پاک سعودی تعلقات اور او آئی سی

ہمارے ملک میں کچھ نادان دوست،پراکسی وار،،اور پاک سعودی تعلقات خراب کرنے کے لیے کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے وہ اس تاک میں ہوتے ہیں کہ کب انہیں موقع ملے اورکسی کے مذموم ایجنڈے کی تکمیل کے لیے اپناحصہ ڈال سکیں ،ترکی کے صدرطیب اردوان کے دورہ پاکستان اوروزیراعظم عمران کے دورہ ملیشیاء کے موقع پرایساہی ہوا۔دورہ ملائشیاکے دوران عمران خان نے یہ بیان دیاکہ وہ دسمبرمیں کوالالمپور اجلاس میں اس لیے شرکت نہیں کرسکے تھے کیونکہ چند ممالک جو 'پاکستان سے قریب' ہیں، کا ماننا تھا کہ اس سے مسلم امہ تقسیم ہوگی۔اس بیان کے بعد یہ خبرچلائی گئی کہ سعودی عرب کشمیرکے معاملے پراوآئی سی کااجلاس نہیں بلارہاابھی یہ مذموم مہم ختم ہی نہیں ہوئی تھی کہ طیب ارودان کے دورہ کے موقع پرایک نئی مہم شروع کی گئی کہ سعودی عرب میں پاکستانیوں کی شامت آگئی ہے ہزاروں پا کستانیوں کی پکڑدھکڑ جاری ہے ، اب تک 30ہزار پاکستا نی پکڑے جا چکے ہیں۔ جہا ں پاکستانی کیمو نٹی آباد ہے وہاں درجنوں پولیس گاڑیاں اسے گھیرا ڈالتی ہیں پھر افراد کو پکڑ رہی ہیں، پاکستانی گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں۔ خبرمیں یہ بھی مصالحہ لگایاگیاکہ سعودی حکومت نے کوالالمپور سمٹ میں وزیر اعظم کی شرکت کے موقع پر دھمکی دی تھی کہ ہم 40لاکھ پاکستانیو ں کو واپس بھیج سکتے ہیں۔

اس زہریلے پروپیگنڈہ کے خلاف جدہ میں پاکستانی قونصل جنرل کومیدان میں آناپڑا انہوں نے دفترخارجہ کومراسلہ بھیجاجس میں مکہ ریجن میں پاکستانیوں کو گرفتار کرکے شمیسی جیل بھیجنے کی خبروں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے انھیں پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کو خراب کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔ سعودی حکام تمام قومیتوں کے غیرقانونی تارکین وطن کو گرفتار کرکے انھیں ملک بدر کرتے ہیں۔ یہ مشق سال بھر میں مختلف اوقات میں جاری رہتی ہے۔ حالیہ مہم کا آغاز ایسے افراد کے خلاف کیا گیا ہے جو اقامے پر لکھے گئے پیشے کی جگہ دیگر شعبوں میں کام کر رہے ہیں (اور یوں قانون شکنی کے مرتکب ہو رہے ہیں)۔ اس سلسلے میں گزشتہ تین روز میں 400 کے قریب پاکستانیوں کو شمیسی ڈیپورٹیشن مرکز لایا گیا ہے۔بیان کے مطابق پکڑ دھکڑ کی مشق معمول کی کارروائی کا حصہ ہے جس میں کبھی شدت اور کبھی نرمی کی جاتی ہے یہ کہنا کہ یہ مہم صرف پاکستانیوں کے لیے مخصوص ہے، بالکل غلط ہے۔

قونصل خانے کے بیان میں کہا گیا ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے اس طرح کی خبروں کی تشہیر نے پاکستانی کمیونٹی میں غیر ضروری اضطراب اور بے یقینی پیدا کر دی ہے۔ سوشل میڈیا کے کچھ حصے اسے گمراہ کن سیاسی زاویے کے طور پر پیش کر رہے ہیں،یہ پاک سعودی برادرانہ تعلقات کے مفاد میں ہے کہ اس طرح کے بے بنیاد اور غیر ذمہ دارانہ بیانات سے ہر قیمت پر گریز کیا جائے۔قونصل خانے نے مکہ ریجن میں مقیم پاکستانیوں کو یہ بھی ہدایت کی ہے کہ سعودی عرب میں پاکستانی کمیونٹی سے ہماری درخواست ہے کہ وہ پرسکون رہیں اور اس من گھڑت سوشل میڈیا مہم پر توجہ نہ دیں۔پاکستان قونصلیٹ اس معاملے میں سعودی حکام سے مستقل رابطے میں ہے اور پاکستانی کمیونٹی کے مفادات کے تحفظ کے لیے مقامی قواعد و ضوابط کے تحت ہر ممکن اقدام اٹھارہا ہے۔

جہاں تک اوآئی سی کاتعلق ہے تواسلامی تعاون تنظیم امت کے ایشوزسے غافل نہیں ہے ہراہم موقع پراوآئی سی نے اپناکرداراداکرنے کی کوشش کی ہے کشمیرکے مسئلے پرجہاں ہماری حکومت ہتھیارڈال چکی ہے وہاں اوآئی سی کیاکرداراداکرے گی؟ حالت تویہ ہے کہ ترکی کے صدرجس دن پاکستان میں کھڑے ہوکرانڈیاکوللکاررہے تھے اورکشمیریوں کی حمایت کا اعلان کررہے تھے اسی دن ہمارے وزیراعظم اپنے سیاسی مخالف مولانافضل الرحمن کے خلاف آرٹیکل 6لگانے کی بات کرکے شہ سرخی بناتے نظرآرہے تھے ،جہاں تک ملائشیاکانفرنس کاتعلق ہے تو57اسلامی ممالک کے سربراہوں میں سے صرف تین ایران ، ترکی اور قطر کے سربراہان شریک ہوئے تھے اس میں اگرپاکستان شریک ہوجاتاتوکیسے مان لیاجائے کہ مسلم امہ تقسیم ہوجاتی ؟اگردواسلامی بلاک بن جاتے ہیں یاہم اوآئی سی کوچھوڑدیتے ہیں یااوآئی سی کوتوڑدیاجاتاہے توسوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں پاکستان کیا حاصل کرلے گا؟ الٹا ہم مزید تنہائی کا شکار ہوجائیں گے اس وقت او آئی سی کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کشمیر کے معاملے پر جدوجہد کرنی چاہیے۔
گزشتہ دنوں جدہ میں او آئی سی کے تحت کونسل برائے وزرائے خارجہ (سی ایف ایم)کا47 واں اجلاس ہوا او آئی سی 57 مسلمان اکثریت ممالک پر مشتمل کونسل ہے جس کے اندر بیشتر کمیٹیاں مسلم امہ کو درپیش مسائل پر اپنی طرف سے تگ و دو کرتی رہتی ہیں۔ان سبھی ممالک کے سربراہان کی مصروفیات اور ہفتہ وار ملاقات ممکن نہ ہونے کی صورت میں سی ایف ایم یعنی ان ممالک کے وزرا ء خارجہ کی ایک کونسل تشکیل دی گئی ہے، جو ان ممالک کے آپسی اور دیگر ممالک کے ساتھ مسائل اجاگر کرتے ہیں۔سی ایف ایم اجلاس ہر سال مختلف رکن ریاست میں ہوتا ہے۔ اب تک پاکستان نے چار سی ایف ایم اجلاس1970، 1980، 1993 اور 2007 میں منعقد کیے ہیں۔ او آئی سی کا سی ایف ایم اجلاس دوسرا بڑا فیصلہ ساز اجلاس ہے اور اگلے سال سی ایف ایم کااجلاس اسلام آباد میں متوقع ہے۔

او آئی سی کے تحت شکایات کا کوئی طریقہ کار تو نہیں ہے البتہ کشمیریوں کے حقوق اور انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں ہونے والی پامالیوں پر ایک جامع رپورٹ مرتب کی جاتی رہی ہے،اس کے ساتھ ساتھ اسلامی ملک سعودی عرب ان ممالک میں سر فہرست ہے جنہوں نے سرکاری سطح پر مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے پاکستان کے موقف کی کھل کر تائید کی ہے ۔ سعودی عرب نے مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر بے چینی کا اظہار کیا ہے۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروہوں اور عالمی میڈیا سمیت مختلف فورمز پر کشمیر کے حوالے سے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ اس طرح بھارت پر دبا ؤتو بڑھے گا لیکن کشمیر کے حوالے سے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کروانے کے لیے ہمیں ابھی بہت کچھ کرناہوگا۔

دنیا میں تقریبا 57 مسلم اکثریتی ممالک موجود ہیں، جو ایک زنجیر کی طرح آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں پاکستان سے لے کر ایشیا و یورپ کی سرحد پر واقع ترکی تک اور مشرق وسطی کے عرب ممالک سے شمالی افریقہ کے مسلم اکثریتی ممالک تک اسلامی ممالک کی سرحدیں باہم ملی ہوئی ہیں۔ دنیا میں مسلمانوں کی کل تعداد ڈیڑھ ارب سے بھی زائد ہے، جن کی اکثریت جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا، مشرق وسطی اور شمالی افریقہ میں آباد ہے۔اکثر مسلم ممالک تیل کی دولت سے مالا مال ہیں۔ دنیا میں عالمی سطح پر تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تعداد 20 ہے، جن میں سے 12 اسلامی ممالک ہیں۔ یوں مسلم ممالک ایک بہت بڑی طاقت بن کر ابھر سکتے ہیں، مگر شرط یہ ہے کہ ان میں باہم اتحاد و اتفاق ہو اور وہ اسلام کے سنہرے اصولوں کے مطابق نظام حکومت تشکیل دیں،اگرہم اسلامی ممالک کے تشکیل شدہ فورمزاورتنظیموں کوتوڑنے کے درپے ہوں گے ان کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کریں گے تویادرکھیں ۔
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں

 

Umer Farooq
About the Author: Umer Farooq Read More Articles by Umer Farooq: 129 Articles with 82606 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.