سچائی کی آواز

انسانی معاشرے میں ذہنی ارتقا ایک ایسا سچ ہے جو انسانوں کو نیا اندازِ فکر عطا کرتا ہے اور انھیں اپنے ہی قائم کردہ نظریات پر نظرثانی پر مجبور کرتا ہے۔علم و دانش کی سلطنت سے علم و حکمت کے موتی چننے ، مشاہدے کی نعمت سے فیضیاب ہونے، کائنات پر غور عوض کرنے اور تجربات کی بھٹی سے گزرنے کے بعد انسا نوں کی سوچ میں پختگی، گہرا ئی اور بالیدگی رونما ہو تی ہے اور وہ نئے خیالات سے دنیا کی صورت گری کا فریضہ سنبھال لیتے ہیں۔ غورو فکر کی بے خود ساعتوں اور کیفیتوں میں انسانوں پر سچ کا نزول ہوتا ہے جو ان کی پوری زندگی کو بدل کر رکھ د یتا ہے اور وہ اسی سچائی کی قوت سے نیا معاشرہ تشکیل دینے کی جدو جہد میں جٹ جاتے ہیں۔ اس کی اشکال اور انداز مختلف ادوار اور مختلف زمانوں میں مختلف ہو تے ہیں کبھی کبھار برگد کے پیڑ کے نیچے اس کی جلوہ نمائی ہو تی ہے اور سچائی دیکھنے والے کو مہاتما بنا دیتی ہے۔سوچ میں تغیر کی لہریں کیوں اور کیسے سر اٹھا تی ہیں اور ان کا بنیادی سبب کیا ہوتا ہے انتہائی اہم سوال ہے اور اسکا جواب وہی شخص دے سکتا ہے جو اس کیفیت سے گزرا ہو لیکن یہ سچ ہے کہ اکثرو بیشتر ایسا ہوتا ہے اور دنیا کی اکثر عظیم شخصیتیں اس کیفیت سے گزر کر بڑے معرکے سر کرتی ہیں ۔خوش قسمت ہیں وہ دانشور جو اپنے نظریات میں ا بتدا ئی دور میں اتنی پختگی پیدا کر لیتے ہیں جو زندگی کے آخری ایام تک ان کا ساتھ دیتی ہے لیکن ایسے لوگ شاذ و نادر ہی ہو تے ہیں کیونکہ ز مانے کی بدلتی روش اور امکانی تغیرات انسانی نظریات کی چولیں ہلا دیتے ہیں اور ا نھیں وقت کی بدلتی روش میں اپنے نظریات میں تبدیلی لا نا پڑ تی ہے۔۔

ڈاکٹر علامہ محمد اقبال برِ صغیر پا ک و ہند کی نابغہ روزگار شخصیت۔ شعرو ادب کی انتہائی بلندیوں پر فائز اور علم حکمت کی دنیا میں عزت و تکریم کی مستحق لیکن اگر ہم ان کی زندگی اور نظریات پر ایک اجمالی سی نگاہ ڈالیں تو ہمیں احساس ہو جائے گا کہ زمانے نے ان کی شخصیت پر کتنے گہرے نقوش ثبت کئے تھے، علم و آگہی اور تجربات نے انھیں کتنی بڑی بڑی اور نئی نئی حقیقتوں سے روشناس کروایا تھا۔یورپ کا ان کا سفر، جدید دنیا کو قریب سے دیکھنے اور مختلف تہذیبوں کے گہرے مطالعے کے بعد ان کے اندر ایک نئے اقبال نے جنم لیا تھا۔سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا ا کا گیت گا نے والا فلسفی جب یورپ سے علم و عرفان کی روشنی لے کر واپس لوٹا تو اس کی بصیرت نے اپنے ارتقائی مراحل طے کرنے کے بعد ان کی سوچ کو بالکل بدل کر رکھ دیا اور اس نے برملا اعلان کردیا کہ چین و عرب ہمارا ہندو ستان ہمارا۔ مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا۔ بحرِ علم میں غوطہ زن ہونے کے بعد انھوں نے اپنی فکر کی بنیادیں نئے سرے سے استوار کیں اپنے نظریات کو نئی سمت عطا کی، جدید روشنی سے جلا بخشی، علم کی عظمتوں سے اس میں رنگ بھرے، مستقل اقدار کے نور سے اسے دلکشی عطا کی اور انسا نیت کی راہنمائی وحیِ خداوندی کے اس چشمے کی جانب کی جس میں خیر و برکت کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے ۔ ان کا ایمان تھا کہ صرف اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو پر امن ، انصاف پسند اور عادل معاشرے کے قیام کے لئے ا نسانوں کی راہنمائی کا فریضہ سرا نجام دے سکتا ہے۔ اپنے آفاقی پیغام اور نظریات کی بدولت وہ ایسے دیدہ ور کا روپ اختیار کر چکے ہیں جو محبوبِ خلائق کی مسند پر جلوہ ا فروز ہوا ہے اور اہلِ جہاں سے اپنی دانش و حکمت کی وجہ سے خراجِ تحسین وصو ل کر رہا ہے۔علامہ اقبال سے جب ان کی اتنی بڑی فکری تبدیلی کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ صرف پتھر نہیں بدلا کرتے اور میں پتھر نہیں ہوں۔۔۔

قا ئدِ اعظم محمد علی جناح انڈین نیشنل کانگریس کے مرکزی راہنما تھے اور ہندو مسلم اتحاد کے سب سے بڑے داعی تھے تبھی تو انھیں ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔وہ ہندوستان کی تقسیم نہیں چاہتے تھے ۔ وہ متحدہ ہندوستان کے وکیل تھے اور تقسیم انھیں کسی صورت میں بھی گوارا نہیں تھی۔وہ ہندوستان کے مسائل کا حل متحدہ ہندوستان کے اندر تلاش کرتے تھے۔علامہ اقبال نے جب ۰۳۹۱ میں دو قومی نظریہ پر مبنی اپنا شعرہ آفاق خطبہ دیا تو قائدِ اعظم محمد علی جناح کو کہنا پڑا کہ یہ علامہ اقبال کے ذاتی خیا لات ہیں مسلم لیگ کا بحثیتِ ِ جماعت اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انھیں کیا خبر تھی کہ وہ خطبہ جسے وہ علامہ اقبال کے ذاتی خیالات کہہ کر نظر انداز کر رہے ہیں اسی نظریے پر انھیں برِ صغیر پا ک و ہند میں مسلما نوں کے مقدر کی سب سے بڑی جنگ لڑنی پڑے گی۔ متحدہ ہندوستان کے مطالبے سے ایک علیحدہ اسلامی ریاست کے مطالبے اور سیاسی جدو جہد پر محیط ان کے سیاسی سفر کے اتنے بڑے تضاد پر جب ان سے سوال کیا گیا تو انھوں کے کہا کہ کبھی میں پرائمری کلاس کا سٹوڈنٹ بھی ہوا کرتا تھا۔ تاریخ کے اپنے راستے اور فیصلے ہوتے ہیں اور انسان کو ان فیصلوں پر عامل بن کر تاریخ کی آواز پر لبیک کہنا اور اس پر عمل پیرا ہونا پڑتا ہے۔قائدِ اعظم محمد علی جناح نے متحدہ ہندوستان کے اپنے نظریے کو خیر باد کہہ کر ایک علیحدہ اسلامی مملکت کے قیام کا مطالبہ کر دیا جو کہ ان کی ابتدائی سیا ست میں کہیں نظر نہیں آتا۔ عجیب اتفاق ہے کہ یہ مطالبہ ہی ان کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد ٹھہرا اور اسی کے حصول میں انھوں نے اپنی زند گی کی ساری توانائیاں صرف کر دیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر قائدِ اعظم محمد علی جناح اسلامی ریاست کے قیام کا معجزہ سر انجام نہ دیتے تو شائد وہ جدید تاریخ کی سب سے زیادہ سحر انگیز شخصیت کبھی نہ بن پاتے۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کی فکری تبدیلی نے ہی انھیں قائدِ ا عظم کی مسند عطا کی وگرنہ وہ بھی بہت سے دوسرے راہنماﺅں کی طرح پارلیمنٹ میں تقاریر کرتے کرتے اپنا سیاسی سفر مکمل کر لیتے اور تاریخ میں ان کا کہیں نام تک نہ ہوتا۔۔

مخدوم جاوید ہاشمی جنرل ضیا الحق کی مارشل لائی حکومت میں وزیر بنے لیکن جلد ہی اس کو خیر باد کہہ کر جمہوری جدو جہد کے بے باک سپاہی بن کر میدان میں اترے۔ مجھے ان کی سیاست سے لاکھ اختلاف ہو سکتا ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ قافلہِ جمہو ریت کا روشن ستارا بھی ہیں اور عوام کی آنکھوں کا تارا بھی ہیں ۔ جنرل ضیا الحق سے ان کی قربتیں کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں وہ جنرل ضیا الحق کے خاص مصا حبین میں شمار ہوتے تھے ا ور پی پی پی کے بڑے ناقدین میں ان کا شمار ہوتا تھا لیکن تجربات کی بھٹی سے گزرنے کے بعد وہ فوجی مداخلت کے سب سے بڑے ناقد بن کر ابھرے ۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں انھوں نے قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کیں لیکن جس فکر کو سچائی کے ساتھ گلے لگا یا تھا اس کی خا طر ڈٹ گئے اور اپنے اصولوں پر سودے بازی کرنے سے انکار کر دیا۔انھوں نے جنرل پرویز مشرف سے وزارت کا حلف اٹھانے کا انکار کر کے ایک با اصول سیاستدان ہونے کا ثبوت دیا۔وہ پی پی پی کی جمہوری جدوجہد کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔سید یوسف رضا گیلانی جنرل ضیا الحق کے اقتدار کے اسیر تھے لیکن جب جمہوری رویوں پر ان کا ایمان پختہ ہوا تو پھر قیدو بند کی سیاہ ، تنہا،تکلیف دہ اور المناک راتوں کو برداشت کیا اور ایک مخلص جمہوریت پسند ہونے کا ثبوت دیا۔ سید یوسف رضا گیلانی کے سر پر وزارتِ عظمی کا تاج اسی جدو جہد کا صلہ ہے جو انھوں نے جمہوریت کی بحالی کےلئے کی تھیں۔اب اگر جنرل ضیا الحق سے ان کی عقیدت کو ہی حرفِ آخر سمجھ لیا جاتا اور نھیں اصلاح کا موقع نہ دیا جاتا تو شائد آج وہ وز یرِ اعظم نہ ہوتے۔

جنرل ضیا الحق کا ساتھ دینے والوں میں ایک بڑا نام بابر اعوان کا بھی ہے جو جنرل ضیا ا لحق کا معتقدِ خاص تھا اور اسکی حمائت میں جذباتی تقریر یں بھی کیا کرتا تھا ۔ بابر اعوان کا تعلق چونکہ جماعت اسلامی سے تھا اور جماعت کی قیادت کا جنرل ضیالحق سے ایک خاص رشتہ تھا جسکی وجہ سے جماعت مکمل طور پر جنرل صاحب کے ساتھ نتھی تھی لہٰذا جماعت کا رکن ہونے کی جہت سے بابر اعوان بھی جنرل صاحب کی حمائت میں پیش پیش تھا لیکن اس حمائت کے بدلے میں بابر اعوان نے نہ تو کوئی حکومتی منصب حاصل کیا اور نہ ہی کو ئی منفعت بخش عہدہ ۔یہ دور بابر اعوان کی شخصیت سازی کا ابتدائی دور تھا جس میں جذباتیت کا رنگ غالب ہوتا ہے جیسے جیسے وقت گزرتا گیا بابر اعوان تاریخ فلسفے سیاست اور مذہب پر تحقیق و جستجو سے گزرتا چلا گیا اور علم کی روشنی سے اپنے سینے کو منور کرتا چلا گیا تو اس پر بہت سے حقائق منکشف ہوتے چلے گئے۔

پاکستان میں جمہوری قدروں کے احیا اور اس کےلئے جدو جہد کرنے والے مشاہیر پر ریسرچ کرنے کے بعد بابر اعوان ا س نتیجے پر پہنچا کہ آمریت سے ٹکر لینا کوئی معمولی بات نہیں ہوتی یہ بڑے دل گردے والے لوگوں کا کام ہو تا ہے لہذا ٓمریت سے ٹکرا جانے والی شخصیت بھی غیر معمولی اوصاف کی حامل ہوگی۔ پاکستان میں جمہوریت کے احیا کی جمہوری جدو جہد کے لئے جب اس نے تاریخ کی ورق گردانی کی تو پاکستان میں آمریت اور جمہوریت کی انتہائی خون آلود جنگ میں اس کی نظریں قافلہ سالار ذوالفقار علی بھٹو پر جم کر رہ گئیں اور جمہوری جدو جہد میں اس کی شہادت نے اسے اپنی گرفت میں لے لیا۔ بھٹو کے سحر نے اسے ایسا جکڑا کہ اسکی شہادت پر مٹھائیاں بانٹنے والا بابر اعوان اس کا پیرو کار اور مرید بن گیا ، اسکی عظمتوں کا نقیب بن گیا ،اس کی جراتوں کا علم بردار بن گیا۔ وہ اس کی بسالتوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لئے میدانِ عمل میں کود پڑا ۔بھٹو ازم کے متوا لوں نے بابر اعوان کی للکار میں اپنی للکار شامل کر کے بابر اعوان کی محبت ،چاہت اور عشق کو بلند مقام عطا کر دیا ۔بابر اعوان جب صفِ عدو سے نکل کر آیا اور اس نے بھٹو کے لہو پر بعیت کی تو جیت کس کی ہوئی ۔سفاک بے رحم جنرل ضیا لحق کی یا بے گناہ بھٹو کی ۔اگر جیت واقعی بھٹو کی فکر کی ہو ئی تو پھر پی پی پی کے لئے مقامِ فخر ہے کہ سچ نے جھوٹ کو نگل لیا ہے۔۔۔

میاں محمد نواز شریف کی سول آمریت میں بابر اعوان نے جمہوریت کی شمع کو خونِ جگر سے روشن کیا ۔ سیف الرحمان نے سیاست میں جو اودھم مچایا ہوا تھا اسکی سفاکیوں اور بے رحمیوں کا پردہ چاک کیا ۔مخالفین کو ملیا میٹ کرنا یا انھیں جلا وطن کرنے کی جس روش کا آغاز کیا گیا تھا بابر اعوان نے اس بے رحم دور میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ ثابت قدمی سے کھڑے رہ کر آمریت کے سامنے بندھ با ندھنے کی جرات کی اور مخالفین کی چیرہ دستیوں کو بے نقاب کیا۔ عدالتوں پر سیف الرحمان نے جو ہیجانی کیفیت پیدا کر رکھی تھی اسکا پردہ چاک کیا اور ثابت کیا کہ فیصلے عدالتوں میں نہیں بلکہ سیف ا لرحمان کے آفس میں ہوتے ہیں سیف الر حمان اور ججز کی گفتگو کے کیسٹ عدالت میں پیش کئے جس میں سیف ا لرحمان ججز کو محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف فیصلے کےل ئے مجبور کر رہے تھے اور یوں انھوں نے میاں صاحب کی سول آ مر یت کو بے نقاب کیا۔

جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں میاں صاحب کی جماعت تاش کے پتوں کی طرح ہوا میں بکھر گئی۔ اس کے سارے قابلِ ذکر راہنما جنرل پرویز مشرف کی گود میں بیٹھ کر اقتدار کے مزے لوٹنے میں مشغول ہو گئے۔انھیں نہ تو جمہوریت سے کوئی غرض تھی اور نہ ہی اپنی جماعت کی قیادت سے دلچسپی تھی انھیں اقتدار کی ہوس تھی اور اقتدار جنرل پرویز مشرف کی مٹھی میں بند تھا۔ پی پی پی کے صفِ اول کے چند راہنما جنھوں نے پی پی پی کی خاطر قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کی ہو ئی تھیں اور جمہوریت کے لئے بڑی قربانیاں دے رکھی تھیں فوجی آ مریت کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئے ۔ انھوں نے پی پی پی پیٹریاٹک تشکیل دے کر پی پی پی سے غداری کی اور یوں قیادت کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا۔آمریت کے بے رحم جبر اور اندھیروں میں بھی بابر اعوان کے پائے استقامت میں لرزش نہ آئی اور وہ اسی انداز سے آمریت کو للکارتا رہا اور اپنی جمہوریت پسندی کی للکار سے جیالوں کو حوصلہ عطا کر تا رہا بالکل اسی طرح جس طرح اس نے میاں صاحب کی سول آمریت میں سیف الرحمان کو للکارا تھا۔ اس کے اس اندازِ فکر اور جرات مندانہ موقف نے اس کی قدرو منزلت میں بے پناہ اضافہ کیا اور یوں اس نے جیالوں کے دل جیت کر پارٹی اور جمہوریت نواز حلقوں میں اپنی پوزیشن مستحکم کر لی۔۔۔

انسانی زندگی میں توبہ۔پچھتاوا۔مراجعت اور ا صلا ح کی گنجائش اگر قدرت نہ رکھتی تو دنیا آج جنگ و جد ل میں مصروف ہوتی ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہی ہوتی۔غلطی کو تسلیم کر کے اس کے سدھار کا مادہ ہی تو انسانی ارتقا میں بنیادی عنصر کی حیثیت رکھتا ہے ۔ غلطی کو ترک کرنا اور سچ کو گلے لگا لینا ہی دانشمندوں کا وطیرہ رہا ہے اور یہی سب کچھ تو بابر اعوان نے بھی کیا ہے پھر اس کے خلاف اتنا طوفان کیوں اٹھانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ صفِ عدو سے ایک جمہوریت نواز شخص جمہوری قافلے میں شامل ہوا ہے تو جمہوریت نوازوں میں شادمانی کے ڈنکے بجنے چاہیے تھے کہ ایک دل والے نے آمریت کے قافلے کو ٹھکرا کر جمہوریت کی شمع اٹھانے کا بیڑا اٹھا یا ہے۔تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب کبھی بھی کوئی شخص صفِ عدو سے نکل کر آتا ہے اہلِ دل میں اس کا مقام بڑا بلند ہوتا ہے۔ اگر میری بات کا یقین نہیں تو یزیدی فوج کے سپہ سالار حر کی زندگی کا مطالعہ اس حقیقت کی نقاب کشائی کے لئے کافی ہے۔ کر بلا کے میدان میں یزیدی فوج کے سپہ سالار حر کی زندگی کا واحد مقصد سیدا لشہدا امام حسین کے بہتر ساتھیوں کا خاتمہ کرنا تھا لیکن قسمت کے کھیل بھی نرالے ہیں اور وہی حر جس کا مقصدِ اولین اہلِ بعیت کو مٹانا تھا آخری معرکے میں اپنی فوج کو چھوڑ کر حضرت امام حسین کے قافلے میں شامل ہو گئے شہادت کا عظیم منصب ان کا مقدر بنا اور رہتی دنیا تک حریت پسندوں کا فخر قرار پائے ۔ حضرت امام حسین اور اہلِ بیعت کی آزمائش کی ساری داستان حر کی جراتوں کے ذکر کے بغیر نامکمل لگتی ہے۔

خدا نے بابر اعوان کو فصاحت و بلاغت کے خزانے عطا کر رکھے ہیں علم کی دولت سے نواز رکھا ہے دلیل کی قوت عطا کر رکھی ہے لہٰذا اس کی شمشیر نے بڑے بڑوں کے جگر کا ٹ کر رکھ دئے ہیں۔ کس میں ہمت ہے کہ اس کے سامنے کھڑا ہو کر اس کی دلیل کو دلیل سے کاٹ سکے ۔ اس کے دلائل کا سامنا کر سکے۔ وہ بھٹو از م کی محبت میں ایک پر جوش ندی کی مانند آگے بڑھتا چلا جا رہا ہے اور اپنی اہمیت کو سب پر اجاگر کرتا جا رہا ہے۔ اس وقت وہ پارٹی میں سب سے بڑا دانشمند ہے اور اس کی بصیرت کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے، اس نے صدرِ مملکت آصف علی زرداری کو قائل کیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل پر سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کیا جائے تاکہ بے گناہ بھٹو کے دامن پر لگے قتل کے داغ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مٹا دیا جائے۔ حاسدین کے سینوں پر بابر اعوان کا یہ خیال سانپ بن کر لوٹ رہا ہے ، انھیں ڈس رہا ہے اور وہ اس کی درد سے بلبلا رہے ہیں۔وہ اس پر مختلف قسم کی الزام تراشیوں پر اتر آئے ہیں وہ اس کی تذلیل کرنا چاہتے ہیں وہ اسے نیچا دکھانا چاہتے ہیں لیکن وہ ان سب گیدڑ بھبکیوں سے بے پرواہ ہو کر اپنے مشن میں جٹا ہوا ہے اور پی پی پی کے جیالے اس کے گرد حلقہ بنا کر بھٹو پر خون کے جھوٹے مقدمے کو باطل ثابت کرنے کے لئے اس کے ساتھ کھڑے ہیں اور اس کی ہمت بڑھا رہے ہیں۔اس نے اعلان کر رکھا ہے کہ اس ریفرنس میں عدالت کے روبرو بابر اعوان نہیں بلکہ خود ذوالفقار علی بھٹو بولے گا ۔میری آواز بھٹو کی آواز ہو گی سچائی کی آواز ہوگی ،عوام کی آواز ہوگی ،ایک بے گناہ کی آواز ہوگی، حق و صداقت کی آواز ہو گی اور جیت اسی آواز کا مقدر ہوگی کیونکہ آخری فتح سچ ہی کا مقدر ہوا کرتی ہے۔
Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 629 Articles with 516997 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.