر خان کے پاس پڑھنے چلاس گیا۔پہلا جمع پڑھنے کے لیے مرکزی جامع مسجد مدنی
چلاس گیا تو ایک نوجوان عالم دین انتہائی وجہیہ چہرے کیساتھ ممبر رسول پر
براجمان تھے اور وعظ و نصائح کا انبار لگارہے تھے۔پہلی تقریر کا کوئی مفہوم
تو ذہن میں نہیں لیکن مولانا ایاز صدیقی کا نام اور چہرہ تب سے دماغ کے کسی
کونے میں محفوظ ہوگیا تھا۔پھر اٹھویں جماعت تک چلاس میں دوران تعلیم مولانا
ایاز صدیقی کے خطبات سنتا رہا ۔جمع ہو یا عیدین ، تبلیغی اجتماع یا کسی
فوتگی کی مجلس۔ ہر جگہ مولانا ایاز پہنچتے اور خطبہ ارشاد کرتے۔
یہ 2015 کی بات ہے۔ سرکار نے مجھے ڈسٹرب کرنے کے لیے چلاس ٹرانسفر کردیا
اور میں نے اس ٹرانسفری کو انجوائی کرنے کا پروگرام بنالیا ۔بہت سی
ایکٹویٹیز پیدا کرلی۔ ایک کام میری تحقیقی کتاب '' مشاہیر علما ئے گلگت
بلتستان'' کی تکمیل بھی تھا۔بہت سال پہلے اس پروجیکٹ پر کام شروع کیا
تھا۔اب تک پچاس کے قریب جید علماء کرام پر کام ہوچکا ہے۔ مولانا ایاز صدیقی
بھی میری فہرست میں شامل تھے۔ ایک دن مولانا کی خدمت میں حاضر ہوا۔ مولانا
سے پہلے ہی سے تعارف تھا۔ مختلف دینی مجالس اور مدارس میں ان سے ملاقاتوں
کا سلسلہ تھا۔ مولانا جامعہ نصرة الاسلام میں میرے پاس کئی دفعہ تشریف بھی
لاچکے تھے۔ مولانا کی خدمت میں کتاب کے لیے انٹرویو کی گزارش کی تو کمال
محبت سے مولانا نے ٹائم دیا اور دو دن بعد رات اپنے دولت کدے میں مدعو
کیا۔مولانا نے ایک پرتکلف دعوت کا اہتمام بھی کیا یوں 15اکتوبر 2015ء کو ان
سے تین گھنٹے پر مشتمل ایک طویل انٹرویو کیا۔مولانا کے گھر میں دینی وادبی
کتب کا ایک بڑا ذخیرہ تھابہت ساری کتابیں الٹ پلٹ کے دیکھی۔آج بھی وہ منظر
اور محفل بھولے نہیں بھولتی۔ آج مولانا کے انتقال کے بعد خیال آیا کہ اس
انٹرویو کا خلاصہ آپ کیساتھ بھی شیئر کروں تاکہ مرنے والے کی محبتوں کا
اعتراف ہوسکے۔
مولانا ایازصدیقی کے چھ بھائی ہیں اور بہن کوئی نہیں۔ ان کی خاندان کے لوگ
آج کل سوات میں آباد ہیں مگر ان کے والد نے یہاں شادی کی اور یہی پر مکمل
سکونت اختیار کی تھی۔مولاناایازصدیقی مرحوم کی والدہ ماجدہ کا تعلق یشکن
قبیلے سے تھا۔اپنے والد سے بالکل ابتدائی کتب مکمل کرنے کے بعد اپنے بڑے
بھائی مولوی سیف الملوک کیساتھ مزید تعلیم کے لیے داریل گئے۔ناظرہ قران کی
تکمیل بھی بھائی سے کیا۔پرائمری اسکول داریل سے پانچویں پاس کی جہاں انہیں
استاد شیر محمد سے پڑھنے کا موقع ملا ۔اور 1971کو ہائی اسکول گلگت سے مڈل
پاس کیا۔مولانا ایاز نے استاد غلام دستگیر سے پرائیوٹ مڈل کلاس کی کتابیں
پڑھی اور امتحان دیا۔ دینی علوم کیساتھ عصری علوم کا شوق انہیں بچپن سے
تھا۔ اس لیے عصرِ حاضر کی ضروریات کو مولانا اچھی طرح سمجھتے تھے۔
یہ1971 کی بات ہے۔ مولانا ایاز صدیقی تبلیغی مرکز کشروٹ میں رہائش پذیر
تھے۔مڈل کلاس کی کتابوں کے ساتھ مرکزی جامع مسجد گلگت میں دارالعلوم دیوبند
کے فاضل مولانا عبدالرزاق گلگتی المعروف گلمتی استاد سے درس لیا کرتے
تھے۔کافیہ یہی قاضی صاحب سے پڑھا اور سورة ق سے آخر تک قاضی عبدالرزاق سے
نحوی اجراء و ترکیب کی۔میراث میں سراجی اور نظم مثنوی بھی حضرت قاضی مرحوم
سے پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔مولانا حبیب اللہ مرحوم فاضل دیوبند سے سورة بقرہ
کا ترجمہ پڑھا۔محمدی مسجد کشروٹ میں مولانا لقمان حکیم مدظلہ سے ترجمہ قرآن
کی تکمیل کی ۔کچھ ایام گلاپور میں مولانا عبداالحئی سے بھی کسب فیض کیا۔یہ
تین سال کا عرصہ گزار کر مزید تعلیم کے لیے 1974ء کو کوہستان جل کوٹ تشریف
لے گئے جہاں کوہستان کے معروف عالم دین اور قاضی ،جناب قاضی فرقان سے فقہ
میں شرح وقایہ اور صرف میں صرف میر کا مکمل اجراء کیا۔1974کے آخر میں مزید
تعلیم کے لیے گلگت بلتستان کے معروف مبلغ مولانا عیسیٰ خان صاحب کی معیت
میں ملک کی معروف دینی درسگاہ جامعہ دارالعلوم تعلیم القرآن پنج پیر گئے
جہاں شیخ القرآن مولانا طاہر پنج پیری مرحوم سے دورہ تفسیر کیا۔ شیخ القرآن
طاہر پنج پیری کا قرآن کیساتھ عشق تھا،والہانہ عقیدت تھی۔پنج پیر اپنے عہد
کے یگانہ فاضل،زہدو ورع کا مجسم،فضل و کمال کا مجسمہ دنیائے قرآن کا ایک
بڑا نام تھا۔علوم دینیہ کیساتھ علوم قرآن کا واقف رموز اورفہم قرآن کا
دانائے اسرار تھا۔اسی عشق و عقیدت اور قرآن سے محبت نے، مولانا ایاز کو
اتنا کھینچا کہ چھ سال مسلسل ان کے پاس دورہ تفسیرالقرآن کے اسباق
لیے۔مولانا ایاز صدیقی کو قرآن کریم سے سخت لگاو ہوا تو قرآنی علوم میں
مزید پختگی کے لیے مسلسل چار دفعہ جامعہ تعلیم القرآن راولپنڈی میں شیخ
القرآن مولانا غلام اللہ خان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیے اورقرآنی برکات
سمیٹتے رہے۔مولانا غلام اللہ خان صاحب اسلوب مفسر ہیں۔تفسیر اور فہم قرآن
میں ان کا اپنا نام و مقام ہے جو مسلم ہے۔ اتنے عظیم استادوں سے رموز قرآن
سیکھنے کے باجود بھی ان کا دل نہیں بھرا۔سچ یہ ہے کہ قرآن ایک ایسا خزانہ
ہے جس سے جتنی موتیاں اور ہیرے نکال لیے جائیں، مزید علمی موتیوں کی تلاش
کی لگن بڑھ جاتی ہے اور پیاس بجھائی نہیں بجتی۔اس پیاس نے اتنا مجبور کیا
کہ شیخ القرآن غلام اللہ خان نوراللہ مرقدہ کی وفات کے بعدقرآن کے لعل و
گہر کے حصول کے لیے شیخ القرآن مولانا عبدالسلام رستمی کی درگاہ قرآن میں
پہنچے ۔اور تین دفعہ ان کے تفسیری دوروں سے اپنے دامن کو لعل و گہر سے
بھردیا۔ مدرسہ اشاعت التوحید والسنہ میں مختصرالمعانی مولانا عبدالباقی
رستمی، ھدایہ مکمل مولانا عبدالسلام رستمی،جلالین مولانا احسان الحق رستمی
سے پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔کچھ عرصہ سوات میں بھی زیر تعلیم رہے۔دارالعلوم
سیدو (گورنمنٹ والی) میں شرح جامی وغیرہ مولانا رحیم اللہ اور مولانا زرداد
صاحب سے پڑھا۔۔ مولانا عبدالہادی اور مولانا عیسیٰ خان سے کنزآخر کی تکمیل
کی۔کھنر چلاس میں کچھ عرصہ مولانا حق داد سے منطق پڑھی۔چلاس کے معروف عالم
دین مولانا عبدالروف چلاسی فاضل دارالعلوم دیوبند سے کنزالدقائق کے کچھ حصے
اور ترجمہ قرآن پڑھنے کی سعادت حاصل کی۔بالآخر 1978کو جامعہ خیرالمدارس
ملتان سے سند فراغت حاصل کی۔مولانا ایاز صدیقی کو مولانا محمد شریف کاشمیری
سے بخاری شریف اور ترمذی، مولانا مفتی صدیق سے بخاری کی کتاب
التفسیر،مولانا شریف جالندھری سے شمائل ترمذی پڑھنے کی عظیم سعادت حاصل
ہوئی اور قاسم العلوم میں مفتی محمود سے مسلم شریف اور ترمذی کے کچھ ابواب
بھی پڑھ لیے۔مولانا عبدالستار تونسوی سے ملتان میں علمِ مناظرہ پڑھا۔اور
مولانا صدیق دیوبندی سے سوات زرخیل میں چار ماہ کا دورة اللغة العربیہ
کیااور علم میراث کے اہم مسائل بھی حل کرلیے۔علم منطق و فلسفہ کی تمام اہم
کتب کوہستان کے سب سے بڑے فلسفی مولانا عبدالحلیم کوہستانی سے پڑھا۔کچھ
عرصہ کراچی میں بھی تعلیم حاصل کی۔کراچی کے تبلیغی مرکز میں 1972کو شیخ
الحدیث مولانا زکریا رحمہ اللہ سے دو احادیث پڑھنے کا شرف حاصل کیا۔مدرسہ
ربانیہ ناظم آباد میں مولانا نورالہدیٰ اور جامعہ فاروقیہ کراچی میں شیخ
الحدیث مولانا سلیم اللہ خان سے کافیہ آخر دوبارہ پڑھا۔ حضرت شیخ کیساتھ
مری کا سفر بھی کیا اور ایک پورا مہینہ ان کی خدمت کی۔استاد محترم سلیم
اللہ خان نوراللہ مرقدہ سے شرف تلمذ ہونے کی وجہ سے مولانا ایاز صاحب مرحوم
میرے بھی استاد بھائی ٹھہرے ، اگر چہ مولانا مرحوم میرے اساتذہ سے بھی
سینئر عالم دین تھے۔مولانا نے بتایا تھا کہ انہوں نے مسلسل 21سال دینی علوم
و فنون کی تکمیل میں صرف کیے۔
مولانا ایاز صدیقی نے اپنے کیئریر کا آغاز اوگی میں دارالعلوم سعیدیہ سے
کیا۔1981ء کو جامعہ دارالعلوم تعلیم القرآن راولپنڈی میںمدرس مقرر ہوئے۔
1982 کو مدرسہ تعلیم القرآن سوات میں پڑھانا شروع کیا دو سال یہی
پڑھایا۔فراغت اور تدریس کے شعبے سے منسلک ہونے کے بعد بھی مختلف جگہوں میں
جاکر تحصیل علوم و فنون کرتے رہے ، بالآخر 1987ء کو چلاس آئے جہاں جامع
مسجد مدنی کی تعمیرات کا آغاز ہوچکا تھا۔مولانا کی نگرانی میں مسجد کا کام
ہوتا رہا۔تین سال جامع مسجد میں خدمات کے بعد فاضل دیوبندمولانا عبدالروف
اور ایس پی امیرحمزہ نے جمع پڑھانے کا حکم دیا۔1990کو مرکزی جامع مسجد مدنی
چلاس میں پہلا جمع پڑھا۔اور درس قرآن کا آغاز کیا۔ چار دفعہ شروع سے آخر تک
مسجد میں درس قرآن کی تکمیل کی، یوں عامة الناس کی ایک بڑی تعداد آپ کے
حلقہِ تلمذ میں شامل ہوئی۔مسلسل 33سال جامع مسجد مدنی چلاس میں وعظ و اصلاح
فرماتے رہے۔جامع مسجد چلاس کے تہہ خانے میں درس نظامی کے طلبہ کو چار سال
پڑھایا۔چلاسی بابا کی دارالعلوم عروة الوثقی میں علم میراث پڑھایا۔1990کو
دعوت تبلیغ کے سفر میں نکلے۔سوڈان، مصر، میں سال کا تبلیغی سفر ہوا۔ 1996کو
سات ماہ کی جماعت کیساتھ یمن اور قطر کا سفر کیا۔ 1997 کو ماسکو، ڈنمارک،
جرمن اور سویڈن میں خصوصی جماعت کے ساتھ تشریف لے گئے۔یہ چار اشخاص پر
مشتمل رائے ونڈ کے بزرگوں کی ایک جماعت تھی جن میں آپ کے رفقاء میں ڈاکٹر
حق نواز، ڈاکٹر منظور احمد امیر تبلیغی جماعت مظفر آباد اور پنڈی کے بزرگ
بابر جاوید شامل تھے۔
مولانا ایاز صدیقی کی تعلیم و تبلیغ کے لیے بے انتہا خدمات ہیں۔ 1988میں
مدرسہ خدیجة الکبریٰ کے نام سے چلاس شہر میں خواتین کا تعلیمی ادارہ رجسٹرڈ
کروایا۔اور چلاس شہر میں لڑکیوں کی تعلیم کا آغاز کیا۔شاید یہ دیامر میں
خواتین کی تعلیم کا پہلا رجسٹرڈ ادارہ ہے۔جب ان سے پوچھا کہ اب ادارے کی
کیا پوزیشن ہے تو کہا ''کہ اس وقت(2015) 170 غیر رہائشی طالبات مدرسہ میں
پڑھ رہی ہیں۔وفاق المدارس العربیہ کے تمام درجات کی تعلیم دی جاتی ہے''۔اس
کے علاوہ مولانا کے گھر میں ناظرہ قرآن اور ترجمہ قرآن کا الگ انتظام
تھا۔اپنے ہی مدرسہ میں مولانا نے درس نظامی کی تمام کتب بار بار پڑھائی اور
ایک طویل عرصہ احادیث کی کتب پڑھائی۔یوں لاکھوں مردوں کے ساتھ ہزاروں
خواتین کا بھی استاد ٹھہرے۔
مولانا ایاز صدیقی تصوف و طریقت اور اصلاح احوال کے آدمی تھے۔معروف روحانی
شخصیت ختم نبوت کے امیرمرکزیہ مولانا خواجہ خان محمد مرحوم سے اصلاحی تعلق
قائم کیا۔ ہرسال رمضان المبارک میں دس دن حضرت کی خانقاہ میں گزارتے اورکسب
فیض کرتے۔ خواجہ خان محمد نوراللہ مرقدہ کی طرف سے انہیں خلافت بھی عطاء کی
گئی تھی۔مولانا ایاز صدیقی نے مولانا عنایت اللہ شاہ بخاری، مولانا قاضی
شمش الدین اور مولانا عبدالحق سے بھی روحانی تربیت حاصل کی تھی۔مولانا عمر
پالن پوری، قاری محمد طیب ، مولانا یوسف بنوری اور مفتی شفیع عثمانی سے بھی
مختلف اوقات علمی اور روحانی مجالس میں استفادہ کرتے رہے۔
میرے استفسار پر بتایا کہ ''حیاة الصحابہ، جواہرالقرآن، معارف القران لشفیع
پسندیدہ کتب میں شامل ہیں۔جواہرالقرآن اور معارف قرآن سے اپنا درس قران
تیار کرلیتا ہوں''۔مثنوی کے بہت سارے اشعار مولانا ایاز صدیقی کو زبانی یاد
تھے۔ اپنے دروس ، تقاریر اور عام گفتگو میں خوب استعمال کرتے۔مولانا ایاز
نے بتایا کہ'' تمام دینی تحریکات سے محبت ہے لیکن عملی طور پر ساری عمر
تبلیغی جماعت سے جڑا رہا۔ اور جہاں جہاں دینی تحریکات کو ضرورت پڑی حاضر
ہوا''۔مولانا میرغیاث، مولانا شیرافضل، مولانا افسر، مولانا فضل
الرحمان،مولانا گل مس اورمولوی نذیر بھی مولانا ایاز صدیقی کے استاد رہے۔
مولانا ایاز صدیقی نے دو شادیاں کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے نو بیٹے اور دس
بیٹیاں عنایت کی۔مولانا کی چھ بیٹیاں درس نظامی کی تکمیل کرچکی ہیں۔او ر دو
نے حفظ قرآن بھی کیا۔باقی چھوٹی بیٹیاں پڑھ رہی ہیں۔اور بیٹے بھی دینی علوم
سے بہرہ ور ہورہے ہیں۔ بڑے بیٹے کا نام مولانا حسین احمد مدنی ہے جو عالم
دین ہیں۔
میں جب تک چلاس میں رہا مولانا سے گاہے بگاہے ملاقات ہوتی رہتی۔مولانا گلگت
تشریف لاتے تو بھی ملاقات ہوتی۔ مولانا مرحوم سے آخری ملاقات اس سال حرمین
شریفین میں ہوئی جہاں مولانا فریضہ حج ادا کرنے کے لیے تشریف لائے تھے۔
اللہ نے انہیں کئی بار حرم میں بلایاتھا۔حرم میں جیسے ہی ملاقات ہوئی
تومولانا نے عربی میں بات چیت شروع کیا۔یقین جانیں! مولانا ایاز صاحب کمال
کی عربی بولتے تھے۔ ان کی عام گفتگو بھی عربی اور فارسی کے اشعار سے مملوء
ہوتی۔شینا گفتگو میں بھی ردیف و قافیہ خوب استعمال کرتے۔کلام میں چاشنی
پیدا کرنا اور حس مزاح بڑھانے میں کوئی ان کا ثانی نہیں تھا۔کچھ عرصہ سے
مولانا کوشدید بخار ہونے لگا۔چلاس میں مرض تشخیص نہیں ہوا تومولانا علاج
واسطے اسلام آباد چلے گے جہاں جگر پر کینسر تشخیص کی گئی۔جب مولانا کی
علالت کا سنا تو دل مسوس ہوا لیکن انسان دعا کے علاوہ کیا کرسکتا ہے۔ دوران
علاج مولانا اللہ کو پیارے ہوگئے. ان کی میت چلاس لائی گئی ۔ہزاروں لوگوں
کا جنازہ پڑھانے والے مولانا ایاز صدیقی کی نماز جنازہ چلاس عیدگاہ میں ان
کے بڑے بیٹے نے پڑھائی جہاں ہزاروں لوگ شامل ہوئے۔بلاشبہ مولانا ایاز صدیقی
کا جنازہ چلاس کا سب سے بڑا جنازہ تھا۔ مولانا ہر قبیلہ اور مکتب فکر کے
لیے قابل قبول تھے۔ کیا عوام ، کیا طلبہ اور کیا علماء، غرض سرکار سمیت ہر
ایک مولانا سے محبت کرتا کیونکہ مولانا سب سے محبت کرتے تھے۔صحیح معنوں میں
مرجع خلائق تھے۔مولانا شرافت کا نمونہ تھے۔بہت سے کمالات کا مجموعہ
تھے۔اخلاص اور حسن عقیدت کے پیکرتھے۔حسن عقیدت و اخلاق کے اس پیکر کو کینسر
جیسی موذی مرض نے آلیا۔مولانا اس مصیبت کو جھیلتے رہے لیکن بے صبری کی آہ
اور تکلیف کی کراہ کبھی ان سے نہیں سنی گئی۔صبر و شکر کا دامن چھوٹنے نہیں
دیا۔دیکھنے والوں نے مولانا کی علالت کی حالت دیکھی تو آنسو بھر لائے۔پھر
ان کے انتقال پر ہر ایک نے نوحہ کیا۔کیا اپنے کیا غیر سب نے مولانا کی
عافیت کے لیے دعائیں کی لیکن رب العالمین نے انہیں اپنے ہاں بلالیا۔سچ یہ
ہے کہ مرنے والے کا مدفن تو زمین کا ایک ٹکڑا ہوتا ہے۔مگرمولانا ایاز کا
مزار تو ان کے چاہنے والوں کا دل ہے۔بڑی دیر تک وہ ان کے دلوں میں رہیں
گے۔مرنے والے مرجاتے ہیں لیکن چاہنے والے دعاوں سے عرش الہی ہلا دیتے
ہیں۔مولانا شوق سے جائیے، لاکھوں کی دعائیں آپ کیساتھ ہیں۔ اللہ تعالی کی
رحمتیں آپ کا منتظر ہیں اور رحمت الہٰی تیرے لیے چشم براہ ہے۔حق مغفرت کرے
عجب آزاد مرد تھا۔ |