(Johan Wolfgangven Goethe)
فضہ پروین
28 اگست 1749کو فری ایپیریل سٹی آف فرینکفرٹ جرمنی میں اس ادیب نے آنکھ
کھولی جس کی ادبی کامرانیوں اور تخلیقی فتوحات کو دیکھ کر پوری دنیا کی
آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ایک قادر الکلام شاعر، عظیم ناول نگار، موئثر
ڈرامہ نگار ، نیچرل فلسفی اور شہرہ آفاق سفارت کار کی حیثیت سے گوئٹے نے
بڑے زوروں سے اپنے آپ کو منوایا ۔ عالمی کلاسیک میں گوئٹے کی علمی وادبی
کامیابیو ں نے پوری دنیا میں اس کی دھاک بٹھا دی۔جذبہ انسانیت نوازی اور
سائنسی انداز فکر کو بروئے کا ر لانے والے اس ہفت اختر ادیب نے اپنی
تخلیقات کے معجز نما اثر سے عالمی ادبیات پرہمہ گیر مرتب کیے۔ گوئٹے نے
عالمی ادبیات کو معیار اور وقار کے اعتبار سے آفاق کی وسعت اور آسمان کی
بلندی سے ہمکنار کردیا۔
اٹھارہویں صدی کے اختتام اور انیسویں صدی کے آغاز میں گوئٹے کے ادبی منصب
کو لائق صد رشک وتحسین قرار دیا جاتا ہے ۔ رومانیت اور کلاسیکیت کے پرتو
گوئٹے کی تخلیقات میں جلوہ گر ہیں ۔ ادب کی عالمگیریت اور آفاقیت کے تصور
کو پروان چڑھانے کے سلسلے میں گوئٹے کے خیالات کی افادیت کو دنیا بھر میں
پذیرائی نصیب ہوئی۔ بالخصوص جرمن فلسفہ پر گوئٹے کے افکار نے فکر و نظر کی
کایا پلٹ دی۔ہیگل اور شیلنگ کے افکار پر یہ اثرات نمایاں ہیں ۔رفتہ رفتہ
پورے یورپ میں گوئٹے کے خیالات کی بازگشت سنائی دینے لگی ۔
گوئٹے نے لاطینی،یونانی، فرنچ اور انگریزی زبان پر دسترس حاصل کی ۔ فنون
لطیفہ میں اس کی دلچسپی اس کے ذوق سلیم کی مظہر ہے۔ گوئٹے کو تھیٹر اور
پتلی تماشا بہت پسند تھا۔ گوئٹے نے شعبہ قانون میں بھی دلچسپی لی اور قانون
کی باضابطہ تعلیم حاصل کی ۔ گوئٹے نے پسند کی شادی کی اور اس کا ایک بیٹا
بھی پیدا ہو ا 22 مارچ 1832کو یہ عظیم تخلیق کار زینہ ہستی سے اتر کر زیر
زمین چلا گیا ۔
سب کہا ں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی جو پنہاں ہوگئیں
گوئٹے کی تصانیف
گوئٹے نے اپنی متنوع تخلیقی فعالیت سے جرمن ادب کی ثروت میں اضافہ کیا ۔ ان
کی تفصیل حسبِ ذیل ہے :-
۱۔ ڈراما گوئس 1771
۲۔ ناول ” نوجوان ورتھر کی داستان ِ غم “ 1774
۳۔ ڈراما ” ایگومنٹ “ 1778
۴۔ ڈراما ” فاﺅسٹ “ پہلا حصہ 1808
۵۔ غرب شرقی دیوان ( شاعری کا مجموعہ ) 1819
گوئٹے کی شاعری بالخصوص، غرب شرقی دیوان (West- Eastern Divan) پر فارسی کے
ممتاز شاعر حافظ کے اثرات نمایاں ہیں ۔ ڈراما فاﺅسٹ کا دوسرا حصہ گوئٹے نے
اپنی زندگی کے آخری ایا م میں مکمل کیا اور اس کی اشاعت گوئٹے کی وفات کے
بعد ہوئی۔
گوئٹے کی زندگی جاں گسل تنہائیوں اور اعصاب شکن ماحول کی بھینٹ چڑھ گئی
۔1806 میں گوئٹے جب عالم تنہائی میں ویمر ) (Weimarمیں اپنی خادمہ کرسٹین
ولپیس(Christiane Vulpius)کے ہمراہ مقیم تھا ، اسی اثنا میں نپولین کی
افواج نے اس قصبہ پر یلغار کی اور اسے فتح کر لیا ۔ نیم مسلح دستوں نے
گوئٹے کی رہائش گاہ پر قبضہ کر لیا۔گوئٹے نے اسی عرصے میں خادمہ سے شادی
کرلی ۔ اس کا ایک بچہ پیدا ہو ا گردش ایام ہر وقت گوئٹے کے تعاقب میں رہی
1816 میں اس کی بیوی اسے دائمی مفارقت دے گئی۔
گوئٹے عمر بھر سفاک ظلمتو ں کو کافو ر کرنے کے لیے اپنا دل جلا کر اجالے کی
تمنا کا آرزو مند رہا ۔موت کے وقت اس کے آخری الفاظ یہ تھے ۔
” روشنی ! اے روشنی“
گوئٹے نے اپنی وسعت ِ نظر اور تبحر علمی سے اپنے اسلوب کو تنوع سے آشنا کیا
۔ جنس اور جذبات کے موضوع پر اس نے جرات اظہار کی عمدہ مثال پیش کی ۔ اس کے
خیالات آفاقی اقدار کے ترجمان ہیں ۔ وہ ایام کا مرکب نہیں راکب دکھائی دیتا
ہے ۔وہ علاقے ، نسل،قوم اور کسی ملک کے حصار میں نہیں رہتا بلکہ اس کی
تخلیقی فعالیت بے کراں نظرآتی ہے۔ اسی حقیقت کے پیش نظر اس نے کہا تھا :
” Science and art belong to the whole world and before them vanish
barriers of nationality. “
دنیا بھر میں گوئٹے کے افکار پر تحقیق او رتنقید کا ایک غیر مختتم سلسلہ
جاری ہے ۔ گوئٹے کے آخری الفاظ کے مطابق روشنی کی جستجو اور روشنی سے
والہانہ محبت کرنے والوں نے اس کے پیغام کو دنیا بھر میں عام کرنے میں کوئی
کسر اٹھا نہیں رکھی۔روشنی کا یہ سفر تا ابد جاری رہے گا۔گوئٹے نے اپنی
تخلیقی فعالیت کے اعجاز سے الفاظ کو گنجینہءمعانی کا طلسم بنا دیا۔ اس نے
اپنے فکر و فن کی اساس افکار تازہ کو بنایا۔گوئٹے پر ہونے والے کا م کا
اجمالی جائزہ پیش خدمت ہے:
Books of Johann Wolfgang von Goethe
1. Theory of Colours by Johann Wolfgang von Goethe and Charles L.
Eastlake
2. Italian Journey: 1786-1788 (Penguin Classics) by Johann Wolfgang von
Goethe, W. H. Auden, and Elizabeth Mayer
3. Selected Poetry of Johann Wolfgang von Goethe (Penguin Classics) by
Johann Wolfgang von Goethe and David Luke
4. Faust: A Tragedy (Norton Critical Editions) by Johann Wolfgang von
Goethe, Cyrus Hamlin, and Walter W. Arndt
5. Autobiography by Johann Wolfgang von Goethe
6. Faust: Der Tragödie, Erster Teil (Dodo Press) (German Edition) by
Johann Wolfgang von Goethe
7. Johann Wolfgang Goethe: Urfaust (Universal-Bibliothek) (German
Edition)
8. Selected Poems (Goethe: The Collected Works, Vol. 1) by Johann
Wolfgang von Goethe, Christopher Middleton, Michael Hamburger, and David
Luke
9. Faust (German Edition) by Johann Wolfgang von Goethe
10. Essays on Art and Literature (Goethe: The Collected Works, Vol. 3)
by Johann Wolfgang von Goethe, John Gearey, Ellen von Nardroff, and
Ernest H. von Nardroff
11. Egmont by Johann Wolfgang von Goethe
12. Faust by Johann Wolfgang Von Goethe and Bayard Taylor
علامہ اقبال نے بھی گوئٹے کے افکا ر کو بنظر تحسین دیکھا۔ پیام مشرق مطبوعہ
1923کے ابتدائی اوراق میں گوئٹے کا ذکر ملتا ہے ۔ گوئٹے کی کتاب زیست کے
تما م ابواب محبت کی زبان کو اہمیت دی گئی ہے ۔ اس کا خیال ہے کہ تمام
کتابوں سے ارفع اور مقدس کتاب تو بہرحال کتاب محبت ہی ہے۔ وہ اسی کتاب کے
مطالعہ کو حاصل زیست قرار دیتا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اس جانب بھی متوجہ
کرتا ہے کہ کتاب محبت کے اوراق میں جہا ں رنگ خو شبو اور حسن و خوبی کے
استعارے اپنی عطربیزیوں کی بدولت دامن دل کھنچتے ہیں وہاں اذیت ، مصیبت ،
ملامت اور بلائیں بھی کژت سے موجود ہیں ۔ انسان کو یہاں مرحلہ شوق طے کرتے
وقت جہاں ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی کا سماں پیش نظر ہوتا ہے ۔وہاںہر
موج میں حلقہ صد کا م نہنگ کا دام بچھا ہے جو قطر ے کے گہر ہونے کے تمام
مراحل کو شدید اضطراب سے دوچار کرتا ہے اور دل کے مقتل میں کئی حسرتیں خون
ہو جاتی ہیں اور آرزوئیں مات کھا کر رہ جاتی ہیں۔ جب امیدوں کی فصل غارت ہو
جا ئے اور صبحوں شاموں کی محنت اکارت چلی جائے تو انسان کرچیوں میں بٹ جاتا
ہے ۔ ان لرزہ خیز حالات میں بھی گوئٹے حوصلے اور امید کا دامن تھام کر محبت
کی شمع فروزاں کیے ہوئے مہیب سناٹوں ، جان لیوا تنہائیوں اور گمبھیر
تاریکیوں میں پیمانِ وفا باندھ کر پرورش لوح و قلم میں مصروف رہتا ۔اپنی
محبوبہ سے مخاطب ہو کر کہتا ہے۔
” تم نے اس کتاب کے موضوعات عطا کیے یہ تمھاری ہی عطا ہے۔“ (1)
”میری رگوں میںایک بار پھر رقصاں ہے گرما اور بہار کا جاں بخش شعلہ“(1)
No wonder, that our joy's complete
While eye and eye responsive meet,
When this blest thought of rapture moves us--
That we're with Him who truly loves us,
And if He cries -- Good, let it be!
'Tis so for both, it seems to me.
Thou'rt clasped within these arms of mine,
Dearest of all God's thoughts divine! (2)
آزاد اردو ترجمہ
کیا عجب ہماری خوشیوں کی تکمیل ہوجائے
جب آنکھ سے آنکھ ملے
اظہار محبت سے قسمت تبدیل ہوجائے
اور یہ کہ ہم اس کے ہیں جو ہم سے حقیقی پیار کرتا ہے
وہ دلی کرب کا اظہار کرتا ہے
مجھے تو یوں محسوس ہوتا ہے
کہ ہم دونوں کو یکساں ہی کرب کا احساس ہوتا ہے
کیا تم وہی نہیں ہو جو کہ سمٹ آئے ہو
میر ے بازوﺅں کی گرفت میں اس آن
تم تو مجھے سب سے عزیز ہو
خالق کائنات کی اس دھرتی میں سن لو میری جان ( ترجمہ فضہ پروین )
ترجمے کے ذریعے دو تہذیبوں کو قریب تر لانے میں مدد مل سکتی ہے۔گوئٹے کے
تخلیقی فن پارے مواد ،ہیئت،زبان و بیان اور موضوع کی ندرت کے اعتبار سے
پتھروں کو بھی موم کر دیتے ہیں۔حسن و رومان کی دلفریب کیفیت قاری کو ورطہ
حیرت میں ڈال دیتی ہے ۔ایذرا پاﺅنڈ نے ادب کی درخشاں اقدار کو زیر بحث لاتے
ہوئے لکھا ہے:” اعلیٰ ادب ایسی سادہ زبان ہے جس میں اعلیٰ ترین معانی ممکن
حد تک سمو دیئے جائیں“(3)
گوئٹے کی تخلیقات میں رومانی عنصر کا غلبہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ حسن و رومان
کی علامتوں کے سوتے اس کے لاشعور سے پھوٹتے ہیں۔ گوئٹے نے فطرت کے حسن بے
پروا کو رومانی جذبات اور حسن کی لفظی مرقع نگاری سے اس قدر مسحور کن بنا
دیا ہے کہ اس کے دلکش اسلوب کے معجز نما اثر سے وجدان اور لا شعور کی حدیں
باہم ملتی دکھا ئی دیتی ہیں۔ایسے بھی مقامات آتے ہیں جہاں وہ لاشعور کی ایک
مخصوص طرز ادا یعنی اشاریت کو نہایت فن کارانہ مہارت سے رو بہ عمل لا کر
خون بن کر رگ سنگ میں اترنے پر قدرت حاصل کر لیتا ہے ۔زبان اور بیان پر اس
کی خلاقانہ دسترس ،تخیل کی ندرت ،موضوعات کا تنوع اور اظہار کی انفرادیت اس
کے ہاں نمایا ں ہے ۔گوئٹے کا کمال یہ ہے کہ اس نے تہذیب و تمدن ،ادب ،کلچر
اور معاشرتی زندگی کے تمام ارتعاشات کو اپنے تخلیقی اظہار کے وسیلے سے
جریدہءعالم پر ثبت کر دیا ہے۔قلبی اور روحانی وارداتوں اور دروں بینی کا جو
بے ساختہ پن گوئٹے کے ہاں جلوہ گر ہے وہ اسے منفرد اور ممتاز مقام عطا کرتا
ہے۔اس کی تمام تر تخلیقی فعا لیت کا انحصار ندرت تخیل پر ہے ۔
گوئٹے پر جرمن فلسفی ہرڈرکے اثرات نمایاں ہیں۔ اس کے علاوہ گوئٹے نے جرمن
صوفی ہیمن سے بھی اثرات قبول کیے ۔ لو ک گیتوں سے بھی گوئٹے کی دلچسپی ہرڈر
کی بدولت ہے اور جہاں تک روحانیت اور وجدان کا تعلق ہے اس کے سوتے بیش تر
ہیمن کے افکا ر سے پھوٹتے ہیں ۔
گوئٹے کی تخلیقات پر طائرانہ نظر
۱۔ ڈراما ”گوئس“ 1771
اپنی نوعیت کے لحاظ سے یہ جرمن ادب میں سنگ ِمیل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ڈراما
کا ہیرو ایک جانبازشخص ہے جو ظالمانہ استحصالی نظام کے خلاف سینہ سپر ہو
جاتا ہے۔ اپنی جان کی پروا کے بغیروہ کئی مہمات سر کرتا ہے بالآخر اپنی جان
کی بازی ہار جاتا ہے۔حسن بے پروا کے ساتھ کشمکش میں اس کی زندگی کی راتیں
اس طرح گزرتی ہیں کہ کبھی سوز و ساز رومی اور کبھی پیچ و تاب رازی کی کیفیت
کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔چاند کی خاطر ضد کرنے والے رومانی مزاج عاشق دلوں کو
مرکز مہر و وفا کس طرح کرتے ہیں اس کا نہایت دلکش انداز میں بیان گوئٹے کی
تخلیقات میں ملتا ہے۔
۲۔ نوجوان ورتھر کی داستان ِ غم 1774
یہ محبت کی ایک ایسی داستان ہے جس میںتخلیق کار کے ذاتی تجربات اور مشاہدات
کی جھلک صاف نظر آتی ہے۔ یہ محبت کی راہ پر چلنے والے کی اپنی تباہیوں پر
مبنی داستان ہے۔تصورات اور احساسات کے مابین پائے والے اختلافات اور متصادم
کیفیات کا نہایت مﺅثر انداز میں اظہار کیا گیا ہے۔
ورتھر نے ہلاکت خیزی کی راہ اپنائی اور اپنی تخریب کا باعث بن گیا ۔ حالات
اور خواہشات کا سیل ِرواں میں انسانوں کو خس و خشاک کے مانند بہالے جاتا
ہے۔معاشرتی زندگی کے کئی پہلومثلاً شادی پیمانِ وفااور خلوص ومروت کے بارے
میں اس ڈرامے میں جو سوال ابھر ے ہیں وہ آج بھی لمحہ فکریہ ہیں ۔ ایسا
محسوس ہوتا ہے خلوص کی تابانیوں کو مصلحت نے گہنا دیا ہے۔
۳۔ ڈراما ”فاﺅسٹ “ FAUST 1808
یہ ڈراما کائنات اور حیات کے موضوع پر ہے ۔ کائنات کے موضوع(cosmic)پر یہ
ڈراما کلاسیک کا درجہ حاصل کرچکا ہے ۔ یہ ڈراما ریلزم (Realism)کی حدود سے
آگے ہے۔ شاعرانہ تخیل کی جولانیاں دکھاتے ہوئے گوئٹے نے عام زند گی کے
حقائق کواس دلنشیںانداز میں پیش کیا ہے کہ زمانہ آئندہ کے تمام امکانات اس
میں سمٹ آئے ہیں ۔ فاﺅسٹ اور ابلیس کے عہد وپیمان کو جس موثرانداز میں پیش
کیا گیا ہے اس کے مطالعہ سے فرسودہ نظام کہنہ کے بارے میں واضح ہوجاتا ہے
کہ یہ سب کچھ گرتی ہوئی عمارت کے مانند ہے اس کے سائے میں عافیت سے بیٹھنے
کے خواب دیکھنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں ۔انسانیت کے
نشوونماوارتقاکی تفہیم میں اسے کلیدی مقام حاصل ہے۔
۴۔ اٹلی کا سفر (Italian journey )
زندگی کے آخری دنوں کی یادوں پر مبنی ہے ۔ پیرانہ سالی میں مصنف نے عمر
رفتہ کو آوازدی ہے اور اس طرح یہ ایام گزشتہ کی کتاب کے اوراق کا ایک
مجموعہ ہے ۔ تہذیب ، ثقافت،ادب ،کلچر اور مسائل پر گوئٹے کی گہری نظر تھی۔
اس کی تخلیقات میں عصری آگہی کا عنصر نمایاں ہے۔
گوئٹے نے اپنے عہد کے ادب پرگہرے اثرات چھوڑے ۔یورپ کے طرز احساس کو عبوری
دور میں ایک ایسی کیفیت کا سامنا تھا کو ہر لمحہ تغیرپذیر تھی۔ اس نے اس
تناظرمیںجذبات احساسات کا بنظر غائر جائزہ لیا ہے اور حقیقی صورت حال کو
اپنے فکر وفن کی اساس بنایا ہے ۔ سستی جذباتیت اور بے لگام رومانیت کو اس
نے کبھی لائق اعتنا نہیں سمجھاوہ کسی قسم کی تکثیر یت کو پسند نہیں کرتا
تھا ذوقِ سلیم پر مبنی فکر وخیال کی اہمیت کو وہ کلیدی اہمیت کا حامل
قراردیتا تھا ۔اس کا کہنا تھا
"There is nothing worse than imagination without taste" (1)
گوئٹے کوجرمنی میں بے پناہ قدرومنزلت نصیب ہوئی ۔ جرمنی کا کلچرل انسٹی
ٹیوٹ آج بھی گوئٹے انسی ٹیوٹ کے نام سے مشہور ہے یہ انسی ٹیوٹ جرمن ادب
ثقافت کی ترویج میں اہم کردار ادا کررہا ہے ۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ دنیا
کے بیشتر ممالک میں جرمن قوم نے اس شہرہ آفاق ادیب کی یاد میں گوئٹے انسٹی
ٹیوٹ قائم کر رکھے ہیں۔ اس طرح اس عظیم تخلیق کار کے افکار کو پوری دنیا
میں مثبت شعور اور آگہی کو پروان چڑھانے کے لیے بروئے کار لانے کی مساعی
جاری ہیں۔گوئٹے نے دنیا کے بیشتر ممالک کا سفر کیا ۔ دینا بھر میں اس کے
مداح کثیر تعداد میں موجو د ہیں۔ اٹلی اور سسلی کا سفر گو ئٹے کی زند گی کا
یاد گار سفرثابت ہوا ۔ اسی عرصے میں اس کی تخلیقی فعالیت کو نمو ملی ۔اس نے
اٹلی اور سسلی کے سفرکوجس تناظرمیں دیکھااس کا اندازہ ان احساسات کے لگایا
جاسکتا ہے۔
"To have seen Italy without having seen Sicily is not have seen Italy at
all , for Sicily is the clue to every thing."(1)
گوئٹے کی زندگی میں کئی سخت مقام بھی آئے ایک مرتبہ نشے میںبدمست اجرتی
قاتل اور کرائے کے بدمعاش اس کے گھر میں گھس گئے ۔ وہ اس جری تخلیق کار سے
متاع ِلوح قلم چھین کرہنستے اور بولتے ہوئے چمن کومہیب سناٹوں کی بھینٹ
چڑھانا چاہتے تھے مگر اس آزمائش کی اس گھڑی میںوہ اور ان کی اہلیہ کرسٹین
(Christiane)ثابت قدم رہے اور ظالم وسفاک ،موذی ومکار دہشت گردوں کو اپنے
مذموم مقاصد میں ناکامی ہوئی ۔ہر عہد میں خفاش منش جید جا ہل روشنی کی راہ
میں دیوار بننے کی قبیح کوششوں میں مصروف رہے ہیں ،مگر اولوالعزمان دانش
مند گو ئٹے کی طرح نہ صرف اپنے لہو سے ہولی کھیل کر دکھوں کے کالے کٹھن
پہاڑ اپنے سر پر جھیلتے ہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے سفاک ظلمتوں میں
ستارہ سحر بننے کی درخشاں مثال چھوڑجاتے ہیں۔گوئٹے نے اپنی یاداشتوںمیں
لکھاہے۔
"Fires, rapine, a frightful night… Preservation of the house through
steadfastness and luck." (1)
اگرچہ قسمت اور حالات سازگارتھے مگر آلام ِروزگار نے گوئٹے کا تمام عمر
تعاقب کیا۔ اس کی ہزاروں خواہشیں ایسی تھیں کہ ہر خواہش پر دم نکلتا تھا ۔
ہزاروں داستانیںایسی تھیںکو اس کے دل میں ناگفتہ رہ گئیں اس کی زند گی کا
سفر تو کٹ چکا تھا مگر وہ خود کرچیوں میںبٹ گیا تھا۔ اس کے جسم میں ایک بے
قرار روح تھی جوبے لوث محبت کے لیے تڑپتی رہی۔اسے اس بات کا شدت سے احساس
تھا کہ جسے بھی نہاں خانہءدل کی جان لیوا تاریکیاں کافور کرنے کے لیے چراغ
کے مانند پیار سے رکھا جاتا ہے وہی امیدوں کا خرمن خاکستر کر کے چلا جاتا
ہے۔گلشن ہستی میں ایسے بھی مناظر دیکھنے پڑتے ہیںکہ جسے گلاب کے مانند جان
سے بھی عزیزخیال کیا جاتا ہے وہی نشتر جاں میں کانٹے چبھو کر عمر بھر کی
کسک دے جاتا ہے۔گوئٹے کو اس بات کا شدید قلق تھا کہ لوگ مثل آفتاب وادی
خیال میں طلوع ہو کر اپنی چکا چوند سے مرعوب کر دیتے ہیں لیکن یہ ساری
صناعی جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ثابت ہوتی ہے۔قحط الرجال کے موجودہ زمانے کا
المیہ یہ ہے کہ جو لوگ مرہم بدست آتے ہیں ،وہی زخموں پر نمک چھڑک کر دل
دکھا کر دائمی مفارقتوں کی بھینٹ چڑھا کر چلے جاتے ہیں۔ا ن اعصاب شکن حالات
میں ایک حساس تخلیقی فن کار جب دکھوں کے جال ہر اک سو بچھے ہوئے دیکھتا ہے
تو وہ اپنی بے بسی پر کف افسوس ملنے لگتا ہے۔
1823 میںوہ الرائک واں لوٹزو (Ulrike Von Levetzow)کی زلف گرہ گیر کا اسیر
ہو ا ۔ اس کو دل دے کہ خود عارضہ قلب میں مبتلا ہو گیا ، اس ناکام محبت کے
نتیجے میں اس کی تخلیق”Marienbad Elagy“ منصہ شہود پر آئی ۔ اسے گوئٹے کی
نفیس ترین اور عزیزتخلیق کا درجہ حاصل ہے ۔گوئٹے نے بحیثیت شاعر جو فقید
المثال کامرانیاں حاصل کیں ان کا ایک عالم معترف ہے۔اس کے مزاج میں عجز و
انکسار کی فراونی تھی۔نارسیسی انہماک اس کے نزدیک کوئی وقعت نہ رکھتا
تھا۔ایک بات کا اسے بہر حال احساس تھا کہ رنگ ، خوشبو ، جلال و جمال اور
حسن و خوبی کے تمام استعارے جذبہءعشق کے مرہون منت ہیں ۔جذبوں کی صداقت کی
لفظی مرقع نگاری میں کوئی اس کا ہم سر نہیں۔جرمن ادب میں گوئٹے کی تخلیقی
کامرانیاں، متنوع تجربات اورمسحور کن اسلوب کو ایک لائق تقلید مثال قرار
دیا جاتا ہے۔اسے لطیف جذبات،قلبی احساسات پر مبنی دروں بینی
(introversion)کے بنیاد گزار کے نام سے آج تک اہم سمجھا جاتا ہے۔ گوئٹے نے
تخلیق فن کے لمحوں میں خون بن کر رگ سنگ میں اترنے کا ایسا اسلوب وضع کیا
جو اس کی ذات اور پہچان بن گیا۔وطن اور اہل وطن کے ساتھ قلبی وابستگی اور
والہانہ محبت اس کا بہت بڑا اعزاز اور امتیاز قرار دیا جاتا ہے ۔وہ ایک
عظیم محب وطن تھا اس نے لکھا ہے کہ ” کیا تم اس سر زمیں کے بارے میں جانتے
ہو جہاں باغوں میں بہار ہی بہار ہوتی ہے اور جہاں لیموں کھلتے ہیں اور باغ
مہک اٹھتا ہے۔وہ سمجھتا تھا کہ کاروان ہستی مسلسل رواں دواں ہے ۔رخش عمر
پیہم رو میں ہے ۔انسان کا نہ تو ہاتھ باگ پر ہے اور نہ پا رکاب میں
ہے۔تقدیر کے فیصلوں پر اسے کوئی اختیار نہیں۔اسے نہیں معلوم کہ رخش عمر
کہاں جا کر تھمے گا۔آلام روزگار کے مہیب بگولوں کی زد میں آکر انسان کی
کشتیِ جاں قلزم زیست کی موجوں کے تلاطم اور گرداب میں ہے۔ان اعصاب شکن
حالات میں دفاع اور احتجاج کا تصور ہی عبث ہے۔گوئٹے کے افکار و خیالات نے
عالمی ادب پر دور رس اثرات مرتب کیے جن کا ہر عہد کے ادب میں نشان ملتا
ہے۔اس نے افق ادب پر اپنی ضیا پاشیوں سے اکناف ادب کا گوشہ گوشہ منور کر
دیا ۔اس کی علمی ادبی اور قومی خدمات کا دنیا بھر میں اعتراف کیا جاتا
ہے۔اپنی زندگی کے آخری برس میں گوئٹے نے فاﺅسٹ (Faust)حصہ دوم کو پایہ
تکمیل تک پہنچایا اس کی اشاعت گوئٹے کی وفات کے بعد ہو سکی ۔ وہ شہرت عام
اور بقائے دوام کے منصب پر فائز رہے گا ، اس کی تخلیقات کی بازگشت ہرجگہ
سنائی دیتی ہے ایسے یادگار زمانہ لوگوں کے نام کی تعظیم ہردور میں تاریخ
کرتی رہے گی ۔
حوا لہ جات /مآخذ
1. https://en.wikipedia.org/wiki/Johann_Wolfgang_von_Goethe
2. https://www.poetry-archive.com/g/it_is_good.html
۳۔ڈاکٹر عزیز احمد خان:ادب کیا ہے ،مضمون مشمولہ دریافت ،مجلہ نیشنل
یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز،اسلام آباد،اگست ۶۰۰۲،صفحہ ۴۷۵َ |