امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ماضی کے نظریہ پر سرد مہری کے
باوجود منگل کی شام نئی دہلی میں ایک خصوصی پریس کانفرنس کے دوران بھارت
اور پاکستان کے مابین مسئلہ کشمیر پر ثالثی کرنے پر آمادگی کا اظہار
کیا۔کشمیر ، پاکستان اور بھارت کے درمیان دشمنی کا مرکزی نکتہ ہے۔5
اگست2019 میں بھارت نے مقبوضہ ریاست کی خصوصی حیثیت ختم کر دی اور اس کے دو
ٹکڑے کر کے انہیں اپنی کالونیاں بنا دیا بلکہ آزاد کشمیر پر جابرانہ حملہ
کر کے قبضہ کرنے کی دھمکیاں دینی شروع کیں۔ ٹرمپ نے پہلے بھی کئی بار پیشکش
کی کہ وہ اس تنازعہ میں ثالثی کریں گے، لیکن ان پیشکشوں کے درمیان ہی بھارت
نے سات دہائیوں میں پہلی بار کشمیر کا حلیہ بگاڑ دیا۔ کشمیریوں کی ناکہ
بندی کی اور طویل لاک ڈاؤن شروع کیا۔ بھارت کے اپنے پہلے سرکاری دورے کے
موقع پر انہوں نے کہا کہ وہ جو کچھ بھی کرسکتے ہیں وہ کریں گے اور پاکستانی
وزیر اعظم عمران خان اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ اپنے اچھے
تعلقات کا حوالہ دیا۔’’دونوں حضرات کے ساتھ میرے تعلقات اچھے ہیں۔ پاکستان
میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہم اس کے بارے میں
کیا کر سکتے ہیں۔ میں ثالثی کے لئے کچھ بھی کرسکتا ہوں اور میں مدد کرنے کے
لئے کو کچھ کرسکتا ہوں، میں کروں گا۔ وہ کشمیر پر کام کر رہے ہیں۔ کشمیر
ایک طویل عرصے سے بہت سارے لوگوں کی آنکھوؤں میں کانٹا بنا ہواہے۔‘‘ٹرمپ نے
ہندوستان کے ساتھ ایک اہم دفاعی معاہدے کے ساتھ اپنے دو روزہ دورے کا
اختتام کیا، جس میں انہوں نے امریکہ اور ہندوستان کے تعلقات کو ''خصوصی''
اور ''واقعی پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط'' قرار دیا ۔ منگل کے روز مودی کے
ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کہا، ''ہم نے ہندوستان کے ساتھ اپنے
دفاعی تعاون کو بڑھایا جس میں اپاچی اور ایم ایچ 16 رومیو ہیلی کاپٹروں
سمیت 3 ارب ڈالر سے زیادہ ایڈوانس فوجی سازوسامان خریدنا ہے۔'' مودی نے کہا
کہ دو طرفہ تعلقات ''اکیسویں صدی کی سب سے اہم شراکت'' ہیں۔ٹرمپ نے کہا کہ
انہوں نے مودی کے ساتھ افغان امن عمل پر بھی تبادلہ خیال کیا۔‘‘ہندوستان
چاہتا ہے کہ یہ معاہدہ افغانستان میں ہو۔ مودی خواہش مند تھے کہ یہ معاہدہ
ہونا چاہئے۔، ٹرمپ نے اس معاہدے کی طرف اشارہ کرتے ہوئیمزید کہا کہ امریکہ
اور طالبان ہفتے کے روز دستخط کرسکتے ہیں۔اس تنازعہ میں پاکستان ان کا
کلیدی کردار ہے۔ ہندوستان یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ تجارت اور
فوجی سازوسامان کی برآمدی منڈی کے ساتھ ساتھ ایشیاء میں امریکی اسٹریٹجک
مفادات کو برقرار رکھنے کے لئے، یہ امریکہ کے لئے قیمتی ہوسکتا ہے۔
ٹرمپ کی دورہ بھارت کے آخری دن ایک مرتبہ پھر مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی
پیشکشکو بعض امریکی ٹریپ سے تعبیر کرتے ہیں۔ تا ہم وہ ذو معنی گفتگو کرنے
میں بھی تجربہ حاصل کر چکے ہیں، جیسے کہ ان کا کہنا کہ کشمیر کئے عرصے سے
لوگوں کے لیے مسئلہ بنا ہوا ہے، ہر مسئلے کے دو رخ ہوتے ہیں، ہم نے مودی کے
ساتھ دہشت گردی کے مسئلے پر تفصیل سے بات چیت کی۔ ان سے پاکستان میں دہشت
گردی سے متعلق سوال کیا گیا۔ جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ’’ہم نے اس
بارے میں تفصیل سے بات کی، اس میں دو رائے نہیں کہ یہ ایک مسئلہ ہے،
پاکستان اس پر کام کر رہا ہے‘‘۔رواں برس جنوری میں انہوں نے ڈیووس میں ورلڈ
اکنامک فورم کے اجلاس کے موقع پر وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کے دوران
بھی مسلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کا اعادہ کیا تھا۔تاہم بھارت نے معاملے
کو داخلی معاملہ قرار دیتے ہوئے ثالثی کی پیش کش کو ایک بار پھر مسترد
کردیا تھا۔علاوہ ازیں حال ہی میں بھارت کے وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار
نے کہا تھا کہ مسئلہ کشمیر میں کسی تیسرے فریق کا کوئی کردار نہیں ہوگا
کیونکہ یہ مسئلہ بھارت اور پاکستان کے مابین ہے۔بھارت سلامتی کونسل کی
قرادادوں کے مطابق مسلہ کشمیر کو حل کرانے سے راہ فرار اختیار کر رہا ہے۔ ا
ڈونلڈ ٹر مپ کا کہنا ہے کہ انہوں نے ہر ممکن مدد فراہم کرنے کی یقین دہانی
کرائی کیونکہ میرے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان اور بھارت کے وزیر اعظم
نریندر مودی کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں، اگر میں ان کے درمیان ثالثی کر سکتا
ہوں تو ضرور کروں گا۔ ٹرمپ کے دورے کے دوران امریکا اور بھارت کے مابین
کوئی تجارتی معاہدہ نہیں ہوسکا۔جب کہ اس دورہ کو غیر معمولی اہمیت دی گئی۔
ٹرمپ اپنے پہلے دورے کے دوران بھارت کو 3 ارب ڈالر کے فوجی اور جنگی آلات
فروخت کرنے کے معاہدے میں کامیاب ہوگئے۔امریکی صدر نے کہا کہ مودی پرسکون
شخصیت کے مالک ہیں لیکن بہت بہادر اور دہشت گردی سے متعلق ان کا سخت موقف
ہے، ہم اس مسئلے سے نمٹیں گے۔
ٹرمپ نے اپنے دورے کے موقع پر ہندوستان میں مسلمانوں پر ہونے والے تشدد پر
کوئی تبصرہ نہیں کیا، دارالحکومت کے شمال مشرقی حصے میں ہونے والی جھڑپوں
میں پیر سے 10 افراد ہلاک ہوگئے۔ انتہا پسند ہندو گروہوں نے بھارت کے نئے
شہریت کے قوانین کے خلاف مظاہرہ کرنے والے مظاہرین پر حملہ کیا۔ دسمبر2019
میں شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) منظور ہونے کے بعد سے ملک کے متعدد حصوں
میں احتجاج جاری ہے۔ خاص طور پر مسلم برادری کے افرادسمیت بہت سارے لوگوں
کو خوف ہے کہ انہیں بے ریاست کردیا جائے گا، ٹرمپ نے کہا''میں اس پر تبادلہ
خیال نہیں کرنا چاہتا۔ میں اسے ہندوستان پر چھوڑنا چاہتا ہوں اور امید ہے
کہ وہ صحیح فیصلہ کریں گے۔ یہ واقعتا ہندوستان پر منحصر ہے، ''نئی دہلی میں
امریکی سفارتخانے کے ذریعہ ٹرمپ کی آمد سے قبل وائٹ ہاؤس کے ایک بیان میں
کہا گیا کہ دونوں مملکت کے صدور کے مابین دوطرفہ ملاقات میں صدر''مذہبی
آزادی کے مسئلے'' کو اٹھائیں گے۔بیان میں مزید کہا گیا کہ دنیا اپنی جمہوری
روایات کو برقرار رکھنے اور مذہبی اقلیتوں کے احترام کے لئے ہندوستان کی
طرف دیکھ رہی ہے۔یہ واقعی افسوسناک ہے کہ امریکی صدر ہندوستانی مسلمانوں کی
حالت زار کو نظرانداز کررہے ہیں جنھیں بھارتی دارالحکومت میں ریاستی
سرپرستی میں ہونے والے حملوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پولیس کے ساتھ
بھاجپا سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے پر مسلمانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
|