افغانستان امن معاہدہ؛ درپیش چیلنجز

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

انیس سال کی ہلاکت خیز جنگ کے بعد بالاآخر طالبان اور امریکہ کے درمیان امن معاہدہ امن طے پا چکا ہے تاہم ابھی تک یہ کہنا قبل ازوقت ہے کہ یہ معاہدہ خطے میں امن کی نوید لے کر آئے گا یاافغانستان میں ایک نئی خانہ جنگی کی شروعات کا باعث بنے گا۔ اس جنگ کا آغاز ان الفاظ سے شروع ہوا تھا کہ ـــــ’’طالبان کے دن گنے جا چکے ہیں اور ان کے لیے زمین تنگ کر دی جائے گی ‘‘ لیکن دنیا نے دیکھ لیا کہ نظریات کی بنیاد پر کھڑے رہنے والوں کو انیس سال تک دنیا کی واحد سپر پاور دیگر کئی ممالک سے مل کر بھی شکست دینے میں ناکام رہی ہے ۔ طالبان جسے دنیا بھرمیں دہشت گرد قراردے دیا گیا تھا اب انہی ’’دہشت گردوں ‘‘ کے مرہون منت امریکہ کو افغانستان سے محفوظ راستہ لینے کے لیے ایک طاقت تسلیم کرنا پڑا۔ امریکہ کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں تھا ۔اس وقت طالبان افغانستان کے سترفیصد سے زائد علاقہ پر اپنی وجود منوائے ہوئے ہیں اور افغانستان کی کٹھ پتلی حکومت کابل سے باہر اپنا وجود نہیں رکھتی تو کیا ایسی صورت میں امریکہ کے پاس کوئی اور راستہ ہو سکتا تھا یقینا نہیں ۔ امن معاہدے کی کوششوں سے لے کرتکمیل تک کئی قسم کے مراحل آئے تاہم طالبان اپنے موقف پر قائم رہے اور امریکہ نے غیرملکی فوجیوں کے انخلاء کی شرط کو تسلیم کر لیا۔ ایک رائے یہ ہے کہ امریکہ کی ترجیح افغانستان نہیں رہی اس لیے امریکہ خود ایسا چاہتا تھا کہ وہ جنوبی ایشیا سے نکل کر اپنا محور ایشیا پیسفک کو بنائے جیسا کہ ہیلری کلنٹن نے اپنے پالیسی بیان میں تسلیم کیا تھا کہ امریکہ کی ترجیح اب جنوبی ایشیا یا مشرق وسطیٰ نہیں رہی اور وہ اپنی طاقت کا محور ایشیا پیسفک کو بنانا چاہتا ہے جہاں اس کے اتحادی اس کے انتظار میں ہے ۔ اپنے بیان میں ہیلری کلنٹن نے ایشیا پیسفک میں موجود اتحادیوں سے معذرت کرتے ہوئے کہا تھا کہ سابقہ ترجیحات پر ازسرنو غور کرتے ہوئے ایشیا پیسفک کو اپنا محور بنا رہے ہیں تاہم یہ واضح ہے کہ امریکہ کے لیے افغانستان سے نکلنا آسان نہیں تھا ۔ دنیا کے چالیس سے زائد ممالک کی کمان کرتے ہوئے امریکہ کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ فرار کی راہ اختیار کرتا جبکہ افغان حکومت پر اربوں ڈالرز خرچ کرنے کے باوجود اس کی پوزیشن اس قدر مستحکم نہیں تھی کہ وہ کابل اور کچھ دیگر شہروں سے باہربھی اپنی حکومت کا وجود ثابت کر سکے۔ افغان آرمی کا تربیتی معیار بھی یہ نہیں تھا کہ وہ ملک کی سیکورٹی سنبھال سکے اورچند سالوں میں ہی اس نے ثابت کر دیا کہ طالبان کی کارروائیوں کے آگے افغان آرمی مکمل طور پر بے بس ہے۔ ایسے میں امریکہ کا افغانستان سے نکلنا اس کی اہلیت پر بہت سے سوالات کھڑے کر سکتا تھا ۔طالبان کی ہلاکت خیز کارروائیوں نے کئی یورپ کے کئی ممالک کو افغانستان سے نکلنے پر مجبور کر دیا تھا ۔ یورپ سمیت امریکہ میں بھی اس کے ماہرین اور سابق فوجی افسران واضح طور پر لکھ رہے تھے کہ افغانستان موت کی دلدل بنتا جا رہا ہے وہاں ٹھہرنا نہ صرف معیشت کو برباد کرنا بلکہ اپنی قیمتی جانوں کا بھی ضیاع ہے۔ تاریخی اعتبار سے بھی دیکھا جائے تو دنیا کی کوئی طاقت افغانستان میں اپنا قبضہ برقرار رکھنے میں ناکام رہی ہے امریکہ نے طاقت کے نشے میں اس تاریخی حقیقت سے منہ پھیرنے کی کوشش کی تھی لیکن وقت نے اس تاریخی حقیقت پر تصدیق کی مہر لگا دی۔امریکی جریدے نیویارک ٹائمز کی جانب سے دیے گئے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ امریکہ نے انیس سال میں افغانستان پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے اور طالبان کے خاتمے کے لیے کس طرح سے اپنی معیشت کو تباہ کیا لیکن اس کے باوجود طالبان کی قوت ختم ہونے کی بجائے برھتی جارہی تھی 2017, 2018سال کی ہلاکتوں نے امریکی پالیسی پر کئی طرح کے سوال کھڑے کر دیے تھے ۔دو ٹریلین ڈالر خرچ کرنے اور تین ہزار کے لگ بھگ اپنے فوجیوں کی جانیں دینے کے باوجو افغانستان کے ستر فیصد سے زائد رقبے پر طالبان نے اپنا قبضہ جمالیا تھا ۔طالبان نے جب چاہا جہاں چاہا اپنی قوت کا لوہا منوایا اور ریڈ زون میں امریکی واتحادی حصار کو توڑ کر دنیا کو یقین دلا دیا کہ ہر آنے والے دن کے ساتھ ان کی طاقت میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے حتی کہ ان کے حملوں کے آگے لاچار اور بے بس افغان آرمی کے کئی نوجوانوں نے بھی طالبان کے آگے ہتھیار ڈالتے ہوئے ان میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ یہ صورتحال خطرناک رخ اختیار کررہی تھی کہ امریکہ کے طاقتور حلقوں میں یہ بحث زور پکڑ گئی کہ اب اس دلدل سے نکلنے کے لیے طالبان کو قوت تسلیم کر نا ہو گا۔

افغانستان امن معاہدے کے لیے سب سے بڑا اور اہم چیلنج افغان حکومت کے سربراہ اشرف غنی کی طرف سے براہ راست سامنے آیا ہے ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت کی جانب سے طالبان کے پانچ ہزار قیدیوں کی رہائی کے لیے کوئی یقین دہانی نہیں کروائی گئی ۔ ان قیدیوں کی رہائی افغان حکومت اور عوام کا مینڈیٹ ہے اور وہی اس کا فیصلہ کر سکتے ہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اشرف غنی معاہدے کے سارے مراحل سے بے خبر تھے یا انہیں اس بات کا ادراک نہیں تھا ۔ درحقیقت اشرف غنی نے ہر ممکن کوشش کی تھی کہ وہ ان مذاکرات کا حصہ بنیں تاہم طالبان کا موقف شروع دن سے ہی یہی تھا کہ وہ اشرف غنی حکومت کو ایک کٹھ پتلی حکومت سمجھتے ہیں اس لیے ان کو مذاکرات کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا ۔امریکہ نے مختلف حیلوں بہانوں سے بھی طالبان کو راضی کرنے کی کوشش کی کہ موجودہ افغان حکومت کو کسی طرح سے اس کا حصہ بنالیا جائے لیکن طالبان آخری وقت تک اپنے موقف پر قائم رہے ۔جہاں تک اشرف غنی کی جانب سے عوام کے مینڈیٹ کی بات ہے تویہ بات بڑی واضح ہے کہ اس وقت ستر فیصد کے قریب رقبے پر طالبان کا قبضہ ہے اور افغان عوام انہیں اپنے علاقوں میں خوش آمدید کہہ رہی ہے جبکہ افغان فوجی بھی طالبان میں شامل ہورہے ہیں ایسی صورتحال میں اشرف غنی کا یہ دعویٰ محض اپنے وجود کا احساس دلانے کے سوا کچھ نہیں ہے ۔یہ بات بھی واضح ہے کہ اشرف غنی حکومت امریکہ ایما کے بغیر کیا کوئی اقدام کر سکتی ہے جبکہ اسے کابل میں بھی اپنی سیکورٹی کے لیے امریکی و اتحادی افواج کا سہارا لینا پڑتا ہے ایسے میں وہ خود سے فیصلہ کرنے کے مجاز کیسے ہوسکتے ہیں ۔ افغان امن معاہدے کے لیے ایک اور اہم چیلنج سامنے آ سکتا ہے وہ خانہ جنگی ہے ۔ بدقسمتی سے افغانستان کی یہ تاریخ بھی رہی ہے کہ جب کسی بیرونی قوت نے ان پر جارحیت کی تو تمام قوتیں اس بیرونی جارحیت کے خلاف ایک ہو جاتیں لیکن جونہی یہ معاملہ حل ہو جاتا تو یہی گروہ آپس میں دست و گریبان ہو جاتے ۔ طالبان نے اپنے دور میں بہت حد تک وارلارڈز اور گروہوں پر قابو پالیا تھا لیکن موجودہ حکومت کے لیے یہ ممکن نظر نہیں آتا ۔ایسی صورت میں کون سے عوامل ایسے گروہوں کو خانہ جنگی سے روک سکتے ہیں یہ دیکھنا بہت ضروری ہے ۔ اگرچہ مقامی سطح پر سیاسی قوتوں کے درمیان مذاکرات کا آغاز دوسرے مرحلے میں ہو گا تاہم یہ چیلنج بہت بڑا ہے اور طالبان جیسی منظم قوت ہی اس سے نبٹ سکتی ہے ۔ تیسرابڑا چیلنج خطے کے دیگر ممالک بالخصوص پاکستان ، ایران اور روس کے حوالہ سے جاری پراکسی وارز کو روکنا ہے۔ایران نے اگرچہ امن معاہدے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے جس کی ایک بڑی وجہ پراکسی گروہوں کا خطرہ ہی ہو سکتا ہے ۔ طالبان کی سیاسی بصیرت یقینی طور پر اپنے پہلے سے کہیں زیادہ بہتر ہو چکی ہو گی کیونکہ مذاکرات کے مراحل طے کرنے میں طالبان نے اپنی استطاعت کو ثابت کیا ہے۔ پاکستان کو بھی افغانستان سے پراکسی گروہوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے خاص طور پر پاک افغان سرحد پر موجودبھارتی تربیت یافتہ عناصر اور پاکستانی طالبان گروہوں کی موجودگی پاکستان کے لیے کئی قسم کے مسائل پیدا کر رہی ہے اسی طرح پشتون قوم پرستوں کے نام پر کچھ گروہ پاکستان کے خلاف مختلف قسم کی سرگرمیوں میں ملوث ہیں جن پر افغان حکومت قابو نہیں پاسکی ۔ یہ سارے مسائل بہت بڑے چینلجز کی صورت میں افغان امن معاہدے کے سامنے کھڑے ہیں ۔ امریکہ سمیت تما م سٹیک ہولڈرز کو ان چیلنجز کو بھی مدنظر رکھ کر امن معاہدے کے دیگر مراحل طے کرنا ہوں گے۔

افغانستان کا امن معاہدہ مختلف مراحل سے گزر کرمکمل ہو چکا ہے ۔فریقین کے درمیان ایک دستاویز پر دستخط ہو چکے ہیں ۔بلاشبہ طالبان نے اس معاہدے سے اپنی ڈپلومیسی کا لوہا منوایا، جنگی استطاعت کے اضافہ کا ثبوت دیا، سیاسی قوت منوائی اورمخالفین پر اخلاقی فتح حاصل کی۔جنگی قیدیوں کا تبادلہ طالبان کی ڈپلومیسی کی فتح ہے ، غیر ملکی فوجیوں کا مکمل انخلاء جنگی فتح ہے ، افغان حکومت میں موجود مختلف گروہوں کے ساتھ سیاسی مذاکرات ان کی سیاسی فتح ہے جبکہ مجموعی حیثیت سے اس سارے مرحلے میں جس انداز سے اپنے موقف کو تسلیم کروایا یہ ان کی اخلاقی فتح ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس معاہدے میں دنیا نے طالبان کے وجود کو ایک قانونی حیثیت فراہم کردی ہے اور اب وہ جدید ریاستوں کے نظام میں مقامی ، علاقائی اور عالمی سیاست کا حصہ بن چکے ہیں ۔طالبان اس نئے نظام کا حصہ بننے پر دنیا کوخیر مقدم کرنا چاہیے تاکہ وہ خطے کے ساتھ ساتھ عالمی امن میں اپنا مثبت کردار ادا کرسکیں ۔

 

Asif Khursheed
About the Author: Asif Khursheed Read More Articles by Asif Khursheed: 97 Articles with 64562 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.