جمہوریت کی سب سے بہترین تعریف
جس کو کہا جاتا ہے اور سمجھا جاتا ہے وہ یہ ہے ،، عوام کی حکومت، عوام کے
لئے اور عوام کے ذریعے،، مگر ہم اپنے ملک پاکستان کے حالات و واقعات اور
حکومتی ڈھا نچے اور ان کے اختیارات و فرائض اور ان کی انجام دہی دیکھیں تو
ہماری جمہو ریت اس کی اصل تعریف کے بالکل الٹ اور برعکس ہے پاکستان میں
حکومت نہ عوام کی ہوتی ہے اور نہ عوام کے لئے اور نہ ہی عوام کے ذریعے ہوتی
ہے۔ پاکستانی جمہوریت کی بہترین تعریف اس طرح کی جا سکتی ہے: ،، خواص کی
حکومت، خواص کے لئے اور خواص کے ذریعے،، آپ سب حالات و واقعات سے بے خبر
نہیں ہیں اور سب متفق ہوں گے کہ قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات کے بعد جو
بھی حکمران آیا اس نے اسی تعریف کے مطابق کام کئے خاص کر ذوالفقار علی بھٹو
کی حکومت اور وفات کے بعد یہ سلسلہ جاری ہوا اور آج تک بڑھتا ہی رہا ہے اور
موجودہ دور میں خالصتاً خواص کی حکومت ،خواص کے لئے اور خواص کے ذریعے ہی
پاکستان کی جمہوریت اور نظام ہے۔
کوئی بھی پارٹی ہو پیپلز پارٹی ہو یا مسلم لیگ ن ، متحدہ قومی موومنٹ ہو یا
تحریک انصاف یا کوئی بھی جماعت یعنی سیاسی پارٹی لے لیں الیکشن کے دنوں میں
عوامی فلاح و بہبود اور مفادات کا نعرے لگاتے ہیں اور برسر اقتدار آ کر سب
کچھ بھول جاتے ہیں ہاں نعرہ پھر بھی یہی لگاتے اور لگواتے ہیں مگر عملی صرف
اور صرف اپنے ذاتی مفادات کے لئے ہو جاتے ہیں یعنی باتوں اور عمل میں تفاوت
یعنی زمیں آسمان کا فرق آ جاتا ہے۔ اسی نظریئے اور عمل میں فرق کی وجہ سے
ہی ہمارا ملک و قوم روز بروز تباہی کی طرف جا رہی ہے۔
اب پاکستانی جمہوریت کا ثبوت اور وضا حت کرتا ہوں کہ کس طرح پاکسانی حکومت
عوام کی بجائے خواص کی، خواص کے لئے اور خواص کے ذریعے ہے۔
سب سے پہلے خواص کی حکومت۔ آپ سب دیکھتے اور جانتے ہیں کہ پاکستان کی حکومت
میں صرف خواص لوگ ہی آ سکتے ہیں وہ جاگیردار، زمیندار یا صنعتکار میں سی ہی
ہوتا ہے جس کے پاس الیکشن میں حصہ لینے کے لئے کافی مال و دولت ہو جس کو وہ
بے تحاشہ خرچ کر کے الیکشن میں کامیاب ہوتا ہے کوئی غریب آدمی الیکشن میں
حصہ لینا تو دور کی بات حصہ لینے کا سوچ بھی نہیں سکتا کیونکہ اس کے لئے
اپنا سب کچھ بیچنا پڑے گا مگر پھر بھی جیت نہ سکے گا کیو نکہ اس کے پاس
لوگوں کو سبز باغ دکھانے اور اور بیو قوف بنانے کے لئے سرمایہ نہیں ہو گا۔
خواص کے لئے کو اگر لیا جائے تو یہ سو فیصد درست اور حقیقت پر مبنی ہے آپ
دیکھیں کہ ملک میں تمام مراعات خواص کو حاصل ہوتی ہیں اور جو بھی نیا قدم
اٹھایا جاتا ہے وہ صرف اور صرف خواص کے لئے اور ان کے مفادات پر مشتمل ہوتا
ہے۔ کیا کیا مثالیں دوں۔ بڑے بڑے وزراء اور عہدیداروں کی تنخواہ اور آمدنی
کو دیکھ لیں ان کی آمدنی اتنی ہوتی ہے کہ وہ اپنے تمام اخراجات چاہے وہ
فضول خرچی اور عیش پرستی میں بھی خرچ کریں تو بھی ان کی تنخواہ کافی ہو گی
لیکن پھر بھی ان کے ٹیلیفون۔ بجلی اور گیس کے بل معاف ہوتے ہیں ان کا پٹرول
مفت ہوتا ہے کہنے کو تو صرف سرکاری کاموں کے لئے مفت پٹرول لیتے ہیں لیکن
ہم سب جانتے ہیں کہ سرکاری کاموں میں کتنا استعمال کرتے ہیں اور ذاتی کاموں
میں کتنا استعمال ہوتا ہے۔
عوام کے لئے اگر حکومت ہے تو عوام کے لئے کیا کام کیا ہے اور عوام کو کیا
سہولیات اور فائدے پہنچائے ہیں کس کس بات کو رویا جائے بجلی، پٹرول، ڈیزل،
کھادوں اور ضروریات زندگی کی ہر شے کی قیمتوں میں روز بروز اضافہ سے عوام
کو کیا سہولیات مل رہی ہیں عوام کا کیا فائدہ ہو رہا ہے لوڈ شیڈنگ کو دیکھ
لیں اس سے کس قدر بے روز گاری پھیل رہی ہے۔ حکومت کو عوام کی بے چینی،
پریشانیاں، دکھ، تکالیف اور مصیبتیں نظر ہی نہیں آرہے ہیں وہ تب ہی آتے جب
حکومت عوام کے لئے ہوتی۔ جناب زرداری صاحب اس معا ملے میں سب سے زیادہ آگے
اور دور اندیش نکلے ہیں انہوں نے تو پچھلی تمام حکومتوں یہاں تک کہ پرویز
مشرف جس کو سب سے زیادہ برا سمجھا جاتا ہے ان کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ان
کی عوام دوستی اور دور اندیشی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ پاکستان بننے
سے لیکر ان کے صدر بننے سے پہلے تک پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں پچاس فیصد
فرق ہوتا تھا یعنی ڈیزل کی قیمت ہمیشہ پٹرول کی قیمت سے آدھی رہتی تھی مگر
ان کی دور اندیشی اور عوام دوستی کو سلام کہ انہوں نے آہستہ آہستہ قیمتوں
میں اضافے کے ساتھ ساتھ پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں فرق کو کم کرتے کرتے آج
ڈیزل کی قیمت پٹرول کی قیمت سے بڑھ چکی ہے واہ زرداری واہ تجھے سلام تو
جانتا تھا کہ پٹرول خواص ہی استعمال کرتے ہیں لیکن ڈیزل تو عوامی ٹرانسپورٹ،
ٹیوب ویل اور ٹریکٹروں میں استعمال ہوتا ہے یعنی عوام کے لئے زیادہ استعمال
ہوتا ہے محنت کش، غریب اور مجبور کسان نے اس کو زیادہ استعمال کرنا ہے اس
لئے ڈیزل کی قیمت میں اضافہ کرتے کرتے اس کی قیمت پٹرول سے بھی زیادہ کر دی
اور آئے روز پٹرول کے ساتھ ساتھ ڈیزل اور دوسرے تیلوں کی قیمتوں میں اضافہ
کرتا جا رہا ہے اور روکنے والا کوئی نہیں۔ کون روکے ایک بار چیف جسٹس
افتخار چوہدری نے خود اضافہ روکنے کا قدم اٹھایا تھا لیکن جناب زرداری صاحب
نے اسی رات اس آرڈر کو کالعدم قرار دے کر دس روپے مزید بڑھا دئے تھے اس کے
بعد کسی نے جرات نہ کی کہ اگر کوئی قدم اٹھایا تو اس سے عوام پر اور بوجھ
پڑے گا۔
آپ میں سے کوئی بھی مجھے کوئی ایک مثال دے جس میں عوام کے فائدے کے لئے
حکومت وقت نے کوئی قدم اٹھایا ہو۔ اب میں ان شعبوں کا ذکر بھی کرنا چاہوں
گا جن کو عوام کا محافظ کہا جاتا ہے۔ وہ ادارے اور شعبے پولیس، پٹرولنگ
پولیس، ٹریفک پولیس، پنجاب پولیس اور ایلیٹ فورس وغیرہ ہیں۔
پولیس جس کو عوام کا محا فظ سمجھا جاتا ہے آج ڈر اور خوف کی علا مت بن چکا
ہے کوئی بھی عام آدمی کسی کی شکایت کرنے یا کسی واقعے کی اطلاع صرف اس لئے
پولیس کو نہیں کرتا کہ اس کو ہی معا ملے میں پھنسا لیا جات ہے اور وہ بے
چارہ جیل اور پھر عدالت مین ہی زندگی کا زیادہ حصہ گزار دیتا ہے۔
اسی طرح ٹریفک پولیس اور دوسرے ادارے بھی اپنا کام عوام کی خاطر کم ہی کر
رہے ہیں اصل میں ان تمام اداروں کو خواص کے مفادات اور خواص کی حکومت بچانے
کے لئے تشکیل دیا گیا ہے۔ ہم سب دیکھتے ہیں کہ جب بھی کوئی جماعت یا عوام
کسی حکومتی قدم پر ہڑتالیں، جلسے یا جلوس نکالتے ہیں تو یہی ادارے مل کر
عوام کو منتشر کرنے اور جلسے جلوس کو ناکام بنانے کے لئے متحرک ہو جاتے ہیں
اور اجتماعی اور قومی مفادات کے تحفظ کے لئے نکالنے والے جلسے جلوس کو
منتشر کرنے کے لئے لاٹھی چارج۔ آنسو گیس یہاں تک کہ بعض اوقات فائرنگ کا
سہارا بھی لے لیتے ہیں۔ اگر یہ حقیقت میں عوام کے لئے ہوتے تو پولیس کے
دروازے ہر عام آدمی کے لئے کھلے ہوتے اور ہر عام اور غریب آدمی کو اپنی
شکایت اور ایف آئی آر بغیر کسی سفارش اور رشوت کے درج کرانے کا حق اور سولت
میسر ہوتی۔ پولیس کسی بھی کال اور بلانے پر فوراً وہاں پہنچ کر معا ملے کو
نبٹاتی اور کاروائی کرتی اور ہم سب جانتے ہیں کہ ایسا بالکل نہیں ہے۔ اسی
طرح پٹرولنگ پولیس اور ٹریفک پولیس کا اور کاموں کے ساتھ ساتھ خاص کر
پٹرولنگ پولیس کا یہ بھی کام ہوتا ہے کہ ہر گاڑی میں کرایہ نامہ لگا ہوا
چیک کریں اور اگر کسی گاڑی میں کرایہ نامہ نہ لگا ہوا ہو تو اس پر بھاری
جرمانہ کیا جاتا ہے اس کے ساتھ ساتھ زیادہ کرایہ لینے پر بھی جرمانہ کیا
جاتا ہے یہ اس وقت ہی ممکن ہے کہ ہر جگہ کا کرایہ مختص کیا جائے اور گاڑیوں
میں لگانے کا حکم دیا جائے تاکہ ہر آدمی کو کرایہ معلوم ہو اور زیادہ لینے
پر شکایت کر سکے یہ تو اس وقت ہی ہوتا جب حکومت عوام کے لیے ہوتی۔
اب آخر میں عوام کے ذریعے کا نکتہ رہ جاتا ہے کہنے کو تو عوام نمائندے چنتے
ہیں لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ اول تو نمائندے پوری عوام کے پسندیدہ نہیں
ہوتے۔ علاقے کے چند بڑے اور اثر و رسوخ والے ہی الیکشن میں حصہ لیتے ہیں
اور مجبوراً لوگ ان کو ہی ووٹ دیتے ہیں کیو نکہ انکے سوا وہ کس کو ووٹ دیں
اس لئے تو زیادہ تعداد ووٹ ڈالنے بھی نہیں آتی ہے۔ اور وہ لوگ اپنی دولت،
طاقت اور اثر ورسوخ سے الیکشن جیت لیتے ہیں اور پھر آگے جا کر زرداری صاحب
جیسے حکمران قوم پر مسلط کر دیتے ہیں اب آپ خود ہی بتائیے کہ کہنے کو
زرداری صاحب عوامی صدر ہیں کیا حقیقت میں ایسا ہے۔ پاکستان کی عوام میں سے
کتنے لوگ زرداری کو صدر بنانا چاہتے تھے اور کتنے لوگ نہیں۔ باقی خیالات
اور جذبات پھر کبھی وقت ملا تو اس بارے میں لکھوں گا۔ اللہ حافظ |