کرونا وائرس اور چینی تجربے سے سبق

کرونا وائرس جب پھیلا تو دنیا اس کے لیے تیار نہ تھی۔ یہ ایک نئی قسم کا کرونا وائرس تھا۔ چین سب سے پہلا ملک تھا جو کرونا سے متاثر ہوا۔ کرونا کا مقابلہ کرنا ہے تو چین کے تجربے سے سیکھنا ہو گا۔ چین نے جیسے تیسے کر کے کرونا کا مقابلہ دو طریقوں سے کیا۔ لاک ڈاون یعنی شہروں میں آمدورفت اور میل جول بند کر کے اور بار بار کورونا کے تشخیصی ٹیسٹ کر کے متاثر افراد کو علیحدہ کر کے۔ چین نے متاثرہ علاقے میں نقل و حمل مکمل بند کی۔ ساتھ ہی ساتھ بڑی تعداد میں بار بار تشخیصی ٹیسٹ کیے گئے۔ کرونا سے متاثرہ مریضوں کو مکمل علیحدہ کر کے ممکن علاج کیا گیا۔ آج چین میں حالات قدرے بہتری کی طرف جا رہے ہیں۔ کرونا سے لڑنے کے لیے اب تک صرف یہی دو اقدام کسی حد تک کامیاب ہو سکے ہیں۔ کوئی تیسرا طریقہ ابھی تک سامنے نہیں آ سکا۔ کرونا کا کوئی خصوصی علاج اور ویکسین ابھی تک موجود نہیں ہے۔ اٹلی نے چینی تجربے سے سبق حاصل کر کے مذکورہ دو اقدام اٹھانے میں سستی دکھائی۔ نتیجہ آج سب کے سامنے ہے۔

ہمارے وزیر اعظم نے شہر بند کرنے کو خارج از امکان قرار دیا ہے۔ یعنی پہلا قدم اٹھانے سے ہم نے خود ہی انکار کر دیا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ملک کے معاشی حالات اتنے مضبوط نہیں ہیں کہ شہر بند کیے جا سکیں۔ بچاو کا دوسرا طریقہ بار بار ٹیسٹ کر کے متاثرہ مریضوں کو علیحدہ کرنے کا ہے۔ لیکن یہ بھی ہمارے لیے پوری مستعدی اور مکمل طور پر کرنا ناممکن ہے۔ حکومت کے پاس تشخیصی کٹس بہت کم تعداد میں موجود ہیں اور یہ کٹس بہت مہنگی بھی ہیں۔ نتیجا ٹیسٹ صرف ان لوگوں کا کیا جا رہا ہے جن میں کرونا کی علامات سامنے آئی ہیں اور انہوں نے حال ہی میں بیرون ملک کا سفر کیا ہے۔ ظاہر ہے ان حالات میں کرونا سے متاثرہ بہت سے لوگ جن میں علامات سامنے نہیں آئیں کی تشخیص نہیں ہو سکے گی اور ان لوگوں سے وائرس بہت آسانی اور سرعت کے ساتھ غیر متاثرہ لوگوں میں پھیل سکتا ہے۔
یقینا اللہ کی رحمت سے ناامیدی کفر ہے لیکن عوامل یہی بتا رہے ہیں کہ مذکورہ دو اقدام نہ کیے گئے تو کرونا کے پھیلنے کا شدید خدشہ ہے۔ کرونا پھیلنے سے ہلاکتیں ہونے کا بھی اندیشہ ہے۔ بدقسمتی سے حکومت کا ردعمل اس بنیاد پر ہے کہ ہمارے لیے کیا کرنا مشکل ہے نہ کہ اس پر کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے جو کہ بہت مایوس کن ہے۔ ان ہنگامی حالات میں حکومت کو مشکل فیصلہ کرنا ہو گا۔ اپنی ترجیحات بدلنی ہوں گی۔ جیسے تیسے شہر بند کرنے ہوں گے۔ معاشی حالات سے لڑنا ہو گا۔ کرونا پھیلا تو نتیجہ تباہی ہی ہے۔ کیا معیشت انسانی جان سے زیادہ قیمتی ہے۔ شہر بند کر کے شہروں میں موجود دیہاڑی دار اور غریب طبقے کو ضرورت کا سامان پہنچایا جا سکتا ہے۔ تشخیصی ٹیسٹوں کے لیے مزید کٹس مقامی طور پر بنائی جا سکتی ہیں اور جیسے تیسے باہر سے درآمد بھی کی جا سکتی ہیں۔ مشکل کام ہیں لیکن ناممکن نہیں۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ہم نے یہ مشکل کام کرنے ہیں۔ قوموں پر ایسی آزمائشیں آتی ہیں۔ ان آزمائشوں کا مقابلہ وہی قوم کر سکتی ہے جو ہتھیار نہ ڈالے اور حقیقت پسند ہو کر مشکل فیصلے کرے۔ اللہ ہمیں اس آزمائش میں سرخرو کرے۔ آمین۔

 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Dr Shariq Iqbal Raye
About the Author: Dr Shariq Iqbal Raye Read More Articles by Dr Shariq Iqbal Raye: 2 Articles with 1046 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.