سڈنی حملہ: ایک واقعہ، دو چہرے
(Haseeb Ejaz Aashir, Lahore)
حسیب اعجاز عاشر کسے خبر تھی کہ چند لمحوں میں سڈنی کی خاموش شام تاریخ کے ایک ایسے باب میں بدل جائے گی جو گولیوں کی آوازوں سے نہیں بلکہ سوالوں، تضادوں اور ضمیر کو جھنجھوڑ دینے والی حقیقتوں سے لکھا جائے گا۔ شہر کی روشن سڑکیں، معمول کی چہل پہل، بے خبر انسان اور اچانک ایک حملہ یہ سب کیسے ہوا؟ یہ سوال صرف سڈنی کے باسیوں کا نہیں، پوری دنیا کا ہے، خاص طور پر اُن لوگوں کا جو اسلام کو محض سرخیوں اور الزامات کی عینک سے نہیں بلکہ اس کے اصل جوہر کے ساتھ دیکھنا چاہتے ہیں۔ لمحہ بھر میں پھیلنے والی خوف کی لہر، چیخ و پکار، بھاگتے قدم اور فضا میں گونجتی گولیوں کی آواز نے انسان کو ایک بار پھر یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور ہم سے کہاں غلطی ہو رہی ہے قرآن کا واضح حکم ہے کہ جس نے ایک بے گناہ انسان کو قتل کیا گویا اُس نے پوری انسانیت کو قتل کیا، اور جس نے ایک جان بچائی گویا اُس نے پوری انسانیت کو بچا لیا۔ یہ محض ایک آیت نہیں، ایک مکمل تہذیبی اور اخلاقی نظام کا خلاصہ ہے۔ پھر وہ کون سا اسلام ہے جس کے نام پر بندوق اٹھائی جاتی ہے؟ دراصل وہ اسلام نہیں، بلکہ انسان کے اپنے اندر کا اندھیرا، اس کی نفسیاتی شکست، سیاسی مفادات اور بیرونی ایجنڈے ہیں جو مذہب کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں۔ مذہب تو ایک آئینہ ہے، اُس میں وہی عکس نظر آتا ہے جو انسان اپنے اندر لے کر کھڑا ہوتا ہے۔یہ کہنا کہ مسلمان انتہا پسند ہو سکتا ہے، ایک حد تک درست ہو سکتا ہے اگر انتہا پسندی سے مراد اپنے عقیدے پر مضبوطی سے قائم رہنا، اخلاقی اصولوں پر سمجھوتہ نہ کرنا اور حق و باطل میں واضح فرق رکھنا ہو۔ لیکن دہشت گرد ہونا، بے گناہوں کا خون بہانا، خوف پھیلانا یہ کسی صورت اسلام کی انتہا پسندی نہیں ہو سکتی۔ جو شخص واقعی اپنے مذہب میں انتہا پسند ہو گا، وہ سب سے پہلے اپنے نفس کے خلاف جہاد کرے گا، اپنے غصے، نفرت اور تعصب کو قابو میں رکھے گا، نہ کہ کسی معصوم پر گولی چلائے گا۔ یہی اصول ہر مذہب میں مشترک ہے؛ حقیقی مذہبی وابستگی کبھی فتنہ و فساد کا سبب نہیں بنتی، بلکہ امن، ضبط اور خدمت کا راستہ دکھاتی ہے۔ جب ابتدائی اطلاعات آئیں تو حسبِ روایت اسلام کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا۔ لیکن کہانی کا دوسرا رخ کہیں زیادہ چونکا دینے والاہے۔ گولی چلانے والا بھی مسلمان نکلا، اور وہ شخص بھی مسلمان ہی تھا جس نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر حملہ آور کو قابو کرنے کی کوشش کی، لوگوں کی جانیں بچائیں اور عملاً یہ ثابت کر دیا کہ اسلام کا اصل علمبردار کون ہے۔ ایک ہاتھ میں ہتھیار اور دوسرے میں انسانیت۔ اِس سانحے کے محرکات پر بات کی جائے تو وہ بھی دلخراش ہے،مسلسل ظلم و ستم جو فلسطینیوں پر برسوں سے ڈھایا جا رہا ہے، اور جس کے مناظر آج کے دور میں پوری دنیا براہِ راست اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے۔ معصوم بچوں کی لاشیں، ملبے تلے دبی مائیں، اجڑے ہوئے گھر، تباہ شدہ اسپتال اور وہ چیخیں جو عالمی ضمیر تک پہنچ کر بھی بے اثر رہتی ہیں یہ سب کسی ایک خطے کا المیہ نہیں بلکہ پوری انسانیت کا امتحان ہے۔ یہ ناانصافی اور بے حسی جب روزانہ اسکرینوں پر دہرائی جاتی ہے، اور ساتھ ہی طاقتور ممالک کی خاموشی یا جانبداری سامنے آتی ہے، تو دنیا بھر کے حساس دلوں میں ایک لاوا سا پکنے لگتا ہے۔ بدقسمتی سے کچھ کمزور اور غیر متوازن ذہن اس اجتماعی درد کو درست فہم اور صبر کے بجائے غصے اور انتقام کے راستے پر ڈال دیتے ہیں، اور یوں وہ ظلم کے خلاف آواز بننے کے بجائے خود ظلم کی ایک نئی صورت بن جاتے ہیں۔ حالانکہ بے گناہوں کو نشانہ بنانا نہ فلسطینیوں کے زخموں کا مداوا ہے اور نہ ہی اسلام یا انسانیت کی ترجمانی۔ اصل مجرم وہ نظام ہے جو ایک طرف مظلوموں کے خون پر خاموش رہتا ہے اور دوسری طرف اسی خاموشی کے نتیجے میں جنم لینے والے ردِعمل کو بنیاد بنا کر پورے مذاہب اور قوموں کو بدنام کرتا ہے۔ سڈنی میں جان ہتھیلی پر رکھ کر حملہ آور کو قابو کرنے والا مسلمان دراصل اُس اسلام کی عملی تصویر تھا جسے ہم کتابوں میں پڑھتے ہیں مگر خبروں میں کم دیکھتے ہیں۔ اُس نے یہ نہیں سوچا کہ سامنے والے کا مذہب کیا ہے، اس کا مقصد کیا ہے یا اس کا انجام کیا ہو گا؛ اُس نے صرف یہ دیکھا کہ بے گناہ جانیں خطرے میں ہیں، اور یہی اُس کے لیے کافی تھا۔ یہ وہ لمحہ تھا جس میں اسلام نے خود اپنا دفاع کیا، بغیر کسی تقریر، بغیر کسی نعرے کے۔ افسوس کہ ایسے کردار عالمی میڈیا میں چند لمحوں کی خبر بن کر رہ جاتے ہیں، جبکہ نفرت پھیلانے والی کہانیاں برسوں دہرائی جاتی ہیں۔ تعجب کی بات تو یہ ہے کہ حملہ آور کے بارے میں سامنے آنے والی اطلاعات، اُس کا مبینہ تعلق بھارت سے نکلا ، مگر بغیر کسی تحقیق اور تصدیق کے بھارتی میڈیا اور سوشل میڈیا ٹرول فیکٹریوں کا پاکستان مخالف بیانیہ چلتا رہا اور بکتا بھی رہا ۔ یہ سب کسی اتفاق کا نتیجہ نہیں لگتا۔ برسوں سے ایک منظم کوشش جاری ہے جس کے تحت ہر واقعے کو پاکستان اور اسلام سے جوڑ دیا جاتا ہے، یہاں سوال یہ نہیں کہ بھارت نے پروپیگنڈا کیوں کیا، کیونکہ یہ تو اُس کی سفارتی اور ابلاغی پالیسی کا مستقل حصہ بن چکا ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ دنیا کب تک اس یک رخی کہانی کو سچ مانتی رہے گی؟ کب یہ تسلیم کیا جائے گا کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، اور اگر کسی کا تعلق کسی ملک یا مذہب سے نکل بھی آئے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ملک یا مذہب خود دہشت گرد ہے۔ یہ وہ بنیادی نکتہ ہے جسے بار بار مسخ کیا جاتا ہے، تاکہ خوف کی سیاست زندہ رہے اور مخصوص ریاستی مفادات پورے ہوتے رہیں۔ اگر ہم دیانت داری سے دیکھیں تو سڈنی حملہ ہمیں آئینہ دکھاتا ہے۔ ایک طرف وہ شخص ہے جو مذہب کے نام پر قتل پر آمادہ ہے، اور دوسری طرف وہ مسلمان ہے جو انسانیت کے نام پر اپنی جان داؤ پر لگا دیتا ہے۔ فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ ہم کس کو اپنا نمائندہ سمجھتے ہیں۔ دنیا کو بھی یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ شور مچانے والوں پر یقین کرے گی یا خاموشی سے جان بچانے والوں کو سنے گی۔ اختتام انہیں الفاظ کے ساتھ کہ سڈنی کا یہ سانحہ کسی ایک مذہب، ایک قوم یا ایک خطے کا دکھ نہیں، یہ پوری انسانیت کے سینے میں پیوست وہ زخم ہے جس کا درد سرحدوں، زبانوں اور عقیدوں سے ماورا ہو کر محسوس کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر کا ہر صاحبِ دل مسلمان اس اندوہناک واقعے کی نہ صرف کھلے دل سے مذمت کرتا ہے بلکہ آسٹریلیا کے اُن لواحقین کے غم میں برابر کا شریک ہے جن کی زندگیاں ایک لمحے میں اجڑ گئیں۔ ہماری دعائیں اُن آنکھوں کے ساتھ ہیں جو اپنے پیاروں کی راہ تکتی رہ گئیں، اور ہمارے دل اُن ہاتھوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں جو اب خالی ہیں۔ اسلام ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ غم میں شریک ہونا، دکھ بانٹنا اور مظلوم کے ساتھ کھڑا ہونا ہی اصل انسانیت ہے، اور آج یہی پیغام سڈنی سے پوری دنیا تک جانا چاہیے کہ نفرت کے اندھیرے میں بھی ہمدردی کا چراغ روشن رکھا جا سکتا ہے۔ یہ سانحہ ہمیں جدا کرنے نہیں بلکہ جوڑنے کے لیے کافی ہونا چاہیے، تاکہ ہم سب مل کر یہ عہد کریں کہ انسان کی جان، عزت اور امن ہر اختلاف سے بالاتر ہیں۔ Haseeb Ejaz Aashir | 03344076757
|