اسمبلی یا عدالت؟ خیبر پختونخوا کی سیاست میں وارنٹ کلچر کی نئی قسط

کبھی سیاست پارلیمنٹ کے اندر ہوا کرتی تھی، کبھی سڑکوں پر، اور اب باقاعدہ طور پر عدالتوں اور تھانوں میں منتقل ہو چکی ہے۔ اسلام آباد اور خیبر پختونخوا کی حالیہ سیاسی صورتحال دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے جمہوریت نے وکالت کا کورس کر لیا ہو اور اسمبلی نے ضمانت قبل از گرفتاری کو اپنا مستقل ایجنڈا بنا لیا ہو۔

تازہ انکشاف یہ ہے کہ خیبر پختونخوا اسمبلی کے 92 میں سے 70 اراکین اسلام آباد میں مختلف مقدمات میں مطلوب ہیں۔ یعنی اسمبلی کم اور “واکنگ ایف آئی آر کلیکشن” زیادہ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تمام اراکین ایک ہی جماعت، یعنی پاکستان تحریک انصاف، سے تعلق رکھتے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے پارٹی ٹکٹ کے ساتھ ایک غیر اعلانیہ شرط بھی شامل تھی کہ اسلام آباد کے کم از کم دو تھانوں سے تعارف ضروری ہوگا۔ پولیس ریکارڈ بتاتا ہے کہ گزشتہ دو برسوں میں اسلام آباد کے مختلف تھانوں نے جو ایف آئی آرز درج کیں، وہ اب ایک مکمل فائل کی شکل اختیار کر چکی ہیں۔ اس فائل میں انسداد دہشت گردی ایکٹ، پولیس اور رینجرز پر حملے، سرکاری املاک کو نقصان، پرتشدد مظاہروں کی قیادت اور ریاستی اداروں کو للکارنے جیسے الزامات شامل ہیں۔ یعنی اگر کسی کو یہ غلط فہمی تھی کہ سیاست ایک “سافٹ اسکل” ہے تو اب وہ ایف آئی آر پڑھ کر دور ہو جانی چاہیے۔

اصل مزہ تب آتا ہے جب معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے اکثر معزز اراکین اسمبلی نے تاحال ضمانت بھی حاصل نہیں کی۔ شاید انہیں یقین ہے کہ اسمبلی کی رکنیت خود بخود ضمانت کا متبادل ہے، یا پھر وہ سمجھتے ہیں کہ عدالتیں بھی سیاسی کارکنوں کی طرح “وقت آنے پر” خود ہی ایڈجسٹ ہو جاتی ہیں۔اس پوری فہرست میں اگر کسی نے سبقت لی ہے تو وہ ہیں سابق وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور۔ ان کے خلاف اسلام آباد کے 18 مختلف تھانوں میں 52 ایف آئی آرز درج ہیں۔ یہ تعداد اتنی ہے کہ اگر ہر ایف آئی آر پر ایک پریس کانفرنس کر دی جائے تو اگلا الیکشن بھی اسی پر گزر جائے۔ 2022 سے نومبر 2024 تک کا یہ ریکارڈ اس بات کا ثبوت ہے کہ سیاست میں تسلسل ہو یا نہ ہو، مقدمات میں تسلسل برقرار رکھنا ضروری ہے۔

پولیس کے مطابق علی امین گنڈاپور اس وقت 11 مقدمات میں باقاعدہ مطلوب ہیں۔ یعنی وہ صرف سیاسی طور پر نہیں بلکہ قانونی طور پر بھی “ایکٹو” ہیں۔ ان پر ہنگامہ آرائی، سرکاری اہلکاروں پر حملے اور ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے جیسے الزامات ہیں۔ سوال یہ نہیں کہ الزامات درست ہیں یا غلط، سوال یہ ہے کہ اگر ایک شخص اتنے مقدمات کے باوجود سیاست میں متحرک رہ سکتا ہے تو پھر عام شہری کو تھانے کے چکر کیوں لگانے پڑتے ہیں۔موجودہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی بھی اس قانونی میلے میں پیچھے نہیں۔ ان پر انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت سات مقدمات درج ہیں، جن میں پولیس اہلکاروں پر حملے اور سرکاری رکاوٹیں کھڑی کرنے کے الزامات شامل ہیں۔ ایک عام آدمی اگر سڑک پر غلط جگہ گاڑی کھڑی کر دے تو چالان ہو جاتا ہے، اور یہاں وزیراعلیٰ صاحب پر اے ٹی اے لگنے کے باوجود نظام چل رہا ہے۔ اسے کہتے ہیں “اختیارات کا درست استعمال”۔

ڈپٹی اسپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی ثریا بی بی کے خلاف نومبر 2024 کے ایک پرتشدد مظاہرے کی قیادت کا مقدمہ بھی اسی کہانی کا حصہ ہے۔ سرکاری املاک کو نقصان اور امن و امان کی سنگین خلاف ورزیوں کی دفعات شامل ہیں۔ یعنی جو لوگ ایوان میں نظم و ضبط قائم رکھنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں، وہ سڑک پر نظم توڑنے کے الزامات میں نامزد ہیں۔ اس سے بہتر سیاسی علامت شاید ہی کوئی ہو۔وزیر بلدیات اور وزیر ہائر ایجوکیشن مینا آفریدی کے خلاف چار مقدمات درج ہیں، مختلف تھانوں میں۔ ہنگامہ آرائی، سرکاری اہلکاروں کی مزاحمت اور امن عامہ کو خطرے میں ڈالنے جیسے الزامات۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہائر ایجوکیشن کا قلمدان رکھنے والے وزیر کے کیسز پڑھ کر لگتا ہے کہ نصاب میں “احتجاجی سیاست 101” بطور لازمی مضمون شامل ہے۔

اسپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی بابر سواتی کے خلاف بھی تھانہ سیکریٹریٹ میں مقدمہ درج ہے۔ یعنی جس دفتر میں اسمبلی کے قواعد و ضوابط کی پاسداری کی جاتی ہے، اس کے سربراہ کا نام بھی پولیس رجسٹر میں موجود ہے۔ صوابی سے تعلق رکھنے والے فیصل ترکئی پر انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت سات مقدمات ہیں۔ لگتا ہے اے ٹی اے اب صرف دہشت گردی کے لیے نہیں، بلکہ “ہائی انٹینسٹی سیاست” کے لیے بھی استعمال ہو رہا ہے۔اس پوری صورتحال کو مزید حساس بنا دیتا ہے سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے بھائی عاقب اللہ کے خلاف مقدمے کی موجودگی۔ جب سیاست خاندانی ہو جائے تو مقدمات بھی خاندان کے ساتھ چلتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں سیاست کو وراثت کہا جاتا ہے۔

قانونی ماہرین بجا طور پر سوال اٹھا رہے ہیں کہ جب ایک صوبائی اسمبلی کے اتنے زیادہ اراکین مطلوب ہوں تو آئینی طور پر حکومت کیسے چلتی ہے؟ کیا کابینہ اجلاس سے پہلے حاضری لگتی ہے یا پولیس کلیئرنس؟ کیا اسمبلی سیشن کے ساتھ ساتھ عدالت کی تاریخیں بھی شیڈول کی جاتی ہیں؟سیاسی حلقوں میں یہ بحث بھی زور پکڑ رہی ہے کہ آیا یہ سب محض قانون کا نفاذ ہے یا سیاسی کشیدگی کا تسلسل۔ ایک فریق کہتا ہے یہ ریاستی جبر ہے، دوسرا کہتا ہے قانون سب کے لیے برابر ہے۔ سچ شاید درمیان میں کہیں ہے، لیکن اتنا واضح ہے کہ سیاست اور قانون کے درمیان لکیر اب تقریباً مٹ چکی ہے۔

اسلام آباد پولیس کا موقف ہے کہ تمام مقدمات قانون کے مطابق درج کیے گئے ہیں اور کسی کو عہدے یا سیاسی وابستگی کی بنیاد پر رعایت نہیں دی جائے گی۔ یہ بات سننے میں اچھی لگتی ہے، مگر سوال یہ ہے کہ اگر واقعی ایسا ہے تو پھر یہ تمام “مطلوب” لوگ روزانہ خبروں، جلسوں اور بیانات میں کیسے نظر آتے ہیں؟ شاید پولیس بھی میڈیا کوریج کے انتظار میں ہے۔یہ صورتحال وفاق اور صوبے کے درمیان تناو¿ کو بڑھا رہی ہے اور خیبر پختونخوا کی سیاست کو ایک غیر یقینی مرحلے میں داخل کر چکی ہے۔ آنے والے دنوں میں یہ معاملہ اسمبلی، عدالتوں اور سڑکوں تینوں جگہ گرم رہے گا۔ فرق صرف یہ ہوگا کہ کہیں نعرے لگیں گے، کہیں دلائل، اور کہیں وارنٹ۔

آخر میں سوال یہ نہیں کہ کون بے قصور ہے اور کون قصوروار۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے سیاست کو واقعی عوامی خدمت کا ذریعہ بنانا ہے یا پھر اسے ایک مستقل قانونی ڈراما بنا کر رکھنا ہے۔ کیونکہ اگر یہی روش رہی تو کل کو ووٹر بیلٹ پیپر کے ساتھ ضمانت نامہ بھی مانگنے لگے گا۔

#PakistanPolitics #KPAssembly #IslamabadCrisis #RuleOfLaw #PoliticalSatire #ConstitutionalCrisis



Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 890 Articles with 713282 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More