کورونا وائرس۔۔۔ کہیں سازش تو نہیں؟

ویکیپیڈیا کے مطابق کورونا (Corona) لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی تاج یا ہالہ کے ہوتے ہیں۔ چونکہ اس وائرس کی ظاہری شکل سورج کے ہالے یعنی کورونا کے مشابہ ہوتی ہے، اسی وجہ سے اس کا نام ’’کورونا وائرس‘‘ رکھا گیا ہے۔سب سے پہلے اس وائرس کی دریافت 1960ء کی دہائی میں ہوئی تھی جو سردی کے نزلہ سے متاثر کچھ مریضوں میں خنزیر سے متعدی ہوکر داخل ہوا تھا۔ اس وقت اس وائرس کو ہیومن (انسانی)کورونا وائرس E229 اور OC43 کا نام دیا گیا تھا، اس کے بعد اس وائرس کی اور دوسری قسمیں بھی دریافت ہوئیں۔ عالمی ادارہ صحت کی نامزد کردہ nCov-2019 یعنی کورونا وائرس کی ایک نئی وبا 31 دسمبر 2019ء سے چین میں عام ہوئی۔ جو آہستہ آہستہ وبائی شکل اختیار کر چکی ہے۔ یہ وائرس اس لیے خطرناک ہے کہ یہ انسان سے انسان کے درمیان میں پھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔25جنوری 2020ء کو چین کے 13شہروںمیں ایمرجنسی لگا دی گئی تھی ۔ اس کے با وجود حالیہ معلومات کے مطابق یہ وائرس سو سے زیادہ ممالک میں پھیل چکاہے ۔عالمی ادارۂ صحت ( W.H.O.) نے اس وبا کو عالمی وبا قرار دے دیا ہے۔ پوری دنیا میں اس وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد چار ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ اس وائرس کی پیشن گوئی 25 سال قبل ہی کر دی گئی تھی۔کورونا وائرس کے بارے میں ایک امریکی فلم میں 1995 میں دکھایا گیا تھا کہ یہ وائرس جانور سے انسانوں میں منتقل ہوتا ہے۔امریکا میں اس کورونا وائرس جیسے جراثیم کے بارے میں 1995 میں ایک فلم بنائی گئی جس کا نام آؤٹ بریک تھا۔اس فلم کے مناظر میں دکھایا گیا ہے کہ ایک جنگلی بندر کو پکڑنے کی کوشش میں ایک شخص کو اس جانور کے پنجے مارنے کی وجہ سے وائرس منتقل ہوجاتا ہے۔پھر یہ وائرس آہستہ آہستہ دیگر لوگوں میں پھیلتا ہوا پورے ملک میں پھیلنے لگتا ہے۔یہ فلم ایک غیر افسانوی کتاب پر بنائی گئی تھی، فلم دی ہاٹ زون نامی یہ کتاب 1994 میں شائع ہوئی تھی جو 1992ء میں شائع امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے ایک آرٹیکل کی بنیاد پر رچرڈ پرسٹن نے لکھی تھی۔اس کے علاوہ ایک فلم ’’کانٹیجن‘‘ نامی 2011 ء میں ریلیز ہوئی تھی جس میں ایک وائرس کو بہت تیزی کے ساتھ انسانوں میں پھیلتا ہوا دکھایا گیا تھا۔اس فلم میں یہ دکھایا گیا تھا کہ ایم ای وی ایک حیوانی بیماری ہے جو جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوئی۔کورونا کے متعلق بھی یہی کہاجارہا ہے کہ یہ جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہواہے ۔
اسی طرح مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس نے 2018 ء میں ایک وائرس کی پیش گوئی کردی تھی۔بل گیٹس کا کہنا تھا کہ آنے والی دہائی میں ایک ایسا وائرس آئے گا جو وباء کی صورت اختیار کر لے گا۔انہوں نے اس وائرس سے ہونے والے نقصان کے بارے میں کہا تھا کہ نئی دہائی میں آنے والا وبائی وائرس 6 ماہ میں 3 کروڑ سے زائد لوگوں کی جان لے سکتا ہے۔بل گیٹس کا اس سے بچنے کے لیے کہنا تھا کہ دنیا کو وبائی امراض سے متعلق سنجیدگی سے سوچنا شروع کردینا چاہیے۔ ہوسکتا ہے کہ بل گیٹس نے اسی وائرس کی طرف نشاندہی کی ہویا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کورونا کے علاوہ اگلی دہائی میں آنے والے کسی اور وائرس کی نشاندہی ہو۔

اسی طرح 1981ء میں شائع ہونے والا امریکی ناول ’’The Eyes of Darkness‘‘ میں بھی پیشن گوئی کی گئی تھی کہ سن 2020میں پوری دنیا میں ایک شدید بیماری پھیلے گی جو پھیپھڑوںاور حلق کی نالی کو کو متاثر کرے گی۔ اس بیماری کا نام Wuhan-400بتایا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وائرس کا آغاز بھی چین کے شہر Wuhanسے ہوا۔ اسی ناول میں یہ پیشن گوئی بھی کی گئی ہے کہ یہ وائرس جس طرح اچانک نمودار ہوا ہے ، اسی طرح اچانک غائب ہوجائے گا اور پھر دس سال بعد دوبارہ ظاہر ہوگا پھر مکمل طور پر ختم ہوجائے گا۔ اگر تاریخ پر تھوڑی گہری نظر ڈالی جائے تو واضح ہوگا کہ جب بھی اس طرح کی موویز میں مستقبل کی پیشن گوئیاں کی گئیں ، وہ سب پوری ہوئیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ سب محض اتفاق ہے یا منصوبہ بندی ؟ اگر ان سب چیزوں کو محض اتفاق کہہ کرجان چھڑانے کی کوشش کی جائے تو یہ بھی آسان نہیں ہے۔ ایسی کئی پیشن گوئیاں ہیں جو کئی سالوں پہلے فلم یا کارٹون میں دکھائی گئیں ، پھر دنیا نے اسے حقیقت کا روپ دھارتے ہوئے دیکھا۔ اس کی واضح مثال ملاحظہ کریںکہ 17دسمبر1989میں مشہور امریکی کارٹون سیریز ’’The Simpsons‘‘ جاری کی گئی جس میں ایبولا نامی وائرس دکھایا گیا جو انسانوں میں منتقل ہوا۔ اس میں اس بات کا اشارہ بھی دیا گیا تھا کہ یہ وائرس افریقہ میں تباہی مچائے گا۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ 2014ء میں افریقی ملک لائبیریا میں یہ وبا پھوٹی اور ساتھ ہی دنیا کے اکثر ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور ہزاروں افراد اس وبا کا شکار ہوئے ۔ اسی طرح اس کارٹون کی ہر پیشن گوئی ہو بہو پوری ہوئی۔ نائن الیون پر حملہ، ٹرمپ کا صدر بننا، ہیلری کلنٹن کا الیکشن لڑنا وغیرہ۔

تمام حقائق و شواہد کی روشنی میں ان چیزوں کو محض ’’اتفاق ‘‘سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ فری میسن اور ایلو میناٹی گروپ کے یہودی ایسی موویز اور کارٹونز بناتے ہیں جس میں پہلے بتادیاجاتا ہے کہ ان کا اگلا منصوبہ کیا ہوگا۔ سب کچھ منصوبہ بندی کے تحت ہوتاہے۔ اور پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ چین بھی واضح طور پر کہہ چکا ہے کہ ہمارے ملک میں کرونا وائرس کی وبا امریکی فوج کے ذریعے داخل کی گئی ہے جو اکتوبر کے مہینے میں ’’ووہان‘‘ کا وزٹ کرنے آئے تھے۔ لہٰذا درج بالا تمام حقائق کی روشنی میں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ یہ وبا باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت پھیلائی گئی ہے جس کامقصد دنیا کی آبادی کو کم کرکے اور انہیںمعاشی طور پر کمزور کرکے پوری دنیا پر کنٹرول حاصل کرنا ہے ۔کاش کہ مسلم حکمران اس چیز کو سمجھ سکیں اور ان کی چالوں سے بچنے کے لیے وقت سے پہلے ہی احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ بہرحال یہ ان کی ناپاک چالیں ہیں، اللہ کی تعالیٰ کی اپنی خفیہ تدبیریں ہوتی ہیں جن کا اندازہ ہم نہیں لگاسکتے ۔ رجوع الی اللہ وقت کا تقاضا ہے۔ گناہوں سے معافی مانگیںاور استغفار کی کثرت کریں ۔ اللہ تعالیٰ اپنے حفظ و امان میں رکھے۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Muhammad Riaz Aleemi
About the Author: Muhammad Riaz Aleemi Read More Articles by Muhammad Riaz Aleemi: 79 Articles with 86676 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.