دین اسلام اپنی حقیقت کے لحاظ سے سے تزکیۂ روح کا دین ہے
اور تصوف اس دین کا جوہر ہے، تصوف اسلامی تاریخ کے روزِ اول سے ہی پوری آب
و تاب کے ساتھ مطلعِ حیات پر جگمگا رہا ہے، تصوف اسلام کا فروغ، اسلام کی
معنوی قوت اور اس کی بقا کا ضامن ہے… واقعات شاہد ہیں کہ آج دنیا میں اسلام
جس قدر بھی پھیل رہا ہے وہ صرف اور صرف تصوف اور روحانیت کے بل بوتے پر ہی
پھیل رہا ہے… اسلامی معاشرہ میں تصوف کے علمبردار اولیاءعظام اور
صوفیاءکرام ہیں… آج بھی پورے عالم اسلام میں دین کی بہار اور روحانیت کی
مہکار انہیں پاکیزہ ہستیوں کے آستانوں سے قائم ہے…
انہیں باکمال نفوس قدسیہ میں سے، عمدةالاتقیاء، جانِ اولیاء، عمدۃالعارفین،
سماحۃ الشیخ، خواجہ خواجگاں، صاحبِ علوم و عرفاں، رہبرِکاملاں،
رہنمائےعارفاں،ہادی ناقصاں، قطبِ عالَم، حضرت خواجہ جان محمد کریمی تونسوی
رحمة اللّٰه تعالیٰ علیه ،کی ذات والا برکات ہے…
.
آپ کے والدِ کریم کا نام حضرت خواجہ نور محمد رحمۃ اللہ تعالی علیہ ہے…
آپ امرتسر کےگاؤں مہنیاں میں پیدا ہوئے بعد ازاں آپ کے والدین کریمین وہاں
سے ہجرت فرماکر 39 ایس پی تشریف لے آئے جو کہ پاکپتن شریف سے تقریباً
اٹھارہ کلومیٹر کی دوری پر شمال مشرق میں واقع ہے… آپ کے فیضان سےاہل علاقہ
اس قدر مستفیض ہوئے کہ آپ کی آمد کے بعد یہ گاؤں 39 ایس پی کے بجائے انتالی
شریف کے نام سے مشہور ہوا…
آپ نہایت حسین و جمیل اور شب زندہ دار تھے، یہ آپ کے خواصِ مبارکہ میں سے
تھا کہ جب بھی آپ کروٹ لیتے تو سینہ مبارک سے ایسی آواز سنائی دیتی کہ جیسے
ساٹھ آدمی بیک وقت ذکر ھو ھو کر رہے ہوں…
مجاہدہ و ریاضت آپ کا معمول تھا… آپ کی سیرت بھی دلنشیں تھی اور صورت بھی…
والدین سے محبت کی اگر بات کی جائے تو والدین کے اتنے نیازمند کے حکم عدولی
کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا…
سخاوت کا یہ عالم تھا کہ ایک دفعہ خانہ بدوش آپ کے پاس یکے بعد دیگرے آنے
لگے آپ نے سب کو عطا فرمایا حتیٰ کہ جسم کے تمام کپڑے دے ڈالے اور خود کو
صَف میں لپیٹ لیا…
آپ کو درسِ نظامی پر دسترس حاصل تھی مزید یہ کہ نہ صرف انگلش پر بلکہ بقیہ
علومِ جدیدہ پر بھی کامل درک تھا، آپ ایک عرصہ شملہ میں مقیم رہے جہاں علوم
جدیدہ کو ذریعہ تبلیغ بنایا جس کے باعث متعدد انگریز آپ کے دستِ حق پر حلقہ
اسلام میں داخل ہوئے…
آپ نے مرشدِ کریم کے حکم پر ایک عرصہ تک جامعہ سلیمانیہ تونسہ شریف میں
مسند تدریس کو زینت بخشی بعد ازاں آپ پاکپتن شریف میں آستانہ عالیہ
فریدالحق والدین، پر تدریس میں مشغول رہے اور پھر آپ نے انتالی شریف میں
مستقل طور پر تدریس کے فرائض سرانجام دیے…
آپ تاجدار معرفت حضرت خواجہ اللہ بخش کریم سلیمانی تونسوی رحمۃ اللہ تعالی
علیہ کے حلقہ ارادت و تربیت میں شامل تھے آپ نے اس رضائے خالق کے متلاشی کو
جام معرفت پلا کر آپ کے سینے کو منبع نورونکہت اور مصدرِ فیض و کرامت بنا
دیا…
آپ اپنے مرشد کریم سے بے پناہ محبت فرماتے تھے مگر یہ محبت یکطرفہ نہ تھی
بلکہ شہنشاہ ولایت رحمۃ اللہ تعالی علیہ کو بھی اس مریدِ صادق سے والہانہ
عشق تھا… اس والہانہ عشق کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب آپ
رحمۃ اللہ تعالی علیہ زیارتِ مرشد کے لئے انتالی شریف سے تونسہ مقدسہ کی
طرف روانہ ہوتے تو مرشد کریم محبِ خاص کے لیے تونسہ مقدسہ کے باہر تک خیر
مقدم کے لیے تشریف لاتے… نیز فرماتے "ہم نے آپ کو اللہ کریم سے سوالی بن کر
طلب کیا ہے آپ تو ہماری مراد ہیں"
ایک دفعہ جب آپ نے مرشدِ کریم سے رخصت کی اجازت طلب کی تو مرشد کریم تونسہ
مقدسہ سے چھ میل کی دوری تک آپ کی معیت میں تشریف لائے (نئےسنگڑ دریائے
سندھ کی ایک شاخ ہے) وہاں آپ کو مرشد کریم نے خصوصی دعا سے نواز کر فرمایا
کہ یہاں سے سیدھے جائیں، اجازت ہے… تو اپنے مرشد کریم کے حکم پر قدم رکھا
اور دریا عبور کر لیا مگر کیفیت یہ تھی کہ جیسے آپ خشک سڑک پر چل رہے ہیں
یہاں تک کہ آپ کے پاؤں تک بھی تر نہ ہوئے تھے…
درج ذیل کتب میں شہنشاہ تونسہ مقدسہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے خلفاء میں قطب
عالم حضرت خواجہ جان محمد کریمی تونسوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کا نامِ گرامی
بھی تحریر کیا گیا…
تتمہ مناقب المحبوبین (تذکرہ سجادگانِتونسوی)
مشائخ چشت
تذکرہ خواجگان تونسوی
تذکرہ خواجہ شاہ اللّٰه بخش تونسوی
حضرت خواجہ اللہ بخش کریم تونسوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کا آپ پر اس قدر
خصوصی لطف و کرم تھا کہ ایک دفعہ "بنّوں"سے دو پٹھان آپ کی بارگاہ میں عرض
گزار ہوئے کہ دعا فرمائیں کہ اللہ پاک ہمیں جنتی بنائےتو آپ نے انہیں
فرمایا کہ "جنت کی چابیاں تو حضرت خواجہ جان محمد رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے
پاس ہیں" …
مرشد کریم آپ کے حال سے اس قدر واقف تھے کہ ایک دفعہ آپ نے اعلان کروا دیا
کہ جس نے فرشتے کی زیارت کرنی ہے وہ کل فجر کی نماز آستانہ عالیہ کی مسجد
میں ادا کرے اس اعلان کے بعد لوگوں کا ہجوم صبح مسجد میں حاضر ہوا تو آپ نے
مسجد کے ایک کونے میں چادراوڑھے مراقبہ میں بیٹھے ایک شخص کی طرف اشارہ
کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ "لوگو! دیکھو وہ فرشتہ صفت انسان کونے میں سر
جھکائے اپنے رب کی بارگاہِ بے کس پناہ میں بیٹھا ہوا ہے، وہ فرشتہ ہی تو
ہے"… لوگوں نے دیکھا تو وہ حضرت خواجہ جان محمد رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی
ذات والا برکات ہی تھی…
یوںہی ایک دن آپ آستانہ عالیہ حضور بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ
تعالی علیہ کی مسجد میں مراقب تھے کہ حضرت دیوان سید محمد (پچیسویں سجادہ
نشین آستانہ عالیہ حضور بابا فرید الدین رحمۃ اللہ علیہ)، نے آپ کی طرف
اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ لوگو "یہ فرشتہ ہے" …
آپ کے ایک خلیفہ ابوالنور محمد صدیق انتالوی صاحب (جو کہ ابوالخیر مفتی
محمد نور اللہ نعیمی قادری صاحب کے والد گرامی ہیں) فرماتے ہیں کہ حضرت قطب
عالم کو کشفِ قلوب کے ساتھ ساتھ کشفِ قبور بھی حاصل تھا آپ نے بار ہا زہد
الانبیاء حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے
گفتگو کا شرف بھی حاصل کیا…
فقیہ اعظم مولانا ابوالخیر مفتی محمد نور اللہ نعیمی قادری رحمۃ اللہ تعالی
علیہ، تحریر فرماتے ہیں کہ آپ ایک رات مسجد میں اکیلے ذکر و اذکار میں
مصروف تھے کہ پچھلی شب ایک شخص مسجد میں داخل ہوا اس نے دیکھا کہ آپ کے
ہاتھ، پاؤں، سر اور دھڑ جدا جدا مصروفِ ذکر ہیں وہ چلایا کہ لوگو حضرت صاحب
کو کسی ظالم نے قتل کر دیا ہے آواز سن کر لوگ جمع ہو کر مسجد کی طرف بھاگے
اسی اثناء میں آپ صحیح سالم نمودار ہوئے اور مسجد سے باہر تشریف لے گئے…
آپ کے ایک اور خلیفہ مولانا روشن دین انتالوی فرماتے ہیں کہ آپ دہلیز پر
کھڑے اپنا پاؤں اٹھاتے، کبھی اندر، کبھی باہر جاتے یہ عمل متواتر سات بار
فرمایا، میں نے دریافت کیا کہ آپ کیا کر رہے ہیں فرمانے لگے میں نے سنا ہے
کہ اولیاء اللہ کے سامنے زمین اڑھائی قدم ہے لیکن میرے سامنے تو ایک قدم
بھی نہیں (اسے بطور تحدیث نعمت ارشاد فرمایا)...
حضرت خواجہ جان محمد تونسوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کو اللہ پاک نے دو
صاحبزادیاں اور چار صاحبزادے عطا فرمائے جن میں سے حضرت مولانا الحاج مفتی
محمد کرم الدین حامدی انتالوی رحمۃ اللہ علیہ، علمی و روحانی مقام رکھتے
تھے انہیں حضور قطب عالم نے قبل از وصال اپنا ولی عہد مقرر فرمایا…
آپ کے خلفاء بکثرت ہیں جن میں سے چار مندرجہ ذیل ہیں…
عارف کامل حضرت مولانا الحاج محمد کرم الدین حامدی انتالوی (انتالی
شریف،پاکپتن شریف )
حضرت خواجہ الحاج ابو النور محمد صدیق انتالوی (والدِ ماجد حضرت مفتی محمد
نور اللہ نعیمی قادری رحمۃ اللہ تعالی علیہ، بصیرپور،اوکاڑہ)
حضرت علامہ مولانا روشن دین انتالوی (اوکاڑہ)
حضرت سید غلام علی شاہ گیلانی انتالوی (حویلی لکھا، اوکاڑہ)
تعلیم و تدریس، دعوت و تبلیغ اور اصلاح و تربیت کے عظیم مشن میں آپ نے ساری
زندگی بَتا دی، اَن گنت لوگ آپ سے فیض یاب ہوئے اور آج بھی آپ کے آستانہ
عالیہ سے دین و دانش اور تقوی و روحانیت کی خیرات بٹ رہی ہے… آپ نے
١٣٣٨ھ/١٩٢٠ء کو رحلت فرمائی اور آپ کا مزار شریف انتالی شریف (39/sp)
پاکپتن شریف میں ہے…
اللہ کریم ان کے مزار پر کروڑوں رحمتوں کا نزول فرمائے اور ان کے صدقے
ہماری بخشش ہو...آمیـــن
نوٹ:
خواجگان انتالی شریف کا سالانہ عرس مبارک 19-20 ربیع الثانی کو نہایت عقیدت
و احترام سے منایا جاتا ہے
|