۱۳ دسمبر ۲۰۱۸ کو جیوتر دتیہ بہت پر امید تھے۔ انہیں
یقین تھا کہ راہل گاندھی مدھیہ پردیش کی وزارتِ اعلیٰ کا تاج ان کے سر پر
رکھیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ راہل گاندھی نے اپنے دوست کو صبر کی تلقین کی
اور کمل ناتھ کو ان کی طویل وفاداری کے عوض وزیراعلیٰ بنادیا۔ یہیں سےجو
دراڑ پڑی وہ ۱۵ ماہ بعد ایک پھوٹ کی شکل اختیار کرگئی۔ اس واقعہ کے ۸ ماہ
بعد بی جے پی نے ایوانِ پارلیمان میں کشمیر کی دفع ۳۷۰ کا خاتمہ کردیا۔
کانگریس نے انجام کی پرواہ کیے دونوں ایوانوں میں اس جبر کی جم کر مخالفت
کی لیکن جیوتر دیتیہ سندھیا نے الگ راگ الاپتے ہوئے اپنی ہی پارٹی کے خلاف
بی جے پی کی حمایت کرکے سب کو چونکا دیا ۔ یہ امیت شاہ کے لیے ایک اشارہ
تھا اور اسی وقت سے سندھیا کی نیت پر مختلف قسم کی قیاس آرائی ہونے لگی ۔
کانگریس نے اپنی مجبوری کے تحت گوں ناگوں وجوہات کی بناء پر اس باغیانہ
تیور کو نظر انداز کردیا ۔
اسی زمانے میں بی جے پی نے کرناٹک میں کانگریس اور جنتا دل کی مخلوط حکومت
کو خریدو فروخت کے ذریعہ گرادیا ۔ اس پر بی جے پی کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے
جیوتر دیتیہ سندھیا نے کہا تھا ’’بی جے پی کی یہی تمنا ہے کہ کس طرح
جمہوریت کو قتل کردیاجائے۔ ارونا چل پردیش میں انہوں نے یہ کیا، پھر منی
پور اور گوا وغیرہ میں بھی (یہی کرتے رہے)، کرناٹک میں وہی عمل دوہرایا
جارہا ہے۔ بی جے پی جب براہِ راست انتخاب نہیں جیت پاتی ہے تو وہ پچھلے
دروازے سے اقتدار کو قبضےمیں لینے پر اپنی توجہات مرکوز کردیتی ہے‘‘۔ یہ
عجب ستم ظریفی ہے کہ فی الحال جیوتردیتیہ بذاتِ خود بی جے پی کے جمہوری قتل
عام میں شریک کار بن گئے ہیں۔ وزارت کے لیے سیاست میں سب جائز کچھ ہے۔
۱۳ فروری کوسندھیا نے بنگال بی جے پی کے صدر پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ
’’یہ تشویشناک بات ہے کہ گاندھی جی کے ملک میں بی جے پی عوام پر گولیاں
برسانے کی وکالت کررہی ہے۔ اس طرح کے لوگوں پر بی جے پی کب کارروائی کرے
گی؟ اب بہت ہوچکا ‘‘۔ کیا جیوتردیتیہ کے کمل تھام لینے سے صورتحال بدل جائے
گی۔ بی جے پی گاندھی وادی بن کر گولیوں کے بجائے پھول برسانے لگے گی ۔ وہ
دن دور نہیں کہ جب رکن پارلیمان پرگیہ ٹھاکر ان کے ساتھ اسٹیج پر بیٹھ کر
گاندھی جی کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کی تعریف میں قصیدے پڑھیں گی اور ان کی
زبان پر تالا پڑا ہوگا۔ ۱۴ فروری کو پلوامہ حملے کی پہلی سالگرہ پر جیوتر
دیتیہ نے مودی سرکار سے پوچھا تھا ’’پلوامہ کے بدقسمت حملے کو ایک سال گزر
گیا۔ کیا اس پر کوئی سنجیدہ تفتیش ہوئی؟ اس کا ذمہ دار کون تھا؟ ہم کم ازکم
یہ کرسکتے ہیں کہ اپنے شہیدوں کی قربانی کو ضائع ہونے سے بچائیں ‘‘ ۔ کیا
اب ان سوالات کو دریا برد کردیا جائے گا ؟
مذکورہ بالا بیانات کے درمیان فروری ۲۰۲۰ میں جیوتر دیتیہ نے کانگریس کے
منشور میں شامل وعدوں کی عدم تکمیل پر بھی اعتراض کیا۔ انہوں نے دھمکی دی
کہ اگر وعدے پورے نہیں کیے گئے تو وہ سڑکوں پر اتریں گے۔ کانگریس ہائی کمان
اور وزیراعلیٰ نے اس وارننگ کو کوئی اہمیت نہیں دی یعنی نہ تو ان کی دادرسی
کی اور نہ کوئی تادیبی کارروائی ہوئی ۔ اس بیان کے چند روز بعد کمل ناتھ جب
پارٹی کی صدر سونیا گاندھی سے مل کر لوٹے تو نامہ نگاروں نے ان سے پوچھا کہ
جیوتر دیتیہ تو سڑکوں پر اترنے کی بات کررہے ہیں ؟ کمل ناتھ نے اس کے جواب
میں کمال بے نیازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ’’اتر جائیں‘‘ (اپنی بلا سے) ۔
کون جانے کہ یہ کمل ناتھ کی رعونت تھی یا تضحیک ؟ مگر اس تبصرے سے
وزیراعلیٰ نے اپنے ایک ساتھی کی ناراضگی میں بے شمار اضافہ کردیا ۔ سیاسی
رہنما وں کو اس طرح کا رویہ مہنگا پڑتا ہے اور بہت ممکن ہے کہ کمل ناتھ اس
کی بہت بڑی قیمت ادا کریں ۔
بی جے پی پر سخت تنقید کرنے والے جیوتر دیتیہ سندھیا کو ان کی دادی راج
ماتا وجئے راجے کے سبب سنگھی سنسکار کا حامل سمجھنا درست نہیں ہے ۔ ویسے
وجئے راجے نے بھی اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کانگریس سے کیا تھا مگر اس وقت
بھی وزیراعلیٰ کے رویہ سے بددل ہوکر پارٹی چھوڑ دی تھی ۔ کانگریس سے نکل کر
وہ جن سنگھ میں نہیں بلکہ جاگیرداروں کی جماعت سوتنتر پارٹی میں شامل
ہوگئیں ۔ اس طرح انہوں نے پہلے تو کانگریس کی صوبائی سرکار گرائی اور پھر
بی جے پی میں داخل ہوکر بابری مسجد کو شہید کیا۔ اس کے برعکس جیوتر دیتیہ
کے والد مادھو راو سندھیا نے جن سنگھ سے اپنی سیاسی زندگی شروع کی مگر پھر
کانگریس میں شامل ہونے کے بعد آخری سانس تک کانگریسی رہے ۔ کانگریس پارٹی
اگر مادھو راو سندھیا کی طویل وفاداری کا کچھ صلہ جیوتر دیتیہ کو تھما دیتی
تو شاید وہ اس طرح کا انتہائی قدم نہ اٹھاتے۔ کمل ناتھ کو معلوم ہونا چاہیے
کہ جمہوریت کی سیاست اصول و نظریہ کے بجائے مداہنت و منافقت کے پہیوں پر
چلتی ہے۔
جیوتر دیتیہ نے اپنے استعفیٰ سے دو ہفتہ قبل ۲۵ فروری کو ٹویٹ کرکے دہلی کے
فسادات پر وزیر اعظم نریندر مودی کی تیکھی تنقید کی۔ انہوں نے الزام لگایا
کہ مرکزی حکومت کے تقسیم وتفریق کی پالیسی کے سبب فسادات کی حالت بد سے
بدتر ہو تی چلی گئی ۔ وہ دوسرے دن کانگریس کی مجلس عاملہ میں مہلوکین کی
خاطر اظہار تعزیت کرنے والوں میں بھی شامل تھے۔ اس کے بعد خبر آئی کہ ۲۶
مارچ کو منعقد ہونے والے ایوانِ بالا کے انتخابات کی خاطر کاغذاتِ نامزدگی
داخل کرنے کی آخری تاریخ ۱۳ مارچ ہے۔ کانگریس کے لیے چونکہ تین امیدواروں
کو کامیاب کرنا ممکن ہے اس لیے دگوجئے سنگھ اور جیوتر دیتیہ کے ناموں کی
قیاس آرائی ہونے لگی ۔ ان ناموں پر کوئی حتمی فیصلہ کرنے کی خاطر۹ مارچ کو
کمل ناتھ نے سونیا گاندھی کے ساتھ ملاقات تو کی مگر جب نامہ نگاروں نے سوال
کیا کہ کیا جیوتردیتیہ کے نام پر غور ہوا تو کمل ناتھ کا جواب نفی میں تھا۔
مدھیہ پردیش میں کانگریس کی کامیابی کے بعد جیوتر دیتیہ کو وزیراعلیٰ نہ
سہی توڈپٹی چیف منسٹر یا صوبے میں پارٹی کا صدر بنایا جاسکتا تھا لیکن یہ
سب تو دور ان کے راجیہ سبھا میں جانے کے لالے پڑ گئے ۔ کمل ناتھ کو سوچنا
چاہیے تھا کہ بی جے پی ان کے لیے ایوان بالا کی رکنیت کے ساتھ وزارت بھی
طشتری میں لیے سربستہ کھڑی ہے۔ اپنے معاندانہ سلوک سے جیوتر دیتیہ کوکمل
ناتھ سفید چادر پوش زعفرانی کمل کی جانب ڈھکیلتے رہے یہاں تک کہ ۶ عدد
وزراء سمیت سندھیا کے حامی ۱۷ ارکان اسمبلی کے فون اچانک بند ہوگئے ۔ پہلے
تو ان کو گوالیار سے گروگرام بھیجا گیا اور اب وہ سب بنگلورو میں روپوش ہیں
۔اس بیش ۲۲ عدد استعفے گورنر کی خدمت میں پہنچ چکے ہیں ۔ کمل ناتھ کے پاس
سندھیا کو منانے کے لیے ۲۲ گھنٹے کی میعاد تھی جو انہوں نے گنوادی اور اسی
کے ساتھ گویا اپنی سرکار سے بھی تقریباً ہاتھ دھو بیٹھے۔ان تفصیلات سے صاف
ظاہر ہے کہ بی جے پی کی اس بڑی کامیابی میں جیوتردیتیہ سےبڑا حصہ کمل ناتھ
کا ہے۔ وہ اگر اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ساتھی کے احساسات
وجذبات کوسمجھتے اورہائی کمان ان کوایوانَ بالا کا ٹکٹ دے دیتی تو شاید یہ
دن دیکھنا نہ پڑتا ۔ خیر اب پچھتاوے کا ہوت جب چڑیا چگ گئی کھیت۔ اس طرح
کرناٹک کے بعد ایک اور صوبے میں بی جے پی تکڑم بازی کامیاب ہوتی نظر آرہی
ہے۔ (۰۰۰۰۰۰۰جاری)
|