اپنوں کے غدار، دشمن کے وفادار نہیں بن سکتے

مقبوضہ کشمیر کا لاک ڈاؤن200 دن سے زیادہ عرصہ سے جاری ہے۔ سینکڑوں کشمیریوں کو پی ایس اے قانون کے تحت جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔ ان کی ضمانت نہیں ہو رہی ہے۔ ان کی نظربندی کے ایام کو طول دیا جا رہا ہے۔ سیکڑوں مائیں قیدی بیٹوں کی رہائی کا انتظار کر رہی ہیں۔دیگر نوجوانوں کی طرح ایک خاتون عتیقہ بیگم کے بیٹے کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ سرینگر کے مائسمہ علاقے میں دوا خریدنے گھر سے نکلا ۔عتیقہ بیگم نے گذشتہ سال 6 اگست کو بھارت کی طرف سے کشمیر کی خودمختاری کو ختم کرنے کے ایک دن بعد، جب اس کے بیٹے فیصل اسلم میر کو حراست میں لیا گیا ، انہوں نے عدالتوں کے کئی چکر لگائے ہیں۔22 سالہ میر، پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کے تحت زیر حراست سیکڑوں افراد میں شامل ہیں،پی ایس اے کو ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ''سفاکانہ '' قرار دیا ہے۔ زیر حراستمیں بہت سے افراد کو ہندوستان بھر کی جیلوں میں منتقل کیا گیا ہے۔مائیں اپنے بیٹیوں سے ملنا چاہتی ہیں، ان میں سے کئی سری نگر سے تقریبا 1100 کلومیٹر دور آگرہ شہر کی ایک جیل میں قیدہیں۔ لیکنوالدین بھارت کاسفر کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔بھارت میں مسلمانوں کا قافیہ حیات تنگ کیا گیا ہے۔گزشتہ سات مہینوں سے، عتیقہ اس امید کے ساتھ کہ ان کا بیٹا آزاد ہوجائے گا،سرکاری دفاتر کا دورہ کرتی ہیں، عدالتوں کی سماعت میں جاتی ہیں اور مزارات پر جاتی ہیں۔''وہ میری ساری دنیا تھی اور اس کی عدم موجودگی مجھے پاگل بنا رہی ہے،'' ۔ ''ہر ایک پڑوسی، رشتہ دار تاکید کرتے ہیں کہ مجھے صبر کرنا چاہئے لیکن کتنا؟'' ۔ ''میں اسے صرف ایک بار دیکھنا چاہتی ہوں تاکہ مجھے سکون ملے۔ مجھے اس کی حالت کے بارے میں معلوم نہیں ہے۔''اتیقہ اپنے بیٹے کی جدائی میں طبیعت خراب ہونے سے متعددامراض سے لڑ رہی ہے۔ وہ نیند کی کمی، ہائی بلڈ پریشر اور دیگر بیماریوں میں مبتلا ہے۔وہ بہت بے بسی محسوس کررہی ہیں، کیونکہ 2 مارچ کوعدالت کی سماعت ہے۔ ـــ’’ایسا لگتا ہے کہ ساری دنیا اس کے بغیر ہی ٹوٹ چکی ہے۔ وہ میری زندگی کا مقصد ہے اور میں اسے آزاد کرنے کے لئے لڑنا نہیں چھوڑوں گی۔''ایک پولیس بیان میں الزام لگایا گیا کہ ان کا بیٹا ''علیحدگی پسند سرگرمیوں اور علاقے میں بڑے پیمانے پر تشدد کو جنم دینے'' میں ملوث تھا۔بھارتی فورسز کشمیریوں پر یہی الزامات عائد کرتے ہیں۔ سیفٹی ایکٹ کے بیشتر معاملات میں، زیر حراست افراد پر ''تشدد اور امن و امان کے مسائل پیدا کرنے'' کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔مقبوضہ ریاست کے تین سابق وزرائے اعلیٰ، جو 1980 کی دہائی کے آخر سے ایک مسلح جدوجہد کو کچلنے میں کردار اداکر رہیتھے، کو بھی پی ایس اے کے تحت حراست میں لیا گیا ہے۔ بھارتی اہلکار کشمیریوں کی حراست کا دفاع کرتے ہیں، ان میں سے بہت سے لوگوں پر پتھراؤ کا الزام لگایا گیا ہے۔عتیقہ کا کہنا ہے کہ ان کا بیٹا کچھ سال پہلے احتجاج میں حصہ لیا کرتا تھا، لیکن حال ہی میں وہ ایک عام زندگی گزار رہا تھا۔ ''حکومت ہمارے بچوں کی توہین کر رہی ہے اور انہیں زندہ نہیں ہونے دے رہی ہے۔''بھارت نے اب سوشل میڈیا کے استعمال پر مکمل پابندی لگا دی ہے۔

یہ بھی توہین آمیز ہے کہ کس طرح بھارت نے دیگر سیکڑوں ہوٹلوں سمیت سرینگر کی ایک فائیو سٹار ہوٹل کو جیل بنا دیا ہے۔ بھارت کے وفادار سیاستدانوں کے لئے سینٹور ہوٹل ایک سنہری جیل میں تبدیل ہوگیاہے۔مقبوضہ کشمیر کے موسم گرما کے دارالحکومت سری نگر میں ڈل جھیل کے کنارے پر قائم اس ہوٹل پر بھارتی فورسز پہرہ دے رہے ہیں۔یہ گولف کورس کے سامنے عام طور پر ایک محلاتی ہوٹل کی حیثیت سے کام کرتا ہے، لیکن اب یہ ہوٹل سلمان ساگراور کئی بار طاقتور کشمیری وزراء اور قانون سازوں سمیت درجنوں بھارت نوازوں کے لئے قید خانہ بن گیا ہے۔ ساگر، جو کشمیر کی نیشنلکانفرنس پارٹی میں ایک بااثر سیاستدان اور سری نگر کا سابق میئر تھا، ان سینئر سیاستدانوں میں شامل ہیتھے، جنھیں اگست میں گرفتار کیا گیا اور سینٹور ہوٹل، اور بعد میں ایک ہاسٹل میں چھ ماہ تک بغیر کسی جرم کیقید کیا گیا۔بھارتی حکومت کاخیال ہو گا کہ آزادی پسند اور بھارت نواز سیاستدانوں کی اجتماعی نظربندی اس خطے میں امن برقرار رکھے گی، مگر حقائق اس کے برخلاف ہیں۔ گزشتہ 30سالسیکشمیریوں کو کالے قوانین کے تحت نظر بند رکھنا معمول بن چکا ہے۔ یہ قوانین جنھوں نے تیار اور نافذ کرائے ، اب وہ بھی اس کی گرفت میں آ چکے ہیں۔ یہ پہلا موقع ہے جب یہ قانون سیاستدانوں کے خلاف استعمال کیا گیا جنھوں نے نئی دہلی کا ساتھ دیا اور کئی دہائیوں تک آزادی پسندوں کو قید رکھنے میں سرگرمی دکھائی۔ کشمیر کے طویل عرصے سے جاری تنازعے کے دوران ساگر اور بھارت کے وفادار دیگر لوگوں کے لئے، بلا وجہ گرفتاریاں اور نظربند ہونا ذلت کا ایک عملہے۔اس توہین اور ذلت کا سامنا کشمیری مسلسل کر رہے ہیں۔ ساگرنے ہوٹل میں بنی جیل کے بارے میں کہا، جوزبرون پہاڑی کے دامن میں قائم ہے۔ یہاں ایک جم، صحت مرکز اور شاپنگ آرکیڈ ہے ،جہاں انہیں کبھی بھی جانے کی اجازت نہیں۔ وہاں پر سکون نہیں۔ صرف تکلیفہے۔ ''ہمیں کبھی بھی ہوٹل کے گھاس کو چھونے کی اجازت نہیں تھی… ہم نے درخواست کی کہ باہر لان تک جانے کی اجازت دیں لیکنفورسزنے کبھی اس کی اجازت نہیں دی۔ساگر ان درجنوں سیاستدانوں میں شاملہے جوچند دن قبل رہا ہوئے، کیونکہ ہندوستانی حکومت کو قانونی طور پر انھیں صرف چھ ماہ کے لئے نظربند رکھنے کی اجازت دی گئی تھی۔ تاہمیہاں اب بھی بھارت کے وفادار چار انتہائی سینئر سیاسی رہنماؤں، دو سابق وزرائے اعلیٰ، عمر عبداﷲ اور محبوبہ مفتی، اور پارٹی کے دو علاقائی رہنماؤں، علیمحمد ساگر اور سرتاج مدنی کو نظربند رکھا گیا ہے اور ان پر پبلک سیفٹی ایکٹ دوبارہ لگایا گیا ہے۔ علی محمد ساگر، سلمان ساگر کے والد ہیں، اور دونوں باپ بیٹے کو ایک ساتھ سینٹور ہوٹل میں نظربند رکھا گیا تھا۔جب ساگر حراست میں تھا، اس کے دادا ایک شام بیمار ہوگئے اور موت ہوگئی۔ ساگر نے کہا، ''میں نے پولیس سے التجا کی کہ وہ مجھیدادا سے ملنے دو لیکن انہوں نے اجازت نہیں دی اور اس شام میرے دادا فوت ہوگئے۔'' ''۔مجھے بے بسی محسوس ہوئی۔''اس نے آنسوؤں کے ٹوٹنے کا بھی بیان کیا، جب اس کی سالگرہ کے موقع پر، اہل خانہ ملنے آئے اور پانچ گھنٹے انتظار میں رکھے گئے۔ اس کا چار سالہ بیٹا اتنا بھوکا ہو گیا تھا، کہ گھر والے اسے ساگر کی سالگرہ کا کیک کھلانے پر مجبور ہوگئے ۔ ''جب میں نے یہ سنا تو میں بہت رو پڑا۔''اسی طرح تیس سال سے کشمیری آزادی پسند روئے ہیں جب وہ بھارت کے ساتھ مل کر ان پر قیامت ڈھاتے تھے۔ بھارت نے ہمیشہ کشمیریوں کی توہین کی ،انہیں غلامی کا احساس دلایا،انہیں ذلیل کیا اور ان کی بے بسی پر خوشی منائی۔ اب اس کا اندازہ عبداﷲ اور مفتی خاندان کو بھی ہو رہا ہے۔ یہ بات سچ ثابت ہو رہی ہے کہ جو لوگ اپنوں پر ستم ڈھاتے ہیں، اقتدار یا مراعات کے لئے دشمن کے مہرے بنتے ہیں ، ان کو دشمن کبھی وفادار نہیں سمجھتا بلکہ وقت آنے پر یا مطلب نکلنے پر ان کو بھی زیر عتاب لاتا ہے۔جو لوگ اپنوں سے غداری کریں، وہ دشمن کے وفادارنہیں ہو سکتے ہیں۔ دشمن یہ سچ جانتا ہے اور وقت آنے پر کارروائی کرتا ہے۔

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 557194 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More