آہ لیجنڈ معین اختر! وہ ایک شخص تھا روتوں کو ہنسانے والا

ہمارے کالم نگار دوست محمد احمد ترازی نے ہمیں فون پر جب یہ خبر دی کہ لیجنڈ اداکار معین اختر انتقال کر گئے ہیں تو ایک لمحے کے لئے ہمیں یقین ہی نہیں آیا کہ ایک ایسا عظیم فنکار اور شخص جس کی ساری زندگی روتے اور مایوس چہروں کو ہنسانے اور قہقہ بکھیرنے میں گزری وہ اِس پُرآشوپ دور میں دُکھی اِنسانوں کو ہنسنے اور ہنسانے کے حق سے کیسے محروم کر کے جاسکتا ہے....مگر اگلے ہی لمحے یہ سوچ کر خود ہی اپنے دل کو تسلی دیتے رہے کہ زندگی کے بعد موت وہ حقیقت ہے جس کو آج تک کوئی جھٹلانے والا پیدا ہی نہیں ہوا ہے اور جس نے بھی اپنی زندگی میں موت کی حقیقت کو جھٹلانے کی کوشش کی ایک نہ ایک دن وہ بھی موت کی آغوش میں چلا گیا اور تب جاکر اِسے یقین ہوگیا ہوگا کہ ہر زندہ شے کو موت آنی ہے اور الحمدُاللہ ہم تو مسلمان ہیں اور ہمارا تو ایمان ہی اِس پر ہے کہ ہر زندہ شے کو ایک نہ ایک دن موت کا ذائقہ ضرور چکھنا ہے اور بحیثیت مسلمان لیجنڈ فن کار معین اختر جو ایک عرصے سے عارضہ قلب میں متبلا تھے وہ بھی بالآخر22اپریل 2011بروز جمعہ شام سوا پانچ بجے اِسی عارضے میں انتقال کر گئے ۔ اور ہفتہ 23اپریل بعد نماز ظہر اِن کی نماز جنازہ ادا کی گئی جس میں اِن کے ہزاروں مداحوں اور فنکار ساتھیوں نے شرکت کی جس کے بعد اِن کی تدفین اِن کی رہائشگاہ سے قریب ہی واقع ماڈل کانونی کے قبرستان میں عمل میں لائی گئی اور مجھ سمیت آپ کو بھی اپنی دعاؤں کے ساتھ ساتھ یہ یقین بھی ہونا چاہئے کہ رب کائنات اللہ رب العزت اور اِس کے پیارے حبیب حضرت محمد مصطفیﷺ کے صدقے اور کرمِ خاص سے وہ اِس مرحلے سے بھی آسانی سے گزر ے ہوں گے اور موت کا ذائقہ چکھ کر آج جنت الفردوس میں اُس مقام پر فائز کردیئے گئے ہوں گے جو اللہ رب العزت اپنے نیک بندوں کو عطا فرماتا ہے۔

جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ مر کر بھی وہی جیتے ہیں جو جینے کے قابل ہوتے ہیں اور اِس میں کوئی شک نہیں کہ مراد آباد بھارت سے ممبئی کے بعد ہجرت کر کے پاکستان کے شہر کراچی آنے والے محمد ابراہیم کے یہاں تین بیٹوں اور ایک بیٹی کی ولادت ہوئی جن میں 24دستمبر1950میں پیدا ہونے والے محمد ابراہیم کے سب سے بڑے بیٹے 61 سالہ معین اختر تھے جنہوں نے1967میں امیر امام کے پی ٹی وی سے اپنے پہلے ڈرامے”چور“ سے اپنی فنی زندگی کا آغاز کیا جن کا شمار بھی اِن ہی خوش نصیبوں میں ہوتا ہے جو مر کر بھی جینے کے قابل ہوتے ہیں ایک اندازے کے مطابق ایک ہزار سے زائد ٹی وی اور اسٹیج ڈراموں اور شوز میں فن کا مظاہرہ کرنے والے بین الاقوامی شہرت کے حامل ممتاز لیجنڈ اداکار ورسٹائل کمپیئر صدارتی اعزاز یافتہ معین اختر جو چار عشروں سے زائد اپنے ایسے اَن گنت اور منفرد کرداروں سے اُداس چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرتے رہے وہ گزشتہ جمعہ کی شام انتقال کر گئے اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں اپنے لاکھوں اور کروڑوں مداحوں کو روتا چھوڑ گئے ۔جیسا کہ شہرت کے متعلق ایک بات یقینی طور پر کہی جاتی ہے کہ کسی بھی شخص کو شہرت پلک جھپکتے ہی حاصل نہیں ہوجاتی اِسے حاصل کرنے کے لئے بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں ،اور مجھے یہاں یہ کہنے دیجئے کہ معین اختر جو آج ہمارے درمیان موجود نہیں اِنہیں یہ مقام ایسے ہی نہیں مل گیا تھا اِس کے لئے اِنہیں بھی ا نتھک محنت اور جدوجہد کرنی پڑی تھی ۔

یہاں مجھے فیبرک کا یہ قول یاد آرہا ہے کہ موت سب ہی کو آتی ہے لیکن جو اچھے کام کرجاتے ہیں وہ زندہ جاوید ہوجاتے ہیں اور اِس کے ساتھ ہی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ مرنے کے بعد بھی دنیا آپ کو بھول نہ جائے تو کوئی اہمیت والی کتاب لکھیں یا اہمیت کے حامل ایسے کارنامے سرانجام دیں کہ اِنہیں زیرقلم لایا جاسکے اور اِس میں کوئی شک نہیں کہ بحیثیت انسان اور ایک عظیم لیجنڈ فنکار کہ معین اختر میں یہ تمام خوبیاں بدرجہ اتم موجود تھی۔معین اختر کی شخصیت میں وہ فہم وفراست اور مدبرانہ صلاحتیں موجود تھیں جو صدیوں بعد ہی کسی شخصیت میں موجود ہوتی ہیں وہ اِنسان اور انسانیت میں واضح فرق کرنے والے ایک ایسے اِنسان اور فنکار تھے جنہوں نے اپنے فن اداکاری کے 45سالوں کے دوران اپنی ذات سے کسی بھی شخص کو نہ تو دلی آزاری کا کوئی بہانہ تلاش کیا اور نہ کسی کو ظاہری نقصان کا کوئی وسیلہ ڈھونڈا اِن کی شخصیت عالمِ انسانیت کو ہنسنے اور ہنسانے اور اِن کے دکھوں کو بانٹنے اور کم کرنے والی تھی ۔معین اختر کی فن اداکاری نہ صرف اِن کی پہچان تھا بلکہ یہ دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی گئے اُنہوں نے اپنی اداکاری سے پاکستان کا ایک ایسا مثبت اور تعمیری روپ دنیا کے سامنے پیش کیا جس سے پاکستان کا وقار بلند ہوا اور وہ اپنی فن اداکاری سفیر پاکستان کا بھی ایک ایسا رول پیش کرتے تھے کہ جسے دنیا صدیوں یاد کرے گی۔اگرچہ آج اِس لیجنڈ اداکار معین اختر کے انتقال سے ہمارے یہاں فن اداکاری میں جو خلا پیدا ہوگیا ہے اِسے پُر ہونے میں شائد برسوں لگ جائیں مگر پھر بھی اِس خلا کو جلد پُر کیا جاسکتا ہے بشرطیکہ کہ اِس شعبے میں میرٹ اور ٹیلنٹ کو سامنے لایا جائے تو کوئی شک نہیں کہ ہمارے یہاں لیجنڈ اداکار معین اختر کے مداحوں میں اِن جیسے سینکڑوں میرٹ اور ٹیلنٹ موجود ہوں گے جو سفارش اور پرچی نہ ہونے کی وجہ سے ا َب تک اداکاری کے شعبے میں اپنے فن کا مظاہر ہ نہیں دکھا سکے ہیں ۔بیشک معین اختر کا فنی کیریئر اُن لوگوں کے لئے ہمیشہ مشعلِ راہ رہے گا جو اپنی صلاحیتوں سے فن اداکاری میں جوہر دکھانے کے خواہشمند ہیں اور اُن لوگوں کے لئے بھی ایک ایسی کھلی کتاب ہے جن کے دل دن رات فن اداکاری میں نت نئے جوہر دکھانے کے لئے متحرک رہتے ہیں ،مگر اِن تمام باتوں کو حقیقی رنگ تب ہی نصیب ہوسکتا ہے کہ جب فن سے محبت کرنے اور لیجنڈ اداکار معین اختر کو کُھلے دل سے محبت کرنے اور اِن سے عقیدت کا اظہار کرنے والے سینئیر فنکار اور ہدایت کار خالصتاََ ایسے ٹیلنٹ کو سامنے لائیں جیسے معین اختر نے عمر شریف جیسے ایک عظیم فنکار کو ڈھونڈ نکالااور اِن کی ہر موڑ پر حوصلہ افزائی کی ....آج یہی وجہ ہے کہ معین اختر اپنی زندگی میں اپنے جونیئر عمر شریف کو اِس قابل بنا گئے کہ عمر شریف اپنے فن اداکاری سے اُن دکھی اور اُداس چہروں پر خوشیاں بکھیرنے کا کام اُسی طرح انجام دے رہے ہیں جس طرح معین اختر دیا کرتے تھے۔(ختم شد)
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 971954 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.